جیسا کہ توقع تھی، عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ مل گیا۔ سینیٹ الیکشن میں شکست کے بعد اعتماد کا ووٹ ضروری ہو گیا تھا تاکہ یہ حکومت آئندہ ڈھائی برس کے دوران میں اعتماد سے کام کرسکے۔ اب یہ فیصلہ مستقبل میں ہو گا کہ تحریک انصاف ووٹ لینے کے باوجود کتنی با اعتماد ہے۔
سینیٹ الیکشن سے اعتماد کے ووٹ تک صرف ایک ہی حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اس کے باوجود کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ اقدار کی سیاست کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن موجودہ منظرنامے اگر کوئی چیز غائب ہے تو وہ یہی ہے جسے اقدار کی سیاست کہا جارہا ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف، دونوں صرف پاور پالیٹکس کر رہے ہیں اور اس طرز سیاست میں اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر سوالات جائز ہیں لیکن کم ووٹ رکھنے کے باوجود صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپنے تناسب سے زیادہ نشستیں لینے والے کس طرح اخلاق کی دہائی دے سکتے ہیں؟ سینیٹ چیئرمین کے آئندہ الیکشن میں بھی حکومت اقلیت میں ہونے کے باوجود کامیابی کی خواہش مند ہے۔ ایک طرف چیئرمین سینیٹ کو کامیاب کرانے کی خواہش اور دوسری طرف گیلانی کی کامیابی پر اعتراض، یہ ایسا تضاد ہے جو کسی بھی سیاسی قیادت کو عوام کی نگاہ میں اعتبار سے محروم کر سکتا ہے۔ یہ اعتماد اس لیے بھی کم وزن ہے کہ عمران خان نے ان سترہ اٹھارہ ارکان سے بھی ووٹ لیا ہے جن کے بارے میں دو روز قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے ووٹ اور ضمیر فروخت کیے تھے۔ سرکاری ارکان کو ووٹ دینے کے لیے جو دھمکی آمیز خط لکھا گیا، یہ خط بھی تاریخ میں ہمیشہ ایک ناگوار یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
حفیظ شیخ کی شکست پر حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جس پر اس کی طرف سے بھی جواب آیا ہے۔ اس مناظرے کے نتیجے میں ریاستی اداروں کے درمیان ایک نئی قسم کی کشمکش شروع ہو گئی ہے، کھینچا تانی کی اس کیفیت کا واحد نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جائے۔
حالیہ واقعات میں ایک اور بدصورت واقعہ اعتماد کے ووٹ سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر پیش آیا جس میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے حزب اختلاف کی قیادت پر جسمانی حملے کیے۔ حملوں کی زد میں آنے والی حزب اختلاف کی ایک خاتون راہ نما بھی شامل تھی۔ ان واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ سیاست پر فاشزم غالب آ چکا ہے۔ فاشزم ایک ایسی بلا ہے جس سے صرف معاشرہ ہی برباد نہیں ہوتا بلکہ خود فاشسٹ طاقتیں بھی اسی تباہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نسل انسانی اس کا تجربہ بار بار کر چکی ہے اور خود پاکستانی قوم کو بھی اس کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ پاکستان تباہی کے اس راستے پر ایک بار پھر گامزن ہو چکا ہے۔ اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو پریشانی کی بات یہ ہے کہ اعتماد کا یہ ووٹ رائیگاں جائے گا۔ یہ واقعہ اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنی تقریر میں اس کی مذمت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر جو فاشزم کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا، وہ ان کی مرضی کے عین مطابق تھا۔
(بشکریہ:آوازہ)
فیس بک کمینٹ