• مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصارئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook Twitter
ہفتہ, جون 3, 2023
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook Twitter YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • بھارت: مسافر اور مال بردار ٹرینوں میں ٹکر سے280 افراد ہلاک، 900 سے زائد زخمی
  • وجاہت مسعودکا کالم:سامری کا بچھڑا اور ہمارا سیاسی شعور
  • شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 2 دہشتگرد مارے گئے
  • پانامہ پیپرزمیں شامل 436 پاکستانیوں کیخلاف تحقیقات کیلئے درخواست 7 سال بعد سماعت کیلئے مقرر
  • وزیراعظم نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، احسن اقبال
  • 19 کروڑ پاؤنڈ اسکینڈل، بشریٰ بی بی نیب تحقیقات کیلئے 7 جون کو طلب
  • پرویز الٰہی ایک مقدمے میں رہائی کے بعد دوسرے میں دھر لیےگئے
  • کپتان کا وسیم اکرم پلس بھی کلین بولڈ :بزدار نے سیاست چھوڑدی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے 144 ملین روپے قومی خزانے کے حوالے کردیئے
  • پی ٹی آئی صدر پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش کردیا گیا
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • تجزیے
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • اختصارئے
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • سیالکوٹ
      • گوجرانوالا
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»کالم»سر، عوام کی طاقت آئین کی بالادستی میں ہے ۔۔ وجاہت مسعود
کالم

سر، عوام کی طاقت آئین کی بالادستی میں ہے ۔۔ وجاہت مسعود

رضی الدین رضیجولائی 18, 20170 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

