قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد صرف ایک دفعہ مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ 4فروری 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے’‘اردو اور صرف اردو“ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ قائداعظم کے بے پناہ شخصی احترام کے باوجود بنگالی طلبا کے گلے سے احتجاج کی بے ساختہ چنگھاڑ برآمد ہوئی۔ جناح صاحب کی طویل سیاسی زندگی میں کم ہی ایسا ہوا تھا کہ انھیں کسی عوامی اجتماع میں کھلم کھلا مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔اردو پاکستان کے صرف چار فیصد باشندوں کی مادری زبان تھی جبکہ 56 فیصد پاکستانی بنگالی بولتے تھے۔ ادبی روایت، فنی استعداد اور علمی ذخیرے کے اعتبار سے بنگالی کا شمار ہندوستان کی ترقی یافتہ ترین زبانوں میں ہوتا تھا۔ ادب کے میدان میں ہندوستان کے حصے میں آنے والا واحد نوبیل انعام بنگالی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کو ملا تھا۔ ان گنت ندی نالوں کی اِٹھلاتی موجوں میں ب±نی بنگالی زبان کا لحن قدرتی طور پر موسیقی کے لیے موزوں تھا۔ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے لیے بنگالی زبان محض جذباتی وابستگی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے لیے معاشی امکانات اور سیاسی مواقع کا سوال بھی تھا۔
تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ زبان کے اس جھگڑے کی جڑیں دراصل متحدہ پاکستان کے انوکھے جغرافیے میں تھیں۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بنگالی زبان و ثقافت سے بالکل نا آشنا تھے چنانچہ بنگالی کو قومی زبان قرار دینے میں مشکلات تھیں۔ دوسری طرف اردو کے ساتھ بنگالی کو قومی زبان بنانے سے باقی صوبوں میں مقامی زبانوں کے سلسلے میںبے چینی پیدا ہو سکتی تھی کیونکہ اردو پاکستان کے کسی خطے میں روزمرہ کی زبان نہیں تھی۔ اس پر طرّہ یہ کہ افسر شاہی میں اردو بولنے والوں کی بالادستی تھی جو اپنے صوبے بلکہ تحصیل ہی کے لب و لہجے کو سند جانتے تھے۔ فیصلہ سازوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اردو کو مذہبی لبادہ پہنا کر سرکاری زبان بنا دیا جائے۔ خیال تھا کہ مذہب کی آڑ میں اس مصنوعی بندوبست سے کسی حد تک کام چلایا جا سکے گا۔پروفیسر محمد سرور تحریک پاکستان کا ایک باب میں لکھتے ہیں کہ فضل الٰہی چوہدری (بعد ازاں صدر پاکستان) مولانا ابوالکلام آزاد سے 1956 میں اپنی ملاقات کے حوالے سے بتاتے تھے کہ مولانا نے دیگر امور کے علاوہ انھیں مدبرانہ نصیحت کی تھی کہ زبان کے مسئلے پر مشرقی پاکستان کے جذبات کا خیال رکھا جائے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مرکزی قیادت کو بنگالیوں کے اپنی زبان سے تعلق کی شدت کا اندازہ نہیں ہے
مشرقی پاکستان میں زبان کے تنازعے پر بے چینی اندر ہی اندر پھیلتی رہی۔ 26 جنوری 1952 کو دستور ساز اسمبلی کی رہنما اصول کمیٹی نے اردو زبان کو واحد قومی زبان قرار دینے کی سفارش کی تو بنگالی احتجاج کا لاوا بہہ نکلا۔ دو روز بعد پلٹن میدان کے جلسہ عام میں مرنجاں مرنج وزیر اعظم ناظم الدین کی طرف سے اردو زبان کی حمایت نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ عوامی مسلم لیگ اور دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے فوری طور پر کل جماعتی قومی زبان کمیٹی تشکیل دے دی جس کے سربراہ سرکردہ بنگالی رہنما ابو ہاشم تھے۔ ڈھاکہ کے طلبا نے 4 فروری کو قائداعظم کے یونیورسٹی خطاب کے چار برس پورے ہونے پر ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ21 فروری کو ڈھاکہ میں ایک جلوس نکالا جائے جو صوبائی اسمبلی کو بنگالی زبان کے سلسلے میں ایک یادداشت پیش کرے۔ 21 فروری کو صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہونا تھا۔مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری عزیز احمد کی بے لچک ضابطہ پسندی اور شخصی رعونت ضرب المثل تھی۔ وزیراعلیٰ نورالامین مرکزی حکومت کے حاشیہ بردار سمجھے جاتے تھے۔ صوبائی حکومت نے 20 فروری کی شام ڈھاکہ کے علاقے رمنا میں دفعہ144 نافذ کر کے ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ کل جماعتی قومی زبان کمیٹی کے رہنماو¿ں کی اکثریت چاہتی تھی کہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے 21 فروری کا احتجاج منسوخ کر دیا جائے لیکن طالب علم رہنما متین الدین نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔
