ٹھیک 12 سال گزر گئے، یہ 13 مئی 2007ءکی شام تھی میرے موبائل فون پر ایک ٹیکسٹ میسج تھا کہ میاں نوازشریف کل صبح 14 مئی کو اپنے پارک لین والے فلیٹس پر صحافیوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پیر کا روز تھا لندن میں صبح کی بیشمار ٹریفک سے نکل کر میاں صاحب کی رہائش پر پہنچا تو دیگر صحافی دوست بھی کچھ موجود اور بعض ابھی نہیں پہنچے تھے۔ میاں نوازشریف کے ساتھ میاں شہباز شریف اور اُن دنوں مسلم لیگ ن کا ’دماغ‘ سمجھے جانے والے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ بھی موجود تھے۔میاں صاحبان کے پُرتکلف ناشتے سے فارغ ہوئے تو ہم چند صحافی ناشتے والے کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں آ کر بیٹھ گئے اور دو روز قبل کراچی میں ہونے والے سانحہ پر گفتگو کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میاں نوازشریف بھی اسی کمرے میں تشریف لے آئے، اس وقت میرے ساتھ ممتاز صحافی ضیاءالدین، رﺅف کلاسرا اور غلام حسین اعوان بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا، بے قصور اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا، چند لمحوں بعد میاں شہباز شریف بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے تو نواز شریف ضیاءالدین صاحب سے گویا ہوئے کہ آپ کو پتہ ہے اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون ہے اور اِس شخص کے آلہ کار کون تھے؟ پھر نواز شریف خود ہی بتانے لگے کہ آپ لوگوں کو تو علم ہے نا، ہمارے جو دوست ’جنرل صاحب‘ ہیں انہوں نے کل مجھے فون پر آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی تمام روداد بتا دی ہے۔
میاں صاحب نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جونہی یہ بات ختم کی ہم چاروں صحافیوں کا تجسس مزید بڑھا، میاں صاحب کہنے لگے ہمارے دوست جنرل صاحب نے بتایا ہے کہ وہ 12 مئی سے ایک روز پہلے عشرت العباد کے ساتھ گورنر ہاﺅس سندھ میں موجود تھے کہ گورنر نے جنرل پرویز مشرف کو فون ملایا اور کہا” سر! اگر ایسا کیا گیا تو سنبھالنا بڑا مشکل ہو جائے گا“ جواب میں پرویز مشرف نے سختی سے کہا ”نہیں یہ ہر صورت ہونا چاہئے تم اسی وقت میری بات الطاف حسین سے کراﺅ“ ۔ چنانچہ عشرت العباد نے فوراً ایسا ہی کیا، مشرف نے الطاف حسین سے بھی تقریباً یہی بات کہی کہ”Complete this at any cost”یہ کام بہر صورت ہونا چاہئے۔ لہٰذا الطاف حسین نے بھی اس ’کام‘ کی حامی بھر لی۔ اور پھر دُنیا نے دیکھا کہ اگلے ہی روز وہی ہوا جو مشرف اور الطاف حسین کی منصوبہ بندی تھی۔ میاں نوازشریف اپنی گفتگو کے دوران بار بار افسوس کا اظہار کر رہے تھے اور ہم بھی اپنی اپنی بات اور سوال کر رہے تھے۔ میاں صاحب نے مزید کہا کہ میں ’ان لوگوں سے ‘ اس قدر نفرت کرتا ہوں کہ پچھلی دفعہ جب میں وزیراعظم تھا اور حکیم محمد سعید کا قتل ہوا تو میں نے ”ایم کیو ایم“ کو تین دن کا وقت دیا تھا قاتلوں کو قانون کے حوالے کرنے کے لئے لیکن جب انہوں نے ایسا نہ کیا تو میں نے انہیں حکومت سے نکال دیا تھا۔ میاں صاحب کی ان باتوں اور انکشاف کے بعد پریس کانفرنس کا آغاز ہو گیا۔
