دورہ امریکا کے دوران خواجہ آصف مسلسل چونکا دینے والے انکشافات کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ خواجہ آصف نہ صرف یہ کہ ایک نہایت باخبر سیاسی رہنما ہیں بلکہ یہ بھی کہ پاکستان کے خارجہ امور بالآخر اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ عمران خان صاحب جیسے کچھ بد اندیش عناصر نے البتہ نئی خاک اڑانا شروع کر دی ہے کہ خواجہ آصف دشمن کی زبان بول رہے ہیں۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ خواجہ صاحب ببانگ دہل قوم کا حقیقی موقف بیان فرما رہے ہیں۔ انہوں نے امریکا کے دارالحکومت میں بیٹھ کر اعلان کیا کہ امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے “آخری موقع دینے” یا “آخری بات کرنے” جیسے الفاظ ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ خواجہ صاحب نے قابل قبول الفاظ کی نشاندہی نہیں کی۔ سفارت کاری کا ہنر اسے کہتے ہیں۔
خواجہ آصف صاحب نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کو تیار ہیں۔ اس سے واضح ہو گیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے ماضی میں جو کوششیں کی گئی، ان میں کچھ کسر رہ گئی تھی۔ اب یہ کوتاہی دور کی جا سکتی ہے۔
خواجہ آصف نے واشنگٹن میں یہ پیش کش بھی کی کہ افغان کمانڈروں کو ساتھ بٹھا کر آپریشن کے لیے تیار ہیں۔ حیران کن طور پر خواجہ صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ آپریشن کہاں کیا جائے گا۔ پاکستان میں تو دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کئے جا چکے ہیں۔ افغانستان کے چالیس فی صد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ باقی ساٹھ فیصد پر کابل حکومت کی عمل داری ہے۔ خواجہ صاحب کے مجوزہ آپریشن کے علاقے کی وضاحت آنا ابھی باقی ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک اور کوشش 16 اکتوبر کو مسقط میں کی جائے گی۔ اگر یہ کوشش ناکام ہو گئی تو اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ آپریشن کا دائرہ کار بھی طے کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے سفارتخانے واقع واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ملا عمر کی موت سے طالبان سے مذاکرات کے عمل کو سخت دھچکہ لگا تھا۔ یہ ایک دھماکہ خیز اطلاع ہے۔ کسی فانی انسان کی موت کے تین طریقے ہیں۔ طبعی موت، حادثہ یا قتل۔ طبعی موت یا حا دثے میں کسی کو دخل نہیں ہوتا۔ دنیا کے معاملات قضائے الہٰی یا حادثوں سے نہیں رکتے۔ وقتی صدمے کے بعد زندہ رہنے والے فریق مل بیٹھتے ہیں اور کاروبار حیات بحال ہو جاتا ہے۔
ملا عمر کی وفات کی خبر جولائی 2015 میں نکلی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت پاکستان کے کسی مقام پر طالبان اور ان کے حریف عناصر میں مذاکرات کا عمل جاری تھا۔ ملا صاحب مغفور کی وفات حسرت آیات کی اطلاع ملنے کے بعد یہ مذاکرات معطل ہو گئے۔ ملا صاحب کے پسماندگان نے گہرے صدمے میں اعلان کیا کہ ملا صاحب کی تدفین اور ضروری رسومات کی ادائی ضروری ہے۔ اہل خانہ سخت غم زدہ ہیں۔ ان امور کے باعث مذاکرات کا بلا تعطل جاری رہنا ممکن نہیں۔
