آپا قریشہ میرے باپ کی بڑی بہن تھیں۔ 1953 میں بیوہ ہونے کے بعد ستاون برس بھائیوں کی چھت کے نیچے گزارے۔ اس زمانے میں میٹرک کا رزلٹ آدھی رات کے بعد چھپ کر ہمارے قصبے میں پہنچتا تھا۔ آپا قریشہ بالالتزام ہر برس میٹرک کا نتیجہ خریدتی تھیں۔ کسی نے پوچھا، آپا، آپ کے گھر میں کسی نے میٹرک کا امتحان نہیں دیا تو آپ ہر برس یہ ایک روپیہ کیوں خرچ کرتی ہیں؟ کہنے لگیں، آج ان بیٹوں نے امتحان پاس کیا ہے، کل کوئی ہمارے گھر میں بھی میٹرک کرے گا۔ میں، خیر سے اس برس چھٹی جماعت میں پہنچ گیا تھا۔ ریڈیو پہ نور جہاں کی آواز میں صوفی تبسم کا ترانہ بجتا، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو آپا قریشہ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہتے تھے۔ ممتا اپنی کوکھ سے جنے بیٹوں کی گنتی کا نام نہیں، ممتا محبت کا وہ پھیلاؤ ہے جو دنیا بھر کے بچوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ ماؤں کا تذکرہ آج یوں چلا آیا کہ وطن کے بیٹوں کا کچھ ذکر مقصود ہے۔
ان بیٹوں کو صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اسکول بھیجا جاتا ہے، کتابوں سے روشنی ملتی ہے، وطن سے محبت سکھائی جاتی ہے، اٹھارہ بیس برس کی عمر میں کیڈٹ افسر بن کے کاکول پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چاق و چوبند بیٹے برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دہکتے سورج تلے جلتے صحراؤں میں مشقت کرتے منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ کندھوں پر
امتیازی نشان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز کی سرحدوں کے یہ محافظ ایک دن اسٹاف اینڈ کمانڈ کالج کوئٹہ پہنچ جاتے ہیں۔ عسکری قیادت کی دہلیز پار کرنے پر انہیں ریاست کے اعلیٰ منصب داروں سے رسمی ملاقات کا موقع ملتا ہے تاکہ نوجوان افسروں میں اعتماد پیدا ہو۔ ایک گروپ وزیر اعظم سے ملنے جاتا ہے، ایک ٹیم کسی صوبائی دارالحکومت میں بھیجی جاتی ہے۔ کچھ چنیدہ افسر صدر مملکت سے ملاقات کا اعزاز پاتے ہیں۔ آئین کے مطابق صدر پاکستان اس ملک کے محترم ترین منصب دار ہیں۔
کچھ شفقت بھرے جملوں کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے بیٹے پوچھتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت بڑی آبادی ناخواندہ ہے، سیاسی شعور نہیں ہے، لوگ صحیح فیصلے نہیں کرتے، قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ پہ ووٹ بک جاتا ہے، بھاٹی دروازے میں مجمع لگانے کی صلاحیت ہو تو پارلیمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں، کیا ایسے ملک میں جمہوریت چل سکتی ہے؟ مجھے معلوم نہیں کہ فضل الٰہی چوہدری سے ممنون حسین تک ہمارے سربراہ ان سوالات کا کیا جواب دیتے آئے ہیں۔ مجھے ایسی کسی مجلس میں باریابی کا اعزاز حاصل نہیں لیکن عمر عزیز کی اس نصف صدی میں بغاوت پہ آمادہ بیٹے سے تفکر زدہ باپ بننے تک کی منزلیں طے کی ہیں، چار آمریتوں میں سانس لیا، منتخب وزرائے اعظم کی رسوائی دیکھی، مسیحا صفت فرشتوں کے کارنامے دیکھے، گملوں میں سیاسی پنیری لگتے دیکھی، اس دھرتی پر باد نسیم سے لطف اٹھایا اور لو کے تھپیڑے سہے، چنانچہ یہ خوش فہمی ہے کہ کھچڑی بالوں والے اس بوڑھے کو ان بیٹوں سے بات کرنے کا حق حاصل ہے جنہیں ہمیشہ قیمتی جانا، مزید یہ کہ عنقریب یہ زمین ان کے سپرد کرکے رخصت ہونا ہے۔ باپ تو ہوں، اگرچہ راجندر سنگھ بیدی کے لفظوں میں ’اک باپ بکاؤ ہے‘ اور مزید یہ کہ انتظار حسین کے لفظوں میں بوٹوں کے تسمے بات کرتے ہیں۔
