چلیں اب یہ حساب کتاب لگائیں۔ چار دن کی یہ ہوائی جنگ ہمیں کتنے میں پڑی ہے۔ ڈالر کا ریٹ کہاں پہنچا ہے۔ ائر پورٹس بند کرنے سے کیا نقصان ہوا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ کی کیا صورتحال ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کتنے نیچے گئے ہیں۔ دفاعی بجٹ میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ مارکیٹ انڈیکس کہاں کھڑا ہے۔ افراط زر نے کتنی چھلانگ لگائی ہے۔ یہ بھی دیکھیں۔ سفارتی سطح پر دنیا میں کونسا ملک ہمارے ساتھ کھڑا رہا۔ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی پر چین اور سعودیہ نے بھی بھارت کی مذمت نہیں کی ۔ یہ بھارتی پائلٹ کی اسقدر جلد واپسی کے پیچھے کہاں کہاں سے پریشر آیا ہے ؟ عمران حکومت جس معاشی دباو کا شکار تھی۔ ادھر سے کیا نکل آئی۔ اسٹیبلشمنٹ پر سیاست میں مداخلت پر جو دباؤ تھا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ اس دباؤ سے نکل آئی۔ اور قوم کی محبت مکمل واپس مل گئی۔ حکومتی معاشی ناکامی کا جو دباؤ اسٹیبلشمنٹ پر تھا۔ وہ کیا ہلکا ہوا۔ وہ جو جاسوسی کے الزام میں چند اعلیٰ افسرز پکڑے گئے تھے۔ وہ کیس پس منظر میں چلا گیا یا نہیں۔ اسی طرح ساہیوال کیس بھی ادھر ادھر ہوا کے نہیں۔ گویا دیکھنے اور تجزیہ کرنے کو تو بہت کچھ ہے۔
اسی طرح کیا مودی اگلا الیکشن جیت پائے گا یا نہیں؟ یہ چار دن صورتحال ایک میلو ڈرامے کی مانند تبدیل ہوتی رہی۔ پلوامہ واقع سے بھارت کی سبکی ہوئی۔ ان کے فوجی مارے گئے۔ بھارتی ٹی وی چینلز سنتے تو ایک عجیب جنگی ماحول نظر آتا۔ وزیراعظم مودی کہتے۔ آپ نے بہت بڑی غلطی کر دی۔ سزا تو ملے گی۔ طبیعت مکدر ہو جاتی۔ پاکستان کو ان کے اینکرز ایسے مخاطب کرتے جیسے پاکستان بھوٹان اور نیپال کے لیول کا ہو۔ جسے وہ پھونک مار کر بجھا دیں گے۔ چیونٹی کی مانند مسل دیں گے۔ اور پھر بالا کوٹ پر حملہ اور ہماری جانب سے خاموشی، دل جیسے ٹوٹ گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان تھا۔ لوگ پوچھ رہے تھے۔ تنقید کر رہے تھے۔ بھارتی جہاز واپس کیسے گئے۔ ادھر بھارت میں فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔ مودی کے الیکشن جیتنے کی پیش گوئی ہو رہی تھی۔ اور پھر ڈرامے میں ایک اور موڑ آیا۔ پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ میز الٹ گئی تھی۔ پاکستان نے بتا دیا وہ بھوٹان یا نیپال نہیں جسے بھارت دھمکالے گا۔ پاکستان ایک آزاد خومختار ملک ہے۔ اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے اب پاکستان میں جشن کا سماں تھا۔ حب الوطنی، قوم پرستی اور جذبہ شہادت عود کر آیا۔ جبکہ بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ ایک بھارتی پائلٹ بھی پکڑا گیا۔ یوں لگا اب فل سکیل جنگ ہوئی کہ ہوئی۔ سوشل میڈیا افواہوں اور من گھڑت باتوں سے بھر گیا۔ غزوہ ہند کی باتیں ہونے لگیں۔ دہلی پر قبضے کی باتیں ہونے لگیں۔ وہ لوگ جو سیاسی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ سول سپریمیسی کی جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ بھی دل و جان سے اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اتحاد اور یگانگت قائم ہو گئی۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا تھا۔ جنگ کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پھر وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ عقل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ اور پھر ایک بہترین موو کی اور بھارتی پائلٹ کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک اچھا قدم ،لیکن کیا بھارت اس کا مناسب جواب دے گا۔ وہ تو کہہ رہے ہیں۔ پائلٹ کی رہائی ہمارے اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت ہو رہی ہے۔ جنگ بھارت کی فیور میں ہے۔ علاقائی تناظر میں بھارت جنگ چاہتا ہے۔ مودی الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔ حالانکہ بھارت کو اپنی کشمیر پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے۔ کشمیری یوتھ کیوں بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا۔ ادھر عمران خان پھر اپنے مخالفین کی تنقید کی زد میں ہیں۔ لوگوں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ جبکہ بھارت میں ایک بار پھر خوشی کا سماں ہے۔ کیا ہم بھارت پر اعتبار کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اس خیر سگالی قدم کا ایسا ہی جواب دے گا۔ یا کل کلاں کو پھر کسی ایڈونچر پر اتر آئے گا۔ اس صورت میں پاکستان تیار ہے۔ لیکن جنگ بہرحال مناسب نہیں۔ اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ خاص طور پر جب دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔ ظاہر ہے۔ پاکستان اپنی سلامتی اور تحفظ پر کسی طور کمپرومائز نہیں کرے گا۔ تحریک انصاف کے فالوورز عمران خان کی امن کے واسطے کوششوں کو سراہ رہے ہیں۔ اور عمران خان کو ایک عالمی مدبر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ مخالفین کا خیال ہے۔ بین الاقوامی دباؤ بہت زیادہ ہے۔ اور پاکستان کی معیشت جنگ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ اسی لیے میں نے شروع میں کہا۔ چار دن کی ہوائی جنگ کا حساب کتاب لگانے کی ضرورت ہے۔ البتہ پاکستان کے پاس یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو اس قضیے میں شامل کر لے۔ اور کشمیر کے مسئلے کو دو طرفہ کی بجائے بین الاقوامی مسئلہ بنا دے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کسی کو بھی منظور نہیں۔ اور یہ مناسب موقع ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو ہائی لائٹ کروا لیا جائے۔
( بشکریہ : نئی بات ۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