Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
ہفتہ, نومبر 15, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • ججوں کے استعفے اور عدلیہ کی آزادی : سید مجاہد علی کاتجزیہ
  • لندن میں پاکستانی اور اسرائیلی وفود کی ملاقات اتفاقیہ تھی یا طے شدہ ؟ سردار الیاس کی وضاحت
  • ملتان کے جسٹس امین الدین خان چیف جسٹس آئینی عدالت مقرر
  • آرمی چیف کے عہدے کی مدت 5 سال ہوگی: قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور
  • 27ویں ترمیم کی منظوری: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی
  • عرفان صدیقی کا انتقال اور سیاست کے گندے کھیل کے چسکہ فروش : نصرت جاوید کا کالم
  • جو بچھڑ گئے : سینیٹر عرفان صدیقی کی یاد میں ۔۔ حامد میر کا کالم
  • صحافی اور صحافت : حشمت وفا سے عرفان صدیقی تک : راحت وفا کا کالم
  • ایک گناہ گار بندے کا عمرہ : یاسر پیرزادہ کا کالم
  • سپریم کورٹ کو سیاسی پارٹی نہ بنایا جائے! ۔۔ سید مجاہد علی کا تجزیہ
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»کالم»ناقہ لیلیٰ، اندھیری رات اور تاریخ کا اندھا موڑ
کالم

ناقہ لیلیٰ، اندھیری رات اور تاریخ کا اندھا موڑ

رضی الدین رضیاپریل 5, 20246 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
columns wajahat masood
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

گزشتہ اظہاریے میں ایک جملہ لکھا کہ ’پاکستان کی ریاست اگست 1991 کے سوویت یونین میں کھڑی ہے۔ سابق ہیئت مقتدرہ اور موجودہ ریاستی بندوبست میں خلیج پیدا ہو چکی ہے‘۔ ملفوف اشارہ تھا مگر پڑھنے والے کی نگہ تیز بین سے خبردار رہنا چاہیے۔ ایک عزیز محترم نے اسی بیان پر انگلی رکھ کر وضاحت مانگ لی۔ معیشت اور سیاسی اختیار کی حرکیات میں چند بنیادی نکات سمجھنا ضروری ہیں۔ جس ریاست میں فیصلہ سازی پر عوام کو اختیار نہ ہو، وہاں حتمی اقتدار بالآخر عسکری قوت کے قبضے میں آ جاتا ہے۔ اس میں زار کے روس، مغل سلطنت، سلطنت عثمانیہ، ایرانی ملائیت یا اشتراکی ممالک کی کوئی تخصیص نہیں۔ اقتدار پر ایسی اجارہ داری وسائل کی تقسیم پر اثر انداز ہوتی ہے اور قومی وسائل عوامی بہبود کی بجائے ایک خاص گروہ پر خرچ ہوتے ہیں۔ دنیا کی کوئی فوج بحیثیت مجموعی کاروبار سیاست نہیں سنبھال سکتی کیونکہ اسے پیشہ ورانہ معاملات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔ چنانچہ عثمانیہ سلطنت میں ینی چری نمودار ہوتے ہیں۔ سوویت یونین میں NKVD اور KGB کا ظہور ہوتا ہے۔ مشرقی جرمنی میں سٹاسی پنجے گاڑ لیتی ہے۔ ایران میں ساواک اور بعد از انقلاب پاسداران باقاعدہ فوج پر غالب آ جاتے ہیں۔ جمہوری بندوبست میں بھی سی آئی اے اور ایم آئی سکس وغیرہ موجود ہوتے ہیں اور ان اداروں کی سرگرمیاں اخفا کے پردے میں جرم اور سازش سے خالی نہیں ہوتیں تاہم عوام کی نمائندہ قوتیں سیاست اور معیشت میں حتمی فیصلہ سازی پر منتخب اداروں کی بالادستی کو یقینی بناتی ہیں۔ جواب دہی سے بے نیاز ڈیپ سٹیٹ سے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ معیشت ابتدائی مرحلے میں غیر متوازن ہوتی ہے اور پھر جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ جواب دہی نہ ہو تو پیشہ ورانہ اہلیت ناگزیر طور پر زوال پذیر ہوتی ہے اور بدعنوانی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ یہ بدعنوانی جن پیوستہ معاشی مفادات کو جنم دیتی ہے وہ ایک ہشت پا کی طرح قوم کے معاشی اور تمدنی ارتقا کو جکڑ لیتے ہیں۔
سوویت یونین کی مثال لیجیے۔ 1970 میں سوویت یونین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سپر پاورتھا لیکن طویل ریاستی استبداد سے قومی توانائی خوف کی چادر تلے سرگوشی کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ 1964 میں برسراقتدار آنے والا بریژنیف سیاسی مدبر نہیں محض ایک اہلکار تھا۔ اشتراکی دنیا اور سرمایہ دار بلاک میں علمی اور معاشی خلیج بڑھنے لگی۔ عوام کا معیار زندگی جمود کا شکار ہو گیا۔ اشیائے ضرورت اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ مشرقی یورپ پر گرفت ختم ہونے لگی۔ وسط ایشیا کی ریاستیں ایک ایک کر کے علیحدہ ہو رہی تھیں۔ کریملن کی پرانی قیادت سمجھتی تھی کہ یہ بحران گورباچوف کے پرسٹرائیکا اور گلاس ناسٹ کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اگست 1991 میں کے جی بی اور قدامت پسند قیادت نے بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ گورباچوف کریمیا میں چھٹیوں پر تھا (واللہ یہاں پاکستان کے کسی اعلیٰ منصب دار کے دورہ قطر کی طرف اشارہ مقصود نہیں)۔ 18 اگست کو گورباچوف کو حراست میں لے کر اس کے تمام رابطے منقطع کر دیے گئے۔ ماسکو میں بورس یلسن عوام کے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ پارلیمنٹ کے باہر پہنچ گیا۔ تین روز تک افراتفری رہی۔ تین شہری مارے گئے لیکن بغاوت ناکام ہو گئی۔ 22 اگست کی صبح گورباچوف اپنے اہل خانہ سمیت ماسکو واپس آ گیا لیکن وہ اپنی سیاسی قوت کھو چکا تھا۔ اس کے بعد سوویت یونین کے انہدام میں محض چھ ماہ لگے۔
پرانی اور نئی قوتوں میں یہ تصادم ہر ایسی ریاست میں وقفے وقفے سے وقوع پذیر ہوتا ہے جہاں اختیار کے متوازی سرچشمے موجود ہوں۔ ایسی سیاسی بے یقینی میں معاشی ترقی کی پائیدار منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔ اب کچھ عالمی معاشی حقائق دیکھ لیجیے۔ بھارت چار کھرب ڈالر سے زیادہ کے جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔ اگرچہ فی کس جی ڈی پی کافی کم ہے لیکن بھارت کی شرح نمو 6.3 فیصد ہے۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب جاپان اور جرمنی ہیں۔ جاپان کی شرح نمو ایک فیصد اور جرمنی کی شرح نمو 0.9 فیصد ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ آئندہ دو برس میں بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے۔ ہمارے جی ڈی پی کا کل حجم 377 ارب ڈالر ہے اور ہماری معیشت دنیا میں 41 ویں نمبر پر ہے۔ درویش بھی چاہتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ’چھ بہادر ججوں‘ کے خط پر بحث کی جائے۔ چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے اقرار اور انکار کا تجزیہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا پخت و پز بیان کیا جائے۔ تاہم میری رائے میں اس ساری مشق کا نتیجہ موجودہ آئینی بندوبست کی ساکھ میں بارودی سرنگ لگانا ہے۔ اس میں عدالت عظمیٰ، حکومت، ریاستی اداروں اور سیاسی قوتوں کا دامن ناگزیر طور پر داغ دار ہو گا۔ یہ کھیل کھیلنے والے پورے نظام کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ صحافی مسلسل ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ”افغان طالبان کو گلے لگا لے“۔ یہ نہیں بتاتے کہ افغانستان معروف معنوں میں قومی ریاست نہیں بلکہ اس ملک پر قابض گروہ نے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ پاکستان کے علانیہ دشمنوں کو پناہ دے کر پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی سہولت کاری کر رہا ہے۔ یہ وہی مہربان ہیں جو نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور فضل اللہ سے معاہدہ چاہتے تھے، پاکستان کے جوانوں کی شہادت کو متنازع قرار دیتے تھے۔ اب تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری ریاست درپردہ طالبان کی حمایت کر رہی تھی۔ یہ نہیں بتاتے کہ 2002 سے 2015 تک طالبان کی خفیہ سرپرستی کی مخالفت کرنے والے ٹھیک تھے یا غلط؟ آج پاکستان مغربی دنیا کی ہمدردی بھی کھو چکا اور افغانستان سے بھی پھول موصول نہیں ہو رہے۔ ہماری سیاسی بے یقینی، معاشی بدحالی اور مغربی سرحد پر دہشت گردی ایک ہی مسئلے کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا الزام دوسروں کو دینے کی بجائے فیصلہ کرنا چاہیے کہ پیوستہ ہیئت مقتدرہ کے ازکار رفتہ خیالات سے جان چھڑانا ہے یا تاریخ کے اس اندھے موڑ پر ناقہ لیلیٰ بدستور اندھیری رات میں بھٹکتا رہے گا۔
(بشکریہ:ہم سب)

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

#column #gird o pesh #girdopesh #history #wajahad-masood گردوپیش
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Articleچوگان : ذکریوں کا حج اکبر : عابد میر کا اختصاریہ
Next Article سمیع ابراہیم کا نام ایگزٹ کنٹرول سے نکالنے میں تاخیر : اسلام آباد ہائیکورٹ برہم
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

کیا ستائیسویں آئینی ترمیم سے صوبائی خود مختاری مجروح ہو گی ؟ شہزاد عمران خان کا تجزیہ

نومبر 3, 2025

عہدِ جدید کی مسلمان عورت اپنے حقیقی چہرے کی تلاش میں : سیدہ معصومہ شیرازی کا فکر انگیز مضمون ( پہلا حصہ )

اکتوبر 27, 2025

بازگشتِ درد ۔۔ کیا محبت ختم ہو سکتی ہے ؟ ڈاکٹر علی شاذف کا اختصاریہ

اکتوبر 6, 2025

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • ججوں کے استعفے اور عدلیہ کی آزادی : سید مجاہد علی کاتجزیہ نومبر 15, 2025
  • لندن میں پاکستانی اور اسرائیلی وفود کی ملاقات اتفاقیہ تھی یا طے شدہ ؟ سردار الیاس کی وضاحت نومبر 14, 2025
  • ملتان کے جسٹس امین الدین خان چیف جسٹس آئینی عدالت مقرر نومبر 14, 2025
  • آرمی چیف کے عہدے کی مدت 5 سال ہوگی: قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور نومبر 13, 2025
  • 27ویں ترمیم کی منظوری: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی نومبر 13, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.