پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کی جانب سے کسی سیاسی پارٹی سے منحرف اراکین کے ووٹ کی حیثیت جاننے کے لیے عدالتِ عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر نے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے سماعت کی۔ عدالت نے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ 24 مارچ سے اس معاملے پر سماعت شروع کرے گا۔
اس موقعے پر عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت کے پاس پارلیمان کی کارروائی روکنے سے متعلق کوئی اختیارات نہیں ہیں۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے اور بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔
انھوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی بھی فریق کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت سے کہا کہ ’ہم نے او آئی سی کے احترام میں 23 کو ہونے والا جلسہ 27 مارچ تک ملتوی کیا ہے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ جو اراکین ووٹ ڈالنے جائیں وہ جھتے سے گزر کر جائیں گے اور آئیں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘جھتے سے گزر کر آنا جانا نہیں ہو سکتا، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ‘ڈی چوک سے جتنا دور حکومت رہے گی اتنا ہی ہم بھی رہیں گے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘جو بھی احتجاج اور جلسے ہوں ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے ہوں۔ ایک جماعت جہاں جلسہ کر رہی ہو وہاں دوسری کو اجازت نہیں ہوگی۔ دونوں فریقین کے جلسوں کی ٹائمنگ الگ ہو تاکہ تصادم نہ ہوسکے۔‘
کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا کوئی سوال ریفرنس میں نہیں اٹھایا گیا: چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق کہا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا کوئی سوال ریفرنس میں نہیں اٹھایا گیا۔
عداالت نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر حکومتی اتحادیوں کو نوٹس نہیں کر رہے ہیں، تمام جماعتیں تحریری طور پر اپنا مؤقف دیں گی۔
چیف جسٹس کے مطابق ‘موجودہ حالات میں حکومت کا موقف بہت بہتر نظر آ رہا ہے۔ تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں۔‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر باقاعدہ کارروائی شروع ہونے سے قبل صدر عارف علوی نے پارٹی سے منحرف اراکین کے ووٹ کی حیثیت جاننے کے لیے پیر کی صبح سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا تھا۔
یہ صدارتی ریفرنس وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر بھیجا گیا، جس کی بنیاد تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے ایسے 14 اراکین کو شوکاز نوٹس ہے، جس میں ان سے پارٹی سے انحراف سے متعلق وضاحت طلب کی گئی ہے۔
صدر عارف علوی نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’ریفرنس کچھ ممبران پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر فائل کیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے ان اراکین نے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کا فیصلے پر ردعمل
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسملبی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ عدالت سے ‘ہماری التجا تھی کہ (قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے) آئین اور قانون کی جو مدت تعین تھی اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ 25 مارچ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجلاس 14 دن بعد بلایا جا رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر نے او آئی سی کی آڑ میں جو قانون شکنی کی ہے وہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے پاس ہے، میں تبصرہ نہیں کروں گا۔
ان کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ جو او آئی سی ممالک میں مہمان آ رہے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم نے تو اس کانفرنس کے لیے ہم نے اپنا لانگ مارچ معطل کر دیا ہے۔ سپیکر نے جان بوجھ کر اجلاس نہیں بلایا اور ہمیشہ کوشش کی کہ وہ اپوزیشن کو ٹریپ کرے اور ہم او آئی سی کے حوالے سے کوئی ایسا رویہ اختیار کریں کہ حکومت کو موقع مل سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’ہم میں سے کسی جماعت نے عدالت سے رجوع نہیں کیا ہے، یہ وکلا بار نے کیا ہے۔ یہ حکومت اس عدم اعتماد اور اس الیکشن سے بھاگنا چا رہی ہے۔ پہلے انھوں نے عدم اعتماد پیش ہونے کے دو دن بعد پارلیمنٹ لاجز پر حملہ کر کے ڈرانے کی کوشش کی۔ پھر جب کچھ اراکین نے سندھ ہاؤس کو ترجیحح دی اور پھر سندھ ہاؤس اور ممبران کے خلاف مہم چلائی گئی۔ ان کے مطابق یہ دہشت پھیلانے کی ایک اور کوشش تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’حکومت نے سپیکر سے آئین توڑوایا۔‘ بلاول بھٹو نے سپیکر کو مشورہ دیا کہ وہ وکلا سے مشاورت سے کام کیا کریں وگرنہ آئین کی خلاف ورزی آپ کو آرٹیکل چھ میں پھنسائے گی۔
انھوں نے کہا کہ بے شک سپریم کورٹ سیاسی معاملے میں مداخلت نہ کرے مگر امید یہ ہے کہ سپریم کورٹ آئین، قانون اور جمہوریت کی سائیڈ لیں گے۔
نیوٹرل پر پوری پارٹی کا شیرازا بکھر گیا ہے: مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ جب سے نیوٹریلٹی کا چرچا ہے تو ایک شخص کی ہوا نکل گئی ہے۔ ان کے مطابق 22 سال کی جدوجہد کے بعد ایسا ہو رہا ہے، یہ حال تو میں نے کبھی کسی تانگا پارٹی کا بھی نہیں دیکھا ہے۔
انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ نے نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن کو نیوٹرل نہ رہنے دیا، آپ نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ آپ سازش کرتے رہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گنتی تو آپ کی کبھی بھی پوری نہیں تھی۔ نہ 2018 میں پوری تھی اور نہ آج پوری ہے تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کی گنتی پورے کر کے دے۔ آپ کے لیے آپ کے مخالفین کو سزائے موت کی چکی میں رکھیں۔
اگر کوئی یہ نہیں کر رہا ہے تو آپ انھیں جانور کہہ رہے ہیں۔
انھوں نے پوچھا کہ ’نیوٹرل ہونا کیا ہے۔ یہ آئین کی پاسداری ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے، آئین اگر اس کی اجازت دیتا ہے تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ کی کارکردگی مختلف ہے۔
آپ کی جماعت ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ آپ کو یہ آوازیں نہیں، چیخیں ہیں، اب آپ کو بچانے کوئی نہیں آئے گا۔ آپ کی گیم از ناؤ اوور۔‘ خیال رہے کہ صدارتی ریفرنس کے ذریعے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت، فلور کراسنگ، ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ بیچنے جیسے عمل پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی گئی ہے۔
خیال رہے کہ اتوار کو خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر جہاں اپوزیشن جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور منحرف اراکین کے خلاف بیان بازی کی، وہیں ان اراکین سے واپسی کا فیصلہ کرنے پر کوئی کارروائی نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
عمران خان نے منحرف اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ‘جو ارکان غلطی کر بیٹھے ہیں، آپ واپس آجائیں، میں آپ کو معاف کر دوں گا، آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔’
اس سے قبل وفاقی وزرا شیخ رشید اور فواد چوہدری نے بھی منحرف اراکین کو واپس آنے کی صورت میں عام معافی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے یہاں تک کہا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے پیسے لیں اور کام عمران خان کے لیے کریں۔
تاہم اس سے قبل عمران خان نے ان منحرف اراکین کو ‘ضمیر فروش’ بھی قرار دیا اور انھیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیشہ کے لیے آپ کے نام کے ساتھ لگ جائے گا کہ آپ ضمیر فروش ہیں، آپ کے لیے شادیوں میں جانا مشکل ہو جائے گا، لوگ آپ کے بچوں کے ساتھ شادیاں نہیں کریں گے۔’
صدارتی ریفرنس میں انحراف کے اس عمل کو ملک کی سیاست میں کینسر قرار دیا ہے اور اس کینسر کے مستقل علاج سے متعلق بھی ججز کی توجہ دلائی گئی ہے۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو یہ موقعہ دے رہا ہے کہ ’ملک میں جاری ہارس ٹریڈنگ، موقعہ پرستی اور کرپشن کے ڈرامے ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکیں۔‘
واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ وکلا کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی ایک آئینی درخواست پر بھی سماعت کر رہی ہے، جس میں عدالت سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں کارکنان میں تصادم کے خطرے کو روکنے کی ہدایات دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس درخواست کی پہلی سماعت پر ہی عدالت نے یہ واضح کیا کہ وہ سیاسی معاملات اور پارلیمان کے عمل میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
صدارتی ریفرنس میں کن کن سوالات پر رائے مانگی گئی ہے؟
صدر عارف علوی نے فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ سے متعلق ماضی میں دو ججز کی رائے پیش کر کے سپریم کورٹ سے چار بنیادی سوالات کی تشریح کی درخواست کی ہے۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اگر کوئی خیانت کرتا ہے اور اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے انحراف کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی ہے اور اسے ڈی سیٹ یعنی اپنے کیے کی سزا دیتے ہوئے اسے اس کی نشست سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس سوال میں ہی جو دوسرا نکتہ اٹھایا گیا ہے وہ یہ کہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے ایک وسیع مشاورت کے بعد آئین میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت ایسے رکن کو تاحیات نااہلی قرار دیا جا سکتا ہے تاکہ اس قسم کی دھوکہ دہی، غیرآئینی اور غیراخلاقی عمل میں شریک ارکان میں ڈر پیدا کیا جاسکے۔
ریفرنس میں سپریم کورٹ سے یہ رائے بھی مانگی گئی ہے کہ کیا ایسے غیراخلاقی عمل میں شریک منحرف اراکین کے ووٹ کی کوئی وقعت باقی رہ جاتی ہے اور کیا ایسے اراکین کو ووٹ دینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟
تیسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ ایسا رکن جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہتا اور اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیتا اور بعد میں اپیل میں سپریم کورٹ سے بھی اگر اسے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور صادق اور امین نہ رہے تو پھر کیا ایسے میں اس رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟
چوتھے سوال میں عدالت عظمیٰ کے ججز سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ موجودہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کیا ایسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جس سے انحراف، فلور کراسنگ اور ووٹ بکنے جیسے عمل کو روکا جا سکے۔
رائے مانگنے کے علاوہ صدارتی ریفرنس میں فلورکراسنگ، ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ کی فروخت جیسے عوامل کے جمہوری عمل پر پڑنے والے ’نقصانات‘ پر عارف علوی نے اپنی رائے دی ہے۔ ان کے مطابق جب تک اس طرح کی پریکٹسز کو ختم نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک صحیح جمہوری عمل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