اس موقع پر کچھ حلقوں نے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ ایک عظیم رہنما کی موت پر غم اور ملال تو قابل فہم ہے۔ غصے کا اظہار تو غیر طبعی موت پر کیا جاتا ہے۔ غصے کے اظہار پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو اگست 2015 میں طالبان نے اعلان کیا کہ ملا عمر صاحب کی وفات دو برس قبل یعنی 2013ء میں ہوئی تھی۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت اس عظیم نقصان کی خبر چھپائی گئی۔ ستمبر 2015 میں ملا محمد عمر صاحب کے بیٹے ملا یعقوب نے ایک غیر ملکی نشتریاتی ادارے کو بتایا کہ ملا عمر کی وفات ہیپٹائٹس کے جان لیوا مرض سے واقع ہوئی۔ اس موقع پر یہ اطلاع بھی دی گئی کہ ملا اختر منصور صاحب کو ملا عمر کا جانشین منتخب کر لیا گیا ہے۔ خدا نے سب انسانوں کے دنیا میں آنے اور رخصت ہونے کا وقت اور مقام طے کر رکھا ہے۔ 30 جولائی 2015 کو ملا اختر منصور طا لبان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 22 مئی 2016 کو ایک نامعلوم مشن پر ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے اور پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گزرتے ہوئے غنیم کے ایک ڈرون حملے میں شہید ہو گئے۔ ملا اختر منصور کی موت بزدل دشمن کے دانستہ حملے میں واقع ہوئی۔ لہذا ان کی موت سے طالبان کے ساتھ کسی پیش رفت میں کوئی خلل نہیں آیا۔ اس تفصیل سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
2013ء میں ملا عمر کی وفات کہاں واقع ہوئی؟
حضرت کا مرقد مبارک کہاں واقع ہے؟
آخری رسومات میں کون افراد شریک ہوئے؟
کیا جولائی 2015 میں مذاکرات میں شریک افراد ملا عمر کی وفات سے آگاہ تھے۔ اگر ہاں تو انہیں دو برس قبل وقوع پذیر ہونے والی موت کی اطلاؑع سے کیا نقصان پہنچا؟
ملا عمر کی وفات سے دیگر کون سے عناصر باخبر تھے اور ملا عمر کی موت کے اعلان سے یہ عناصر کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟
ملا عمر کی وفات کی خبر چھپانے میں کیا مصلحت پوشیدہ تھی اور یہ مصلحت کس کے مفاد میں تھی؟
کیا کسی کی موت کے بارے میں جاننا یا دوسروں کو آگاہ کرنا بذاتہ ایک غلط فعل ہے؟
کیا ملا عمر کی وفات کی صحیح اطلاع دینے والوں نے کوئی غلط فعل کیا؟
طالبان کی جاری کردہ اطلاعات کے مطابق ملا عمر کی وفات کو چار برس گزر چکے۔ افغانستان کے ساڑھے تین کروڑ افراد کو محض ایک موت کی اطلاع کے ناکردہ جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اگر احمد شاہ مسعود کا قتل نائن الیون کی چکا چوند میں اوجھل ہو سکتا ہے۔ کابل کے ہزاروں شہریوں کے قتل کا ذمہ دار گل بدین حکمت یار افغانستان میں واپس آ سکتا ہے۔ ملا اختر منصور کا قتل برداشت کیا جا سکتا ہے، تو ملا عمر کی موت کی اطلاع میں ایسا کیا خاص تھا؟
اس سے ایک امر تو واضح ہے کہ ملا عمر بہت بڑے رہنما تھے۔ صدر کینیڈی کے قتل کو ترپن برس گزر چکے۔ حقیقی قاتلوں کی کوئی خبر نہیں۔ صدر ضیاالحق کی شہادت ہر 29 برس گزر چکے۔ سازش کے اسرار ہنوز پردے میں ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعاتی ملزم بری کر دیے ہیں۔ لیکن ملا عمر کی موت ایک بھوت کی طرح اس خطے پر منڈلا رہی ہے۔ خواجہ آصف کی فراست شک و شبہے سے بالا تر ہے ۔ تو کیا واقعی ملا عمر کو قتل کیا
(بشکریہ:ہم سب :لاہور )
فیس بک کمینٹ