حبیب جالب نے بستر مرگ پر طاہر اصغر کو ایک طویل انٹرویو میں بتایا:
“ایک دفعہ مجھے حفیظ جالندھری کچہری بازار لائل پور میں ملے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ انہوں نے کہا، ” جلدی جلدی بات کر لے۔ میں بہت مصروف ہوں”۔ میں نے پوچھا، حضور کیا مصروفیت ہے؟ انہوں نے اوپر آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا، “میں اس کا مشیر ہو گیا ہوں”۔ میں نے کہا، “کیا آپ خدا کے مشیر ہو گئے ہیں؟” کہنے لگے۔ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کا مشیر ہو گیا ہوں۔ وہ دن رات میں کسی بھی وقت مجھے بلا لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں، حفیظ بتاؤ، میں کیا کروں؟ تو میں ایوب خان سے عرض کرتا ہوں کہ مسلمان ڈنڈے ہی کا گاہک ہے۔ اس پر ڈنڈا ہی رکھ۔۔۔۔ اور یہ جو وکیل قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، ان کو بھی سخت سے سخت سزا دے۔۔۔ یہ جو طالب علم یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف جلوس نکالتے ہیں، ان کو بھی اندر ڈال دے”۔۔۔۔۔ حفیظ جالندھری جب یہ فرما رہے تھے تو ایک نظم کا خاکہ میرے ذہن میں آ گیا۔”
حبیب جالب کی اس نظم کا عنوان “مشیر” ہے۔
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
۔۔۔۔
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
۔۔۔۔
ان کی کھینچ لے زبان
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
حفیظ جالندھری اور حبیب جالب میں یہ مکالمہ ہوئے تقریباً پچاس برس گزر گئے۔کل ایک موقر اخبار میں عصر حاضر کے عظیم دانشور مظہر برلاس نے اپنے اور ایک جنرل صاحب کے مابین مبینہ مکالمے کا احوال لکھا ہے۔ مظہر برلاس لکھتے ہیں۔۔۔
” یہ ایک سرد شام تھی سورج ڈھلنے کے سارے مناظر اس میں شامل تھے۔ آنگنوں میں اترتے ہوئے اندھیرے میں روشنیوں کی رونق بھی شامل تھی۔ یہ وہ دن تھے جب شریف فیملی ایک تحریری معاہدے کی صورت میں ملک سے جا چکی تھی جبکہ ن لیگ کی پوری قیادت قوم سے مسلسل جھوٹ بول رہی تھی۔ انہی دنوں میں نیب نے پورے ماحول کو خوفزدہ کر رکھا تھا۔ ملکی مسائل کے حل کی چاہت میں میری تجویز تھی کہ کرپٹ لوگوں کی گردنیں اڑا دی جائیں۔ جرنیل نے میری طرف غور سے دیکھا، متوجہ ہوا اور بولا ’’وہ کیسے ممکن ہو گا؟‘‘ میں نے پھر سے جملہ دہرایا کہ اگر آپ ملک درست کرنا چاہتے ہیں تو گردنیں اڑانا ہوں گی، ساتھ ہی پوچھ لیا کتنی آبادی ہے اس ملک کی؟
جرنیل بولا ’’سولہ سترہ کروڑ‘‘
میں نے کہا تو پھر سولہ ہزار لوگوں کی گردنیں ان کے تن سے جدا کر دی جائیں۔
جرنیل گویا ہوا ’’اتنی بڑی تعداد‘‘
میں نے تلخ لہجے میں کہا اگر سولہ ہزار کے سر قلم نہیں کر سکتے تو سولہ سو لوگوں کے سر ہی اڑا دو۔
جرنیل کہنے لگا ’’بہت مشکل ہے‘‘
پھر یہ خاکسار بولا کہ اگر یہ بھی مشکل ہے تو پھر چار سو افراد کی گردنیں تو لازمی اڑا دو۔ میری اس عاجزانہ پیشکش پر جرنیل کہنے لگا ’’یہ بہت مشکل کام ہے، یہ سب کچھ کرنا آسان نہیں ‘‘
اس نہیں کے جواب میں مجھے کہنا پڑا کہ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ ملک بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔۔۔”
افسوس کہ عظیم آمر نے ملک سنوارنے کا بہترین موقع گنوا دیا۔ جمہوریت مانگنے والے بددیانت، گمراہ اور نااہل لوگ ایک دفعہ پھر ملک میں حکمران ہو گئے۔ عظیم آمر کو پہلے ملک کے اندر ہی روپوش ہونا پڑا۔ پھر وہ ملک سے باہر بھاگ گیا۔ پھر اسے اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ ملک میں آج بھی کرپشن کا دور دورہ ہے۔ قانون سے بھاگنے والے آمر تک قانون کا ہاتھ نہیں پہنچ سکا۔ 16 ہزار افراد یا سولہ سو افراد یا چار سو افراد کو بغیر کسی ثابت شدہ جرم کے قتل کرنا مشکل ہے۔ تو پھر اس ملک کو بچانے کے لئے کیا کیا جائے؟ قدیم مصر میں قحط سالی سے بچنے کے لئے دریائے نیل میں ایک کنواری لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی۔ کیا آج اس ملک میں کرپشن ختم کرنے کے لئے اس معصوم صحافی سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی اکیلی جان کی قربانی دے کر ملک کا مستقبل سنوار دے۔ آمر تو اس کی فرمائش پوری نہ کر سکا۔۔۔ افسوس صد افسوس۔ شاید ایک بے گناہ کالم نویس کی عظیم قربانی پر دیوتاؤں کو رحم آ جائے اور ملک بھر میں دیانت داری کی ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )