ناصر کاظمی نے کہا تھا، فسردہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے…. اور کیوں نہ ہوں، میر تقی کے لفظوں میں دلوں کی آگ بجھ گئی ہے، سوختہ جان افسردہ ہیں۔ ابھی 23 مارچ گزرا۔ یہ صدمہ اپنی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے کہ 1956 میں یوم جمہوریہ کے عنوان سے جشن طرب کی جو روایت شروع کی تھی، اسے دو برس بعد یوم پاکستان کی مقبول مگر محل نظر اصطلاح بخش دی گئی۔
یوم پاکستان کا سرنامہ تو 14 اگست کی تاریخ کو زیب دیتا تھا جب ہم نے پاکستان حاصل کیا۔ 23 مارچ تو 1940 کی اس قرارداد سے منسوب تھا جسے برسوں قرارداد لاہور کہا گیا۔ حادثہ یہ ہوا کہ اس ملک کے جمہور اہل مقہور ٹھہرے۔ جمہور کا حق حکمرانی چھن گیا تو یوم جمہوریہ بھی حرف غلط قرار پایا۔ مناسب ہے کہ آج اسی روشنی میں دل عشاق کی خبر لی جائے۔ کبھی پھول کھلتے تھے ان مہینوں میں….
انیسویں صدی امید کی صدی تھی۔ فکر اور عمل کے میدان میں ایسی منزلیں طے کی گئیں جن کا ماضی میں تصور بھی مشکل تھا۔ تفصیل کا یارا نہیں، بس یہی دیکھ لیں کہ فلسفے اور معیشت میں کارل مارکس، ذہن انسانی کی تشریح میں سگمنڈ فرائیڈ، ارتقائے حیات میں ڈارون اور فزکس کے اصولوں میں نئی زمینیں دریافت کرنے والے آئن سٹائن نے اس صدی میں نمود پائی۔ علم و ادب کی بات ہو تو ٹالسٹائی، دوستوئفسکی اور والٹ وٹمن نے نئے آفاق تخلیق کئے۔ مصوری کی دنیا میں مونے، منچ اور رینائر نے لکیر اور رنگ کی لغت ہی بدل ڈالی۔
ایجاد، دریافت، اختراع اور تسخیر کی اس ہماہمی سے گمان ہوا کہ انسان کے بڑھتے قدموں کو اب روکا نہیں جا سکے گا۔ مگر بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں نے ایسی آفت برپا کی کہ انسانی ترقی کے بے روک ٹوک سفر کا یقین جاتا رہا۔ سائنس اور فکر کے نتائج کی قطعیت پر اعتماد متزلزل ہو گیا۔ لیکن یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ صدی کا آغاز انقلاب روس کے نقارے سے ہوا، وسط صدی میں نوآبادیاتی نظام ختم ہو گیا اور صدی ختم ہوتے ہوتے یورپ، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں جمہوریت کی یلغار نے ایسا زور باندھا کہ فرانسس فوکویاما نے 1992 میں ’تاریخ کا اختتام اور آخری آدمی‘ نامی کتاب میں لکھا کہ ’انسانیت نے محض بعد از جنگ تاریخ کا ایک مرحلہ ہی طے نہیں کیا بلکہ انسانیت کا فکری ارتقا اپنے نقطہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب لبرل جمہوریت ہی نظام حکومت کا حتمی نصب العین قرار پائے گی‘۔
اور پھر ہم نے دیکھا کہ جس طرح انیسویں صدی کی امید یورپ کی کیچڑ بھری خندقوں اور روس کے برفانی میدانوں میں روندی گئی تھی، فوکویاما کی رجائیت بھی نائن الیون کی صبح منہدم ہو گئی۔ اکیسویں صدی لاتعلقی، زورآوری اور مایوسی کی کیفیات لے کر آئی ہے۔ دنیا کے وسیع منطقوں میں جمہوریت کی پیش قدمی رک گئی ہے۔ انسانی حقوق کی پیش رفت پر سرکاری پرچہ نویس کی چرب زبانی غالب آ گئی ہے۔ بظاہر مستحکم جمہوریتوں میں بھی مطلق العنان رجحانات فروغ پا رہے ہیں۔ اسلحہ بیچنے والوں نے نفرت اور تصادم کے نئے مورچے کھود لئے ہیں۔ فضا میں اوزون کے سوراخ تو بند کر دیے گئے لیکن دھرتی پر اکثریت کے استبداد کا گڑھا پھیلتا جا رہا ہے۔
