انتظار حسین کا ناول بستی ہماری تاریخ کی پہلی تین دہائیوں کا آشوب بیان کرتا ہے۔ اس ناول کی اختتامی سطروں میں لہجے کی غیرمتعین کیفیت میں قوم کے الجھاؤ، فرد کی بے چینی اور سوچ کی نظربندی کی تصویر کھینچ دی ہے۔ سنیے: ’کاکے، بشارت ایسے ہی وقت میں ہوا کرتی ہے، جب چاروں طرف…. ‘ کہتے کہتے رکا، پھر سرگوشی میں بولا، ’یہ بشارت کا وقت ہے‘۔
ہمارے ملک میں بحران ختم ہوتا ہے اور نہ بشارت کا انتظار۔ ان دنوں بھی بشارتوں کی یورش ہے۔ عمران خان نے خود اپنے بیان کے مطابق 22 برس کی جدوجہد سے جو سیاسی جماعت تعمیر کی تھی، اسے آٹھ مہینے ہی میں اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا اور آواز لگائی، آئیں گے غسال کابل سے، کفن جاپان سے۔ وزیر خزانہ ورلڈ بینک سے اور گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف سے درآمد کئے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ نے اپنے ووٹوں سے عمران خان کو قائد ایوان منتخب کیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے کوفت ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں خود کو باقاعدگی سے جواب دہ ٹھہرانے کا ارادہ ہوا ہو گیا۔ پارلیمنٹ واقعی ایک ناخوشگوار مجلس ہے۔ 342 منتخب ارکان کے انبوہ میں وزیر اعظم کے روحانی مقام کو پہچاننے والی متقی ہستیوں کی تعداد محض 176 ہے۔ باقی سب چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں جو چبھتے ہوئے سوال کرتے ہیں، آئین نامی ایک موہوم دستاویز کے حوالے دیتے ہیں، ہمارے تاریخ کے درخشاں عہد یعنی ایوب آمریت کی خوبیوں سے انکار کرتے ہیں، ان بدنصیبوں نے لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل مرحوم و مغفور کی صحبت نہیں اٹھائی، گوجر خان کے مرد حق آگاہ کی مجلسوں میں بار نہیں پایا، صحافت کے گنجفہ کبیر سے تاریخ نہیں پڑھی۔ ایسی پارلیمنٹ کو دور سے سلام۔
پارلیمنٹ کا معتوب ہونا تو قابل فہم ہے، عمران خان تو خود اپنی جماعت سے بھی نالاں ہیں۔ صاف کہتے ہیں کہ مجھے جہاں سے کوئی لائق فائق بندہ ملے گا، اسے حکومت میں لے لاؤں گا، منتخب ہونے کی شرط نہیں۔ اس زریں اصول کی روشنی میں ایک نگینہ مصر کے بازار سے خرید کیا ہے، ایک نقرئی اشرفی سیالکوٹ سے انتخاب کی ہے۔ دساور سے باصلاحیت افراد بلانے کی روایت ہمارے ہاں نئی نہیں۔ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے ٹیلنٹ والی کابینہ بنائی تو اس کا سربراہ محمد علی بوگرہ امریکا سے لایا گیا تھا۔ ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب ورلڈ بینک کے ملازم تھے۔
ڈاکٹر مبشر حسن کو وزارت سے فارغ خطی دے کر خزانے کا انصرام ورلڈ بینک کے محبوب الحق کو سونپا گیا تھا۔ سرتاج عزیز بھی عالمی مالیاتی اداروں کی دین تھے۔ معین قریشی نگران وزیر اعظم بنائے گئے تو ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ شوکت عزیز سٹی بینک سے آئے تھے، وزارت عظمیٰ ختم ہوئی تو بغیر نشان چھوڑے غائب ہو گئے۔ تو بشارت کی ایک صورت تو یہ ہوئی کہ وزیر اعظم نے خزانے کی چابیاں ہی ان کے سپرد کر دیں جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع ہے۔ رہتکی زبان کے ایک شعر کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ’ اے مہربان ساقی، ایک دو جام سے میرا کیا بھلا ہو گا۔ تو ایسا کر، مجھے مے خانے کی چابی دے دے‘۔ ہمارے وزیر اعظم نے مے خانے کی کنجی بادہ فروش کو سونپ دی اور خود سوہاوہ میں یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے تشریف لے گئے۔ ان دنوں وزیر اعظم ایک علوی کیفیت میں ہیں۔ چنانچہ سوہاوہ میں ان کے ارشادات سے سلوک کی راہیں روشن ہوتی چلی گئیں۔ فرمایا کہ ہم روحانیت کو سپر سائنس بنا دیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم پائی ہے۔ آکسفورڈ کا آغاز مذہبی تعلیم کے ادارے سے ہوا تھا۔ مغرب نے روحانیت سے سائنس کا سفر کیا، ہمارے وزیر اعظم نے سائنس کو روحانیت میں ڈھالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ روحانیت علم دریاؤ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وزیر اعظم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان فواد چوہدری کو دے دیا ہے۔ فواد چوہدری اگرچہ ناسا اور سپارکو کا فرق نہیں سمجھتے تاہم ان کے وارفتہ ذہن میں خرد کے چند ذرے ابھی بیدار ہیں جو پرانے قبرستان میں دبی ہڈیوں کی فاسفورس کی طرح اندھیری رات میں گاہے گاہے چمک اٹھتے ہیں۔ ایسے ہی کسی لمحے میں محترم چوہدری صاحب نے رویت ہلال کے بارے میں کچھ منطقی بات کہہ دی۔ حسب توقع اہل منبر و محراب فواد چوہدری کے لاگو ہو گئے ہیں۔ فواد نے یہی تو کہا تھا کہ اگر آپ چاند دیکھنے کے لئے دوربین استعمال فرماتے ہیں تو دنیا دوربین سے آگے نکل آئی ہے۔ چاند کی گردش کی لمحہ بہ لمحہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ دوربین بنانے والی سائنس کے اگلے درجے کی مدد سے رویت ہلال کا مستقل تنازع ختم کر دیا جائے۔
فواد چوہدری دانشمند ہیں مگر یہاں ان سے چوک ہو گئی۔ مسئلہ چاند دیکھنے کا نہیں، افتادگان خاک پر الوہی بالادستی کی تلوار کڑکانے کا ہے۔ سال کے بارہ مہینوں میں چاند نظر آنے کا جھگڑا صرف شوال اور رمضان ہی میں کیوں اٹھتا ہے، اس کا زکوة اور فطرانے کی رقوم سے کوئی تعلق تو نہیں نکلتا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر چاند کی گواہی کے لئے اصحاب زہد کی شیریں مقالی درکار ہے تو رمضان کے تیس ایام میں سحر و افطار کی ساعت بھی سورج دیکھ کر متعین کی جائے۔ اس کے لئے بھی ایک کمیٹی بنائی جائے۔ حیرت ہے کہ مبارک مہینے میں سحر اور افطار کے اوقات کے لئے روزانہ کی بنیاد پر مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی سے مدد کیوں نہیں لی جاتی۔
قیام پاکستان کے بعد ایسی ہی کسی مذہبی کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے حصے میں آ گئی۔ خلیفہ صاحب روایت کرتے تھے کہ ایک مولوی صاحب نے ان سے کہا، ’اگر ہمارے خاص شعبوں میں بھی آپ جیسے غیرمشرع لوگ گھس آئیں گے تو ہمارا کیا بنے گا۔‘ فواد چوہدری سے بھی یہی غلطی ہوئی ہے۔ عشروں کی محنت سے خدائی فوجداروں کو یہ مقام ملا ہے کہ رانی توپ جیسی دوربین سے چاند ڈھونڈتے ہیں، موبائل فون پر گواہیاں لیتے ہیں اور پھر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر براجمان ہو کر گھنٹے بھر کا خطبہ ارزاں فرماتے ہیں جس کے اختتام پر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ لطف یہ کہ اس اہتمام کے باوجود کوئی برس ایسا نہیں گزرا جب کراچی اور پشاور میں رویت ہلال پر اختلاف نہ ہوتا ہو۔
فواد چوہدری بھی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ انہیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 2015 میں مدارس کے بارے میں ذرا سا سچ بولنے پر پرویز رشید رگیدے گئے تھے۔ دوسری طرف وہ پرفتوح ہستی آج بھی سینٹ میں رونق افروز ہے جس نے اکتوبر 2016 میں ایک اعلیٰ ریاستی منصب دار کے عقیدے پر انگلی اٹھائی تھی۔ کسی کو مولانا کے منہ میں دانت گننے کی جرات نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری کو بھی چاہیے کہ مادہ پرست سائنس پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی وزارت میں روحانیت کی سپر سائنس پر ایک کمیٹی بنائیں، خدا برکت دے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