ماہ و سال کی منزلیں اونچ نیچ سے عبارت ہیں۔ کچھ دکھ انسانی بساط سے ماورا ہوتے ہیں۔ اب مٹھی سے گرتی سانس کی ریت کو کوئی کیسے روک سکتا ہے؟ موت برندا بن کے جنگلوں میں اونچی گھاس اور غدار دلدلوں میں چھپا ایک درندہ ہے جو ایک ایک کر کے ہمارے دوست چھین لیتا ہے۔ جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر / وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ایک روز یہ درندہ ہمیں بھی اٹھا لے جائے گا۔ ہماری دنیا، اس کے قصے، محبتیں، بے سبب دشمنیاں، آرزوئیں ہماری آنکھ کی کھڑکی بند ہوتے ہی تمام معنی کھو دیں گی۔ بہت اوپر خلا میں ستارے اسی طرح ناقابل یقین بےگانگی کے ساتھ اپنے مدار میں گردش کرتے رہیں گے۔ گلی کی نکڑ پر شکستہ دیوار سے نکلی خودرو ٹہنی کے گرد آلود پتوں پر دھوپ کا ٹکڑا ہر روز کی طرح کچھ دیر ٹھہر کر آگے بڑھ جائے گا۔ اسلم انصاری کی ایک نہایت خوبصورت نظم ہے، ’گوتم کا آخری وعظ‘۔ آخری سطریں ملاحظہ فرمائیے:
یہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، یہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظیم کو کون سہ سکا ہے
کلام دکھ ہے، کہ کون دنیا میں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے
یہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
مرے عزیزو، تمام دکھ ہے!
اگر ساری جمع تفریق کا انت دکھ ہے تو کیا ہتھیار ڈال دیے جائیں؟ جنگلوں کی راہ لی جائے؟ درویش نے جن اساتذہ سے فیض اٹھایا، ان کا یہ مسلک نہیں تھا۔ وجود کا جو وقفہ ہمارے حصے میں آیا ہے، اس پر تشکر واجب ہے۔ وجود کا تشکر وجود کو معنی بخشنے سے ترتیب پاتا ہے۔ یہ معنی کسی اسم اعظم میں مستور نہیں ہیں۔ کسی مخطوطے میں رقم نہیں ہیں۔ کسی صدری نسخے میں محفوظ نہیں ہیں۔ وجود کا حسن ہی معنی کے لامحدود امکانات سے پھوٹتا ہے۔ ہمارے عہد کے گیانی فیض احمد فیض بدترین صورت حال کو نظم کرتے ہوئے بھی اپنی سطروں میں امید کی سرگوشی رکھنا نہیں بھولتے تھے۔ میرے محدود علم کے مطابق، فیض صاحب کی مایوسی اس نظم میں اپنی انتہا کو پہنچی جس کا پہلا مصرع ہے: اس وقت تو یوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ نظم فیض صاحب نے مارچ 1982 میں لکھی تھی۔ ہمارے تاریخ کے تاریک ترین برسوں میں سے ایک سال۔ آمریت کا زہر ہر رگ جاں سے گزرتا مساموں تک پہنچ گیا تھا۔ قوم کے اعصاب مسلسل شکست سے شل ہو چکے تھے۔ ادھر شاعر کو احساس تھا کہ جیون کی نیا تیزی سے آخری کنارے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میو ہسپتال میں صاحب فراش تھے۔ ایسے میں نظم کا آخری مصرع یاد کیجئے۔ ’ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے‘۔
سادہ سا مسلک ہے۔ سانس کو تو بہرحال خلائے بسیط میں گم ہو جانا ہے۔ سانس کا خراج یہ ہے کہ اسے اس طرح خرچ کیا جائے کہ اس دنیا کے حسن میں کچھ اضافہ ہو سکے جس میں ہمیں جینے کا موقع ملا۔ ہم سے پہلے اس دنیا میں گزرنے والوں کی سعی سے ہماری منزلیں سہل ہو گئیں۔ بس ہمیں اسی طرح حسب توفیق خوبصورتی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا آنے والوں کی نذر کرنا ہے۔ کوئی تصویر، کوئی گیت، کوئی خیال، ایک مجسمہ، ایک کتاب، ناانصافی کی خلاف ایک آواز، ظلم کی مزاحمت میں ایک حرف انکار۔ قانون کی کتاب میں ایزاد کیا ایک اصول، پارلیمنٹ میں پیش کیا ہوا ایک مسودہ قانون، کسی رسم کہن سے انحراف۔ گوتم بدھ نے دکھ کا پہاڑ دیکھا اور ہمیں دکھانا چاہا۔ مائیکل اینجلو نے ہتھوڑے کی مسلسل ضرب سے اس چٹان کے کچھ فالتو ٹکڑے اڑا کے رکھ دیے۔ بے معنویت کے بدہیئت تودے سے کچھ جیتے جاگتے خوبصورت مجسمے برآمد کئے۔ بس ایک اکیلی زندگی میں یہی ممکن ہے اور اس سے بہتر ممکن ہی نہیں۔ موسیقار خاموشی کے خلا سے گیت کا سر پیدا کرتا ہے۔ صحافی بے خبری کے تالاب میں خبر کا پتھر پھینکتا ہے۔ استاد سوال کرنا سکھاتا ہے۔ مصور کورے کاغذ پر لکیر کا پیچ و خم ثبت کرتا ہے۔ سیاسی کارکن تاریخ کا تضاد واضح کرتا ہے۔