گاندھی جی کا عدم تشدد آر ایس ایس کے بیانیے سے شکست کھا رہا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے دیس میں ڈونلڈ ٹرمپ دندنا رہا ہے۔ قائد اعظم نے جو ملک بنایا تھا وہاں فواد چوہدری، شیخ رشید، کیپٹن صفدر اور خادم رضوی کی شعلہ بیانی لپک رہی ہے۔ اقبال نے جن تازہ بستیوں کے آباد ہونے کی نوید دی تھی، ان کی تعمیر کے لئے پراپرٹی ڈیلر میدان میں اتر آئے ہیں۔
آج مرا دل فکر میں ہے…. مجھے گھوٹکی کے ہری لال کا نالہ و شیون بے قرار کئے ہوئے ہے جس کی پگڑی زورآوروں کے پاؤں تلے روندی گئی ہے۔ مجھے بہاولپور کے اس قاتل طالب علم کی انسانیت، تہذیب اور شعور سے خالی نظروں سے وحشت ہو رہی ہے جس کے پاس دلیل کے نام پر ایک لفظ نہیں، اندھے جنون کا لپکتا ہوا شعلہ ہے۔ اور کیوں نہ ہو، ملکی فضا میں برسوں سے جنون کا نعرہ موجزن ہے، ہر بیان دبنگ ہے، ہر جواب کرارا ہے اور مکالمے کو کمزوری سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
فیس بک پر نظر ڈالنے سے گھن آتی ہے۔ وہاں جو لغت استعمال ہو رہی ہے، وہ احساس کمتری، جہالت اور بدتہذیبی کے اجزا سے مرتب ہونے والا ملغوبہ ہے۔ اپنے وطن سے محبت بازار کی جنس نہیں جسے چھابڑی پر رکھ کے فروخت کیا جائے۔ اساتذہ نے سکھایا تھا کہ سیاسی کارکن مشتعل ہجوم کے خوف سے پسپا نہیں ہوتا، صحافی وہی ہے جس کا قلم خبر کو بیان کرتے ہوئے ڈگمگانے سے انکار کرتا ہے۔ استاد اسے نہیں کہتے جو کوچہ و بازار کے ابتذال سے خائف ہو کر علم کا بیان روک لے۔ درویش کو بہادری کا دعویٰ نہیں مگر اپنے احساس زیاں کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
درویش کی رائے میں ہمارے ملک میں مجموعی طور پر حس انصاف اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ ہم انصاف کے نام پر ظلم کی عذر خواہی کر رہے ہیں۔ ہمارے قومی کردار کا لاشہ بے جان ہے کہ انصاف کے لئے آواز اٹھانے کی بجائے ظلم کی وکالت کر رہا ہے۔ انصاف کو اقتدار کے ایوانوں، عدالتوں، ذرائع ابلاغ اور ریاستی اداروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اس پر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ چوہدری صاحب کو پاکستان کے کسی اقلیتی شہری سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اور اگر یہ ناگوار ہو تو علم سیاسیات کے اس تصور سے رجوع کریں جسے امتیاز کرنے والی تحکمانہ ریاستوں میں Happy Minority کا عنوان دیا جاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کا بننا اور بگڑنا ایک حادثے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دستوری جمہوریت کا پہلا نشان یہ ہے کہ حکومتوں کے آنے اور جانے کا طریقہ کار طے ہوتا ہے۔ غیر جمہوری ممالک میں حکومتیں سازش کے جلو میں نمودار ہوتی ہیں اور ناگہانی خبر کی صورت رخصت ہوتی ہیں۔ ہمارا تیسرا بحران یہ ہے کہ سیاسی، علمی اور تمدنی قوتوں کو بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ جس دھرتی پر غداری کے الزامات عام ہوں، وہاں تمدن ٹھٹھر جاتا ہے۔
ہمارا چوتھا المیہ یہ ہے کہ سرکاری اہل کار قومی مفاد کے تعین پر اجارہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ قومی مفاد چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے تو قوم کی منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔ ہمارا پانچواں اور اہم ترین المیہ یہ ہے کہ ملکی معیشت پیداواری نہیں بلکہ طفیلی ہے۔ خرابی کی ان پانچ صورتوں کے ہوتے ہوئے آپ کو ’سب اچھا ہے‘ پر اصرار ہے تو آپ کو اختیار ہے۔
چپ ہو گئے ترے رونے والے
دنیا کا خیال آ گیا ہے
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