مجھے اپنے ہم عصر دوستوں پر بہت رشک آتا ہے، ان کے تخیل کی پرواز پر نظر کرتا ہوں تو سر دھنتا ہوں۔ بیان کی روانی پر توجہ کرتا ہوں تو بھونچکا رہ جاتا ہوں۔ خاص طور پر اعلیٰ عسکری مناصب پر فائز صاحبان پروقار کی خوبیاں بیان کرنے میں ہمارے منتخب ہائے روزگار مہربانوں نے ایسے ایسے مضامین نکالے ہیں کہ جرات اور ناسخ کو شرماتے ہیں۔ جن دنوں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف (حال مقیم سعودی عرب) فوج کے کمان دار تھے تو ایک صحافی نے اپنے کالم میں جسڑ اور گجرات کی ہمسائیگی کو بنیاد ٹھہرا کر تعلق خاطر کی صورت نکالی تھے۔ جن دنوں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لب لعلیں سے سگریٹ الگ نہ ہونے کے چرچے تھے، ہمارے ایک طوطی خوش بیان نے مردان کے گڑ والی چائے کو ابوالکلام آزاد کے فنجان سے لطیف تر ثابت کر دیا تھا۔ جن روزوں درویش ہوئے ہم ، پاس ہمارے دولت تھی….
سیانے کہتے ہیں کہ دوسروں کی خوبی تسلیم کرنے سے ظرف بڑھتا ہے اور اپنے گناہ دھل جاتے ہیں مگر صاحب، اپنی کم مائیگی پہ دل دکھنا کچھ ایسا غیر فطری تو نہیں۔ دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے کیا کہیے…. اب دیکھیے ہماری فوج کے سربراہ اور چیف آف جنرل سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کے شانوں پر چار ستارے رونق دیتے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ کا آبائی تعلق گکھڑ منڈی سے ہے اور گوجرانوالہ کے اس قلم گھسیٹ صحافی کے لیے شاندار موقع تھا کہ دو پہیوں کی سائیکل پر بیٹھ کر راہوالی کے راستے گکھڑ جا نکلتا۔ نہ ہوا کہ ہم بدلتے یہ لباس سوگواراں….
پرویز مشرف سریرآرائے سلطنت تھے تو ان کا جلوس شاہی غیر آئینی تھا۔ کیانی صاحب سے شکوہ رہا کہ نہ تمباکو نوشی ترک کرتے ہیں اور نہ شمالی وزیرستان کا رخ کرتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے چاہنے والوں کا ایسا جم غفیر تھا کہ جب ہجوم عاشقاں دیکھیں تو شرمانے لگیں۔ تین برس پر محیط تحریک تشکر اسی دبدھا میں گزر گئی کہ عامر لیاقت حسین اور جنرل راحیل شریف کے رخ ہائے روشن کے سامنے شمع رکھ کے دریافت کیا جائے کہ ادھر جاتا ہے یا دیکھیں ادھر پروانہ آتا ہے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ تھی کسی درماندہ راہرو کی صدائے دردناک، جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں۔ مختصر یہ کہ پانیوں سے بھرے بادل گھر گھر کر آئے اور بنجر قدیم ناممکن زمینیں سیراب ہوتی رہیں۔ ہمارے دھان سوکھے ہی رہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
گذشتہ برس نومبر کے آخری ہفتے میں منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے محترم جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاک فوج کا سربراہ مقرر کیا تو دونوں رہنماؤں کی ابتدائی رسمی ملاقات کی تصویر دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ سبز بانات کی ایک سادہ سی میز کے ایک طرف وزیر اعظم تشریف فرما تھے اور دوسری طرف جنرل قمر جاوید باجوہ متمکن تھے۔ یہ وہ منظر تھا جس کی آس میں ربع صدی گزری تھی۔ ہمیں تو دو یک فردی کرسیوں کی شانہ بشانہ افقی ترتیب کے جلو میں وزرا سمیت دیگر ریاستی منصب داروں کا دربار دیکھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ بنیادی انسانی مساوات ایک اہم اخلاقی قدر ہے لیکن ریاست کے بندوبست میں تقدیم و تاخیر کے اپنے اشارے ہوتے ہیں۔ ضابطے کی یہ پابندیاں صرف اقتدار کے ایوانوں تک محدود نہیں ہوتیں۔ انہیں ذرائع ابلاغ اور گلی کوچوں میں بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔ ہماری جمہوری ثقافت پر تو ایسا پیغمبری وقت بھی پڑا کہ اخبار کے صفحے پر بالالتزام چیف جسٹس صاحب کے فرمودات شہ سرخی کی زینت بنتے تھے اور منتخب ایوان کے قائد یعنی وزیر اعظم کا بیان تین کالمی ذیلی خبر کا سزاوار قرار پاتا تھا۔ عجیب موسم تھا کہ ہر طرف سے ایک ہی صدا آتی تھی کہ قوم کی نیا کو بالآخر افتخار محمد چوہدری کی صورت میں ایک صاحب انصاف مل گیا ہے۔ اب ماضی کے دلدر بھی دھل جائیں گے اور آئندہ کی راہیں بھی چمک اٹھیں گی۔ پھر بیچ میں چرخ فلک کی رفتار کچھ ایسی کج ہوئی کہ اب کسی کو جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کا نام ہی یاد نہیں آتا۔ وکلا کے جلسے بدستور ہو رہے ہیں۔ قانونی دماغ روایتی خالی الذہن جوش و خروش کے ساتھ بدستور دھینگا مشتی میں مصروف ہیں۔ بس یہ ہے کہ اب کسی کو خیال نہیں آتا کہ عصر حاضر کے حمو ربی کو صدارت چھوڑ، شرکت کی دعوت ہی دے دی جائے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان دنوں آئین کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ سے ملال کا اشارہ اس سمت سے سنائی دے رہا ہے جس نے 2008 سے 2012 تک ٹھیک پانچ برس آئینی اداروں میں اختیار اور احتساب کا توازن تہہ و بالا کیے رکھا۔
خبر یہ ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کوئٹہ گیریژن کے دورے پر تشریف لے گئے۔ فوجی جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے محترم جنرل صاحب نے بہت سی اچھی باتیں کہیں، خوش نیتی میں بھی کلام نہیں مگر ایک جملہ ایسا کہہ دیا جس کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں اور ہماری قوم مردان عارف کی نیک نیتی سے بارہا خسارہ اٹھا چکی ہے لہذا نشاندہی ضرور کرنی چاہئیے۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ “پاکستان کے عوام کی فوج ہیں، ان کی حمایت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے”۔ اگر اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں، فوج کی اہلیت پر اعتماد کرتے ہیں، نیز یہ کہ فوج کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں تو اس جملے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم ایک ممکنہ تصریح یہ بھی ہے کہ پاکستان کی فوج آئین کے مطابق منتخب حکومت کے تابع ہے۔ فوج براہ راست عوام کے مینڈیٹ کی حامل نہیں۔ یہ منصب منتخب نمائندوں کا ہے۔ فوج آئینی حکومت کے احکامات کی پابند ہے۔ جمہوری نظام میں اختیارات کی علیحدگی کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ تین ادارے آئینی ہیں۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ یعنی حکومت۔ حکومت کے ماتحت مستقل انتظامی اور خدمات کے ادارے کام کرتے ہیں۔ فوج دفاعی خدمت کا شعبہ ہے۔
حالیہ صدیوں کی تاریخ میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ جہاں فوج اور عوام کے درمیان سیاسی قیادت کی حد فاصل موجود نہ رہے وہاں سیاسی انتشار اور آمریت جنم لیتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ اور مغل حکومت میں فوج اور عوام کے براہ راست تعلق کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہٹلر نے خود کو فوج کا کمانڈر مقرر کر لیا۔ جنرل ٹوجو وزیراعظم بن بیٹھے، سٹالن مارشل بن گیا اور ایک ہمسایہ ملک کے بارے میں بات کرنا تو بہرصورت قرین مصلحت نہیں۔ دوسری عالمی جنگ سے زیادہ گمبھیر سلامتی کی صورت حال کیا ہو سکتی تھی۔ لیکن چرچل نے فوج پر منتخب حکومت کی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔ پاکستان ایک تحریری آئین کے تابع جمہوری ریاست ہے۔ یہاں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے کہ عسکری قیادت ملک کے مفاد کو آگے بڑھاتے ہوئے آئین کی طے شدہ حدود کو فراموش نہ کرے۔ خواہش تھی کہ اس تحریر میں مناسب احترام کا رنگ بھرنے کے لیے جابجا ’سر‘ کا تکریمی لفظ استعمال کیا جائے۔ یوں بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سترہ کے قریب ’سر‘کسی وجہ سے استعمال نہیں ہو پائے۔ غالب کو صریر خامہ میں نوائے سروش سنائی دیتی تھی۔ جمہوری قلم کی مجبوری ہے کہ وہ ہر طرح کا احترام برقرار رکھتے ہوئے “سر” لکھنا چاہتا ہے لیکن اختلاف رائے کی سرسراہٹ سے باز نہیں رہ سکتا۔
(بشکریہ:ہم سب)