21 فروری کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہزاروں طالب علم دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ہوئے۔ طلبا تین گھنٹے تک آنسو گیس اور پولیس کی لاٹھیوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ جلوس ڈھاکہ میڈیکل کالج کے قریب پہنچا تو پولیس نے گولی چلا دی۔ موقع پر موجود پولیس کے کمانڈنگ افسر کا نام مسعود محمود تھا جو 28 برس بعد بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ قتل میں وعدہ معاف گواہ بن گیا تھا۔ پانچ طالب علم، صلاح الدین، عبدالجبار، ابو برکت، رفیق الدین اور عبدالسلام موقع پر ہلاک ہو گئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ طالب علموں پر گولی چلنے کی خبر سے ڈھاکہ شہر غم و غصے میں ڈوب گیا۔
کئی برس بعد فیض صاحب نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”انتساب“ میں پاکستان کے ان بیٹوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا:
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے، ہاتھ پھیلائے
پہنچے مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
22 فروری کو مرنے والے طالب علموں کا جنازہ ایک بڑے جلوس کی شکل اختیار کر گیا جس میں ڈھاکہ سیکرٹریٹ کے 5000اہلکار بھی شریک تھے۔ توپ خانہ سے نواب پور اور صدر گھاٹ سے وکٹوریہ پارک تک ڈھاکہ شہر ”جیے بانگلہ“ اور ”جیے بھاشا“ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ احتجاج کرنے والے اسمبلی تک جانا چاہتے تھے۔ جلوس کرزن ہال تک پہنچا تو پولیس نے ایک بار پھر گولی چلا دی۔ چار بنگالی کھیت رہے۔ عوامی دباو کے پیش نظر وزیر اعلی نورالامین نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جس میں مرکزی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ اردو کی طرح بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دیا جائے۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔
معروف مورخ حسن ظہیر لکھتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی میں اب تک حزب مخالف زیادہ تر ہندو ارکان پر مشتمل تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان ارکان نے غیر مسلم قانون سازوں کے ساتھ مل کر رائے دی۔ جلد ہی عوامی مسلم لیگ کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا گیا اور وہ واضح طور پر حکومت مخالف سیاست کرنے لگی۔سڑکوں پر ریاستی طاقت کے اس مظاہرے کے بعد پہلی مرتبہ بنگالی مسلمانوں نے دوسرے پاکستانی شہریوں سے فاصلہ محسوس کرنا شروع کیا۔ دو برس بعد (مارچ 1953) صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ نے 309میں سے301نشستیں جیت کر صوبے میں مسلم لیگ کا صفایا کر دیا۔ 1956کے دستور میں بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالی رائے عامہ کو اندازہ ہوا کہ جو معاملات پارلیمنٹ میں بحث مباحثے سے نہیں سلجھائے جا سکتے انھیں سڑکوں پر نعرے بازی سے منوایا جا سکتا ہے۔دو روز تک مار دھاڑ اور گرفتاریوں سے بھاشا تحریک وقتی طور پر دب گئی مگر 23 فروری کی رات ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طالب علموں نے راتوں رات اس مقام پر ’شہید مینار‘ کے نام سے ایک یادگار کھڑی کر دی جہاں طالب علم ابو برکت گولی کھا کر گرا تھا۔ یہ یادگار بنگالی قوم پرستی کی علامت بن گئی۔ 1970کا انتحاب جیت کر شیخ مجیب الرحمن نے آدھی رات کو جلوس کی صورت میں یہاں حاضر ہو کر بنگلہ دیش کے پرچم کو سلامی دی تھی۔ 25مارچ 1971کو فوجی کارروائی کے دوران شہید مینار کو منہدم کر دیا گیا تھا۔
1952کا بھاشا آندولن بنگالی زبان و ثقافت کے لیے مخصوص تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ واقعہ دنیابھر میں زبان، ثقافت اور شناخت کے لیے جدوجہد کا استعارہ بن گیا۔ 999۱ءمیں بنگلہ دیش اور 28دیگر ممالک نے یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں قرارداد پیش کی کہ 21فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا جائے۔ یونیسکو نے رواداری، تنوع اور قبولیت جیسی اقدار کے تحفظ کے لیے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ سنہ2000 سے ہر سال 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
( بشکریہ : ہم سب لاہور)