راشد نے اپنے خواب بیان کرتے ہوئے ایک زوردار استعارہ استعمال کیا۔ سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ…. دو ٹانگوں پر ایستادہ انسان کا کاسہ سر مسلسل ہیچ ہونے سے انکاری ہے۔ لاہور کے لنڈا بازار میں لالہ لاجپت رائے کے سر پر لاٹھیاں لگیں تو ان کا کاسہ سر انبوہ کے سیل رواں سے الگ ہو کر موج گہربار ہو گیا۔ لائل پور کا بھگت سنگھ پھانسی پر جھول گیا تو امر ہو گیا۔ 1942 میں میونخ یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ نے سفید گلاب کے نام سے عدم تشدد پر مبنی مزاحمت شروع کی۔ سب کے سب مارے گئے مگر بتا دیا کہ فسطائی جرمنی کی ظلمت میں بھی ضمیر انسانی بیدار رہتا ہے۔ حسن ناصر نے نومبر 1960 میں لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں شہادت پائی تھی۔ سید قطب شہید کو اگست 1966 میں مصر کے جمال عبدالناصر نے دار پر سربلند کیا تھا۔ فروری 1984 میں دہلی کی تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ اکتوبر 1985ءمیں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نے بینجمن مولائس کو پھانسی دی تو منو بھائی نے روز نامہ جنگ میں ایک کالم لکھا تھا۔ درویش تب جوانی کی منزل میں تھا۔ 33 برس بعد بھی یہ کالم لفظ بلفظ حفظ ہے۔ مئی 1989 میں ایک نوجوان لڑکا بیجنگ کے تیننامن چوک میں ٹینکوں کی قطار کے سامنے بازو پھیلائے کھڑا ہو گیا تھا۔ مئی 2011 میں اسلام آباد سے گم ہونے والے صحافی سلیم شہزاد کی مسخ شدہ نعش منڈی بہاؤ الدین کی نہر سے ملی تھی۔
رواں برس فروری میں ایرانی نژاد کینیڈین یونیورسٹی استاد کاؤس سید امامی تہران کی ایون جیل میں مارے گئے۔ رواں ماہ سعودی نژاد صحافی جمال خشوگی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے مگر باہر نہیں آ سکے۔ عجیب موسم ہے۔ امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ صحافت پر حرف طعن سے اپنی کم سوادی کا انتقام لیتا ہے۔ روس کا حکمران پیوٹن صحافت سے خائف ہے۔ ایغور مسلمانوں کے بارے میں خبر برطانیہ کے ڈیلی میل میں شائع ہوتی ہے اور اسے ری ٹویٹ کرنے کے جرم میں اسلام آباد کے سفارت خانے سے مذمت کی جاتی ہے۔ خیال تھا کہ ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری خود بھی صحافت سے منسلک رہے ہیں۔ اہل صحافت کی مشکلات کے بارے میں حساس ہوں گے۔ لیکن صاحب ذی وقار نے تو صاف کہہ دیا کہ انہیں صحافیوں کی کسی شکایت کا علم نہیں۔ مقام مسرت ہے کہ ملک کے جید صحافی محمود شام نے غیرملکی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کے خیالات کی تائید فرمائی ہے۔ یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لئے…. واللہ اگر رنجش کا امکان ہوتا تو لائل پور کے صحافی کی لغت دشنام کیا بیچتی ہے۔ فقیر کے وطن مالوف کی ہر اینٹ سے نئے ردیف قافیے میں صدائے آرزو سنائی دیتی ہے۔ لیکن ایک مدت ہوئی، مجھے غصہ نہیں آتا کیونکہ مرشد کا فیضان ہے۔ تاریخ کا فرمان ہے…. لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے۔ ہمت کرو، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے….
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