فیس بک کمینٹ

Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleآئیے تماشہ دیکھیں ۔۔ سید مجاہد علی
Next Article سانپ ۔ می لارڈ !! سانپ ۔۔ رضی الدین رضی
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

بھارت: مسافر اور مال بردار ٹرینوں میں ٹکر سے280 افراد ہلاک، 900 سے زائد زخمی

جون 3, 2023

وجاہت مسعودکا کالم:سامری کا بچھڑا اور ہمارا سیاسی شعور

جون 3, 2023

شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 2 دہشتگرد مارے گئے

جون 2, 2023

Leave A Reply

حالیہ پوسٹس
  • بھارت: مسافر اور مال بردار ٹرینوں میں ٹکر سے280 افراد ہلاک، 900 سے زائد زخمی جون 3, 2023
  • وجاہت مسعودکا کالم:سامری کا بچھڑا اور ہمارا سیاسی شعور جون 3, 2023
  • شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 2 دہشتگرد مارے گئے جون 2, 2023
  • پانامہ پیپرزمیں شامل 436 پاکستانیوں کیخلاف تحقیقات کیلئے درخواست 7 سال بعد سماعت کیلئے مقرر جون 2, 2023
  • وزیراعظم نے 1100 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے، احسن اقبال جون 2, 2023
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصارئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook Twitter YouTube
© 2023 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.