سانحہ 12 مئی کیا ہے، یہ کیوں ہوا؟ اس کا پس منظر بیان کرنا بھی صروری ہے۔ یہ دن ملکی تاریخ کے بہت سے دیگر سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے ۔اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو معطل کرنے پر ملک بھر کے وکلاءنے احتجاج شروع کر رکھا تھا جب یہ احتجاج زور پکڑ گیا تو اس نے ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ آہستہ آہستہ وکلاءکے ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اپنا سارا وزن اس تحریک میں ڈال دیا۔ لاہور میں جب افتخار چودھری نے وکلاءسے خطاب کیا اور انہیں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی تو حکومت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ چنانچہ لاہور کے بعد جب انہوں نے 12 مئی 2007ءکو کراچی میں وکلاءسے خطاب کرنا تھا تو ایسے میں پرویز مشرف کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے جلسے جلوسوں اور مظاہروں پر پابندی عائد کر دیں۔ لیکن مشرف حکومت نے اس کی بجائے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اس نے اپنی حلیف جماعتوں کو جوابی وار کرنے اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی، چنانچہ کراچی میں یہ کام ”ایم کیو ایم“ کے علاوہ کون کر سکتا تھا؟ چنانچہ ”متحدہ“ نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے 12 مئی کو ہی اپنے جلسے کا اعلان کر دیا اور پھر حکومتی جماعت مسلم لیگ ق نے بھی اسی دن اور اسی وقت کراچی میں جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ کراچی میں 11 مئی کو ہی حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے اسی رات مسلم لیگ ن کا ایک کارکن قتل کر دیا گیا ،انتظامیہ نے راتوں رات شہر کی تمام اہم شاہراہوں پر کنٹینر کھڑے کر دیئے اور شہر کو مفلوج کر دیا، شر پسندوں کو روکنے کے لئے پولیس کو اسلحہ نہ دیا گیا بلکہ انہیںغنڈوںکو جن کا تعلق ”ایم کیو ایم“ سے بتایا جاتا تھا‘ کوفری ہینڈ دینے کا حُکم دیدیا گیا۔اُس وقت کی ”متحدہ“ کے خاص قسم کے غنڈے 12 مئی کو ان سیاسی جماعتوں کے قافلوں پر حملہ آور ہوتے رہے جو چیف جسٹس کے استقبال کے لئے اکٹھا ہو رہے تھے ،اس سارے افسوسناک واقعہ میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔متحدہ نے اپنا جلسہ کیا جس سے الطاف حسین نے خطاب کیا، متحدہ کے غنڈوں نے سرعام لوگوں پر گولیاں چلائیں، ٹیلی ویژن چینلز مالکان اور صحافیوں کو دھمکیاں اور ان پر تشدد بھی کیا گیا، ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر مسلسل چھ گھنٹے تک گولیاں چلاتے رہے، چیف جسٹس کراچی ایئرپورٹ پر محصور ہو کر رہ گئے اور ملک کا صدر اسی شام کو اسلام آباد میں مکے لہراتا اور بھنگرے ڈالتا رہا جبکہ کراچی خون میں نہا چکا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس سے اگلے روز وزیراعظم شوکت عزیز نے الطاف حسین کو لندن فون کر کے طویل گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں 50 لاشیں گرانے کی ”خدمت“ کو سراہا!!
اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات ہوئیں تو عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ ارباب رحیم، الطاف حسین اور وسیم اختر کے خلاف عدالت پیش نہ ہونے پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے اور حکومت سے 35 سوالوں کے جواب طلب کئے لیکن عدالتی حکم کو ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ بلدیہ فیکٹری کا سانحہ ہو، 12 مئی کا سانحہ ہو، سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہو یا عمران خان کی حکومت میں رواں سال 19 جنوری 2019ءکو ہونے والا سانحہ ساہیوال اور اس قسم کے درجنوں واقعات جو ملکی تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سبھی واقعات مختلف حکومتوں کے ادوار میں ہوئے لیکن آج تک کسی بھی سانحہ کے ملزموں کو گرفت میں لینے یا ان کی سزا کے بارے میں کوئی حتمی کارروائی سامنے نہیں آ سکی جو یقینا قابل توجہ اور افسوسناک ہے۔ بلدیہ فیکٹری کا واقعہ 11 ستمبر 2012ءکو کراچی میں ہوا جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، 12 مئی 2007ءکو پرویز مشرف حکمران تھا، 17 جون 2014ءکو ماڈل ٹاﺅن سانحہ ہوا جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور 19 جنوری کو سانحہ ساہیوال ہوا تو ”پی ٹی آئی“ کی حکومت اور عمران خان وزیراعظم ہیں۔ بلدیہ فیکٹری سانحہ میں 300 افراد زندہ جل گئے، ماڈل ٹاﺅن سانحہ میں 14 افراد گولیو ںکا نشانہ بنے، 12 مئی سانحہ میں 50 سے زیادہ افراد جان سے گئے اور سانحہ ساہیوال میں چار معصوم لوگ پولیس کی گولیوں سے جاں بحق ہوئے۔ حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ان تمام سانحات کے ذمہ داروں کو تو تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں تمام ذمہ دار سامنے اور دندناتے پھرتے ہیں، آتی جاتی حکومتوں اور ان کی مجرمانہ خاموشی سے بہت سے شکوک تو جنم لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات بھی اٹھتے اور ریاست کی کمزوری کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔
ذکر کئے گئے ان تمام سانحات میں صرف ایک دفعہ پرویز مشرف کے سایہ تلے نام نہاد جمہوری حکومت قائم تھی لیکن دیگر واقعات جب ہوئے تو جمہوری حکومتیں ہونے کی دعویدار قیادتیں جو مشرف کو تو آمر اور مطلق العنانیت کا الزام و طعنہ دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اپنے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ 14 مئی 2007ءکو میاں نوازشریف کی جس گفتگو کا حوالہ میں نے دیا ہے محترم ضیاءالدین، رﺅف کلاسرا اور غلام حسین اعوان میری باتوں کے گواہ ہیں جن کے سامنے میاں صاحب نے یہ گفتگو کی ۔لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ 2013ءمیں نوازشریف ایک دفعہ پھر وزیراعظم بنے تو انہوں نے کیا 12 مئی کے ملزموں کو سزا دی؟ بلکہ انہوں نے تو اس سانحہ کے صریح سہولت کار سمجھے جانیوالے عشرت العباد کو مسلسل اپنا گورنر بنائے رکھا!! اسی طرح پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف بھی پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہےں۔ اس قسم کے انسانی سانحات پاکستانی میڈیا کیلئے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں 12 مئی 2007ءکو سبھی نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہو گی کہ اس روز صبح سے رات تک کسی ٹی وی چینل نے اپوزیشن کے کسی جلوس کی فوٹیج نہیں دکھائی حالانکہ کئی صف اول کے اپوزیشن لیڈر ریلیوں کو لیڈ کر رہے تھے لیکن میڈیا صرف حکومتی جماعتوں کو رپورٹ کرتا رہا۔ میڈیا ایک مخصوص قسم کا ایجنڈا آگے بڑھانے پر مجبور کیوں تھا؟ اس کی وجہ بڑی سیدھی اور صاف ہے کہ ’اوپر‘ سے ہدایات بلکہ زبردست وارننگ اور دباﺅ ہی یہی تھا کہ اپوزیشن کو بالکل کوریج نہیں دینی لہٰذا میڈیا یہ دباﺅ طوہاً و کرہاً برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا آخر، کب تک عوام کی نظر سے حقائق پوشیدہ رکھ کر ان کا خون ناحق بہتا رہے گا اور قاتلوں کو سزا بھی نہیں ملے گی، کب تک میڈیا ناجائز حکومتوں، ریاستی اداروں اور تشدد کے حامی گروہوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہے گا، کیا اب وہ وقت آ نہیں گیا کہ سیٹلائٹ کے اس تیز دور میں پاکستان کا میڈیا جہاں عوام کے حقوق کی جنگ لڑے گا وہاں خود کو ’آزاد کرانے کی سعی تمام کرے گا؟
(بشکریہ : روزنامہ خبریں )