اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ اٹھائیس جنوری کو مگر اتوار کے روز لاہور میں عدالت لگی۔ ایک بدنما معاملہ درپیش تھا۔ قصور میں پیش آنے والے سانحے کے بارے میں تیس مار خان اینکر پرسن نے کچھ عجیب و غریب انکشافات کیے تھے۔ بلند بانگ دعوے باندھے تھے۔ تیس مار خان عام طور سے ایک ذہنی کیفیت میں رہتے ہیں۔ اسی ترنگ میں پتنگ بڑھا دی، عدالت عظمی نے نوٹس لیا، بلا کر پوچھا؛ آپ نے یہ سب کہا؟ فرمایا جی ہاں، پوچھا ثبوت؟ بینک اکاؤنٹ کی ایک فہرست پیش کر دی۔ پرانے زمانے میں پینتیس پنکچر کا بہت چرچا تھا۔ اسی زمین میں سینتیس اکاؤنٹ کا قافیہ باندھا تھا۔ مغربی ممالک میں موجود کسی مافیا سے ڈانڈے جا ملائے۔ جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے مردے دوسروں کے دروازے پر رکھ چھوڑنے کا شوق ہے۔ گھر میں جو بھی خرابی ہو، اس کا الزام سرحد سے باہر ارسال کر دیا جاتا ہے۔ یہ ترکیب بھی آزمائی۔ اس نسخے میں بغیر نام لئے ایک وفاقی وزیر اور صوبائی حکومت کو مبینہ پشت پناہ کے طور پر شامل کر لیا۔ خوب سمجھتے ہیں کہ ملک میں سیاسی رائے تقسیم ہے اور حکومت کا نام لینے سے اٹھنے والے طوفان کا سیلاب بالآخر لاہور اور قصور کے بیچ واقع رائے ونڈ کے نشیب میں جائے گا۔ اس کہانی کا خاکہ تو کینیڈا سے آنے والے خرقہ پوش نے سوچا تھا۔ اس میں رنگ بھرنے کا بیڑہ تیس مار خان صاحب نے اٹھایا۔ عدالت عظمی نے الزامات کی تحقیق کے لئے جے آئی ٹی بنائی تو تیس مار خان موصوف جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اٹھائیس جنوری کو لاہور میں جملہ فریق طلب کر لئے۔ یہ پاکستان میں صحافت کے لئے ایک مبارک دن ثابت ہوا۔ ایک کے بعد ایک سرکردہ صحافی نے روسٹرم پہ آ کر اپنا اصولی موقف بیان کیا۔ آئی اے رحمن، مجیب الرحمٰن شامی، عارف نظامی، سہیل وڑائچ اور حامد میر سمیت صحافی رہنماؤں نے پاکستانی صحافت کی لاج رکھ لی۔ معاملہ یہ کھلا کہ اہل صحافت عدالت پر اعتماد رکھنے والے اور قانون کے پابند شہری ہیں۔ عدالت عظمی نے صاف لفظوں میں بتا دیا کہ عدلیہ صحافت کے شعبے کی قدردان ہے۔ مشکوک پیشہ ورانہ ساکھ اور غیر ذمہ دار رویوں کے حامل چند افراد صحافت کے تمدنی ادارے کی نمائندگی نہیں کرتے۔
پاکستان میں جمہوریت اور صحافت ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہماری جمہوریت نے ایک کڑا امتحان کاٹا ہے۔ اس دوران صحافت بھی سخت آزمائش سے گزری ہے۔ سبب یہ کہ 2008ء میں آمریت تو مستعفی ہو گئی، ایکس فیکٹر رخصت نہیں ہوا۔ ایکس فیکٹر کا معصوم سا ترجمہ ’غیر جمہوری ذہن‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنا چاہیے کہ یہ صرف سوچ کا معاملہ نہیں، سوچ کے مخملیں دستانے میں طاقت کا آہنی مکا بھی موجود ہے۔ ایکس فیکٹر ایک تیز رفتار فلم ہے جس میں کارفرما ہاتھ نظر نہیں آتے لیکن ان کی انگلیوں کا جادو بولتا ہے۔ انگلی کے اشارے پر سیاست دان بھی ناچتے ہیں اور تیس مار خان صحافی بھی ٹاپتے ہیں۔ ایکس فیکٹر کی کرامت ہے کہ پاکستان میں صحافت اور سیاست کی سرحدیں دھندلا گئی ہیں۔ کیا اچھی بات حامد میر کہتا ہے کہ ’جس معاشرے میں سیاست دان اینکر بن جائیں اور اینکر سیاست دان بن جائیں‘ وہاں گڑبڑ تو ہو گی۔ اسی ردیف قافیے میں تیسرا مصرع بھی کہا جا سکتا تھا، حامد میر نے وہ مصرع کہنے سے گریز کیا، میں بھی احتیاط ہی کروں گا۔
تمام تر احتیاط کے ساتھ عرض ہے کہ جمہوریت ایک پیچیدہ سیاسی، انتظامی اور تمدنی بندوبست ہے۔ اس میں آئینی اداروں کا کردار اور اختیار صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں معیشت کے عوامل اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ صحافت اسی تصویر ایک ناگزیر اور قیمتی حصہ ہے۔ صحافت غیرجانبدار اور آزاد ہونے کے باوجود قوم کی مجموعی قسمت سے پوری طرح وابستہ ہوتی ہے۔ اور پھر سب سے بالادست مفاد عوام کا ہے۔ عوام کے مفاد کی بہترین دیکھ بھال عوام کی رائے کا احترام کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت میں باہم اعتماد ہی قومی سلامتی اور ملکی استحکام کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ پچھلے دس برس میں قومی اداروں کے باہم اعتماد پر بے رحمی سے کلہاڑی چلائی گئی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک ادارے کی ساکھ بگاڑی جائے۔ ساکھ رائے عامہ سے تعلق رکھتی ہے۔ صحافت رائے عامہ کو تشکیل دیتی ہے۔ اگر صحافت ہی کی ساکھ بگڑ جائے تو کام آسان ہو جاتا ہے۔ صحافت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ صحافت کسی سیاست دان کی اشتہاری مہم نہیں، کسی خود ساختہ مسیحا کی پرچم بردار نہیں، کسی مہم جو کا آلہ کار نہیں بن سکتی۔ صحافت کا کام خبر دینا ہے، گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں رکھ سکتا۔ جس کی دم پہ پاؤں آئے گا، وہ پلٹ کر حملہ تو کرے گا۔ آپ کو تو یاد ہو گا کہ تین نومبر 2007ء کی شام آمریت نے قوم پر ایمرجنسی پلس کا حملہ کیا تو ایک گولہ عدلیہ پہ پھینکا گیا اور ایک مہتابی صحافت کی طرف چھوڑی گئی تھی۔ 28جنوری 2018کو عدالت عظمی اور صحافت کے سواد اعظم نے 3نومبر 2007ء کا مسکت جواب دیا ہے۔ عدالت جولائی 2009ء میں نظریہ ضرورت کو دفن کر چکی اور اس کا اعلان کر چکی۔ اب معلوم ہوا کہ میڈیا میں بھی آئی جے آئی نہیں بن سکتی۔
میڈیا کا کردار سمجھنا ہو تو غور کیجیے کہ میڈیا کا مخالف کون ہے؟ عالمی سطح پر اس وقت میڈیا کی مخالفت میں ٹرمپ کا نام آتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معتبر صحافتی اداروں اور صحافیوں پر فیک نیوز کا لیبل لگا رکھا ہے۔ آئے روز ایک نہ ایک متنازع بیان دیتے ہیں۔ دوسری طرف یاد کیجیے جنوری 2014ء میں طالبان نے میڈیا کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں استعمال کی گئی ’دجالی میڈیا‘ کی اصطلاح کو طالبان کے حاشیہ برداروں نے وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔ برادرم حامد میر ناحق طالبان کے خلاف مزاحمت میں اپنا کردار یاد دلاتے ہیں۔ حامد کی بہادری کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ باہم اصولی اختلاف کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، طالبان اورطرح طرح کے ایکس فیکٹر میڈیا کے مخالف ہیں۔ میڈیا کسی خاص ٹیکنالوجی کا محتاج نہیں، خبر اخبار پہ لکھی جا سکتی ہے۔ ریڈیو پہ سنائی جا سکتی ہے، ٹیلیوژن پر دکھائی جا سکتی ہے اور کمپیوٹر کی اسکرین پہ ظاہر ہو سکتی ہے۔ ارتقا کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی نیا معاشی مفاد پیدا کرتی ہے۔ پہلے سے موجود معاشی مفاد اپنے تحفظ کیلئے ٹیکنالوجی کی مخالفت کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے طرح طرح کی نظریاتی آڑ تراشی جاتی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کسی نظریے کی پابند نہیں۔ لوگوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور انہیں کوئی سہولت میسر آتی ہے تو وہ نئی ٹیکنالوجی کو اپنا لیتے ہیں۔ انسانی ضرورت اور سہولت ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان دنوں کچھ اصحاب کو سوشل میڈیا کی مخالفت کا شوق ہو رہا ہے۔ میں سوشل میڈیا کو متبادل میڈیا کہتا ہوں۔ اس کے خدوخال ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ اس کے اصول و ضوابط اور پیشہ ورانہ ڈھانچہ وقت کے ساتھ واضح صورت اختیار کریں گے۔ سوشل میڈیا کی مخالفت کرنا بے معنی ہے۔ وقت نے بتایا ہے کہ صحافت کے ہر عہد میں تیس مار خان موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ایک نہ ایک دن چھٹی کے روز عدالت لگتی ہے، صحافت کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے، عدالت میڈیا کے احترام اور تحفظ کا اعلان کرتی ہے، میڈیا قانون کی پابندی کا عہد دہراتا ہے اور عدالت پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ اس شام تیس مار خان پسپا ہو جاتا ہے اور میڈیا کو قومی سلامتی کے لئے غیرروایتی خطرہ سمجھنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔
فیس بک کمینٹ