انیسویں صدی کے دوران روس اور برطانیہ کی ’گریٹ گیم‘ کے تناظر میں بحیرہ ہند کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا مفروضہ روسی ہدف بیسویں صدی میں سرد جنگ کے دوران غیر متعلقہ ہو چکا تھا۔ زار شاہی کے آخری برسوں میں تعمیر ہونے والی Murmansk کی بندرگاہ بھی اس زاویے سے غیر اہم ہو چکی تھی کہ سوویت بحریہ کے پاس ایسے نیوکلیئر جہاز موجود تھے جو برفانی منطقوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سمندر تک رسائی سے محروم افغانستان 1974 میں 83 ترقی پذیر ممالک میں 73 ویں درجے پر آتا تھا۔ کل سوا کروڑ آبادی پر مشتمل ملک میں فی کس آمدنی 70 ڈالر تھی۔ خطے میں ایران اور پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات کی موجودگی میں امریکا کے لئے افغانستان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر تھی اگرچہ وہاں نور محمد ترکئی (خلق پارٹی) اور ببرک کارمل (پرچم پارٹی) کی صورت میں سوویت رسوخ موجود تھا۔ 1953 میں سی آئی اے کی سرگرم مداخلت سے ڈاکٹر مصدق کو معزول کر کے امریکا نے ایران میں زبردست اثر و نفوذ پیدا کر لیا تھا۔ 1971 ءکی پاک بھارت جنگ میں مغربی پاکستان کو ناقابل رشک صورت حال سے بچانے میں امریکی کردار نے بھی خطے میں ممکنہ کمیونسٹ اثرات کی موثر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ تاہم امریکی دست نگری کے باوجود بھٹو حکومت کی سوویت یونین سے متوازن تعلقات کی خواہش امریکا کے لئے خوشگوار نہیں تھی۔ فروری 1979 میں ایرانی انقلاب نے خطے کی حرکیات کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ ایران میں امریکا مخالف رجعت پسند ملاؤں کی حکومت کا قیام مشرق وسطیٰ کے جنوب میں آبنائے ہرمز کی اہم گزرگاہ پر امریکی اثر و نفوذ کا خاتمہ تھا۔ ایک اضافی زاویہ یہ تھا کہ سوویت حکومت نے افغان پرچم پارٹی کے سربراہ ببرک کارمل کو چیکوسلاواکیہ میں پناہ دے رکھی تھی چنانچہ بریژنیف حکومت کو خدشہ تھا کہ حفیظ اللہ امین کی قیادت میں خلق پارٹی امریکا کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے روسی حکومت نے دسمبر 1979 میں حفیظ اللہ امین کو قتل کر کے ببرک کارمل کو کابل حکومت سونپ دی نیز کارمل حکومت کی حفاظت کے لئے ایک لاکھ روسی فوجی افغانستان روانہ کر دیے۔
باہم متصادم مفادات کے اس کھیل میں پاکستانی آمر جنرل ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے سے امریکی حکمت عملی کے بہت سے پیچ و خم ہموار ہو گئے۔ 2014 میں سی آئی اے کے سابق سینیئر اہلکار بروس ریڈل نے اپنی کتاب What We Won: America’s Secret War in Afghanistan کی تقریب رونمائی میں کہا تھا کہ ’افغانستان میں سوویت مزاحمت کو چارلی ولسن کی جنگ سمجھنا تاریخ کی غلط تفہیم ہے۔ اس جنگ کا بنیادی کردار پاکستانی صدر ضیا الحق تھا جو لامذہب کمیونسٹوں سے جنگ کر کے انہیں افغانستان سے نکالنا اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتا تھا۔ اس لڑائی میں سعودی عرب نے ہر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک ڈالر کی مدد دی۔ ایک موقع پر تو افغان مجاہدین کے لئے سعودی عرب کی نجی ذرائع سے جمع شدہ مالی مدد ماہانہ دو کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔‘ ریڈل نے مزید کہا کہ ’سی آئی اے کبھی افغانستان میں داخل نہیں ہوئی اور نہ اس نے کسی کو تربیت دی۔ چنانچہ اس لڑائی میں امریکا کو کسی جانی نقصان کا امکان نہیں تھا۔ البتہ افغان اور پاکستانی شہری براہ راست خطرے کی زد میں تھے۔‘ ایک اہم اجلاس میں سی آئی اے کے عہدیدار نے صاف کہا کہ ’ہم افغانستان کی صورت میں سوویت یونین کے لئے تارکول کی ایک گڑیا تیار کریں گے۔ روس جتنے جوش سے اس گڑیا پر جھپٹے گا، وہ اس سیال دلدل میں دھنستا چلا جائے گا‘۔ اس ضمن میں دنیا کو یہ باور کرانا ضروری تھا کہ افغانستان میں روس کی موجودگی سے پاکستان اور ایران کی سلامتی کو براہ راست خطرات لاحق ہیں۔ اسی مفروضے سے گرم پانیوں تک رسائی کی داستان گھڑی گئی۔
ریڈل نے یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ ضیا الحق محض ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہی نہیں تھا۔ ایک کایاں آمر کی طرح اسے اپنی جیب کی بھی فکر تھی۔ کارٹر حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغانستان میں خفیہ کارروائی کے منصوبے کو آپریشن سائیکلون کا نام دیا تھا۔ جمی کارٹر نے 3 جولائی 1979 کو آپریشن سائیکلون کے لئے پراپیگنڈے کی مد میں 695000 ڈالر کی امداد پر دستخط کرتے ہوئے مزید 400 ملین ڈالر مدد کا عندیہ دیا تھا جسے ضیا الحق نے استہزائیہ انداز میں مونگ پھلی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ جنوری 1980 میں ریگن حکومت نے یہ امداد 20 سے 30 ملین ڈالر سالانہ تک بڑھا دی۔ 1987 تک اس مدد کا حجم 630 ملین ڈالر سالانہ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ امریکا نے افغان جنگ کے بدلے میں پاکستان کو معاشی اور عسکری مد کے ضمن میں دو مرحلوں میں بھاری امداد دی۔ 1981۔ 87 تک 3.2 ارب ڈالر کا معاہدہ تھا جب کہ 1987۔ 93 کے چھ برسوں میں 4.2 ارب ڈالر امداد ملنا قرار پائی۔ سوویت مزاحمت کے بدلے امریکا، سعودی عرب اور چین سمیت دیگر ممالک سے پاکستان کو ملنے والی کل مدد کا تخمینہ 6 سے 8 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کراچی بندرگاہ پر پہنچنے والے اسلحے میں خردبرد نے پاکستان کے ترقی یافتہ ترین شہر ہی کو مقتل میں نہیں بدلا، دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین اور اندرون ملک مذہب پسند گروہوں کی کھلی سرپرستی نے پاکستانی سیاست، معیشت اور معاشرت کے خد و خال ہی بدل ڈالے۔ 1980 میں پاکستان میں مذہبی مدارس کی کل تعداد 300 تھی۔ 2021 ءمیں ان مدارس کی تعداد 35000 سے تجاوز کر چکی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تطہیر اور تلقین کے نتیجے میں دو ایسی نسلیں پروان چڑھ چکی تھیں جو تعلیم کے نام پر نیم خواندہ، ذہنی طور پر مفلوج اور تخلیقی سطح پر بانجھ تھیں۔ (جاری ہے )
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