عزیزان من، ستر برس پہلے یہ ملک ووٹ کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ تب ہر بالغ شہری کو ووٹ کا حق نہیں تھا لیکن فیصلہ ان کاغذ کے ٹکڑوں کی گنتی سے ہوا جو ان پڑھ لوگوں نے لکڑی کے بکسوں میں ڈالے تھے۔ تب اس خطے میں خواندگی کی شرح آٹھ فیصد تھی۔ جواب دیجیے کہ جولائی 1946ء کے انتخابات میں عوام نے درست فیصلہ کیا تھا یا غلط؟ اگر آٹھ فیصد خواندگی والے رائے دہندگان کا انعام مملکت پاکستان ہے تو چھپن فیصد خواندگی والے اہل پاکستان یہ ملک کیوں نہیں چلا سکتے؟ 19 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے پاکستان اور بھارت کی آزادی کا قانون پاس کیا تو یہ زمین یہاں کے رہنے والوں کو سونپ دی۔ اس میں امیر، غریب، پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی تمیز نہیں رکھی۔ یہ تصور افلاطون نے ڈھائی ہزار سال پہلے پیش کیا تھا کہ بہترین لوگوں کو حکومت کرنی چاہئے۔ انسانیت نے نپولین سے ہٹلر اور اسٹالن سے ماؤ تک بہترین انسانوں کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ سبق یہ حاصل ہوا ہے کہ قوم کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کا راستہ بندوق کی نال سے برآمد ہوتا ہے اور نہ اسٹالن کے پائپ سے دھویں کی صورت نکلتا ہے۔ قومیں طے شدہ بندوبست اور اجتماعی فراست کے بل پر ترقی کرتی ہیں۔
خواندگی کی اچھی کہی، شمالی کوریا میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے اور فی کس آمدنی اٹھارہ سو ڈالر ہے۔ جنوبی کوریا میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہے اور فی کس آمدنی چھتیس ہزار ڈالر ہے۔ خواندگی جمہوریت کی بنیادی شرط نہیں اور نہ سو فیصد خواندگی سے معاشی ترقی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ جمہوریت پر ہمارا حق اس ملک کا شہری ہونے کے رتبے سے منسلک ہے۔ صحیح فیصلے کیا ہوتے ہیں۔ گوادر کی وہ بندرگاہ جو آج پاکستان کی امیدوں کا مرکز ہے، فیروز خان نون نامی وزیر اعظم نے آٹھ ستمبر 1958 ءکو معاہدے کے ذریعے پاکستان میں شامل کی۔ بھٹو صاحب پر فسطائی رجحانات کے الزام موجود ہیں لیکن ایک پیسے کی بدعنوانی بھٹو صاحب نے نہیں کی۔ ترانوے ہزار قیدیوں کی واپسی، چھ ہزار مربع کلومیٹر مقبوضہ رقبے کی بازیابی اور مملکت کا متفقہ دستور ذوالفقار علی بھٹو کے کارنامے ہیں۔
اگر صحیح فیصلہ کرنے کی اہلیت ہی جانچنا ہے تو بتائیے کہ آپریشن جبرالٹر کا فیصلہ درست تھا؟ پچیس مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی جائز تھی؟ کیا آج کے "نااہل سیاست دان” 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی خود کاشتہ فصل نہیں ہیں؟ اب تو سعودی ولی عہد نے مان لیا کہ مغرب کے کہنے پر دنیا بھر میں قدامت پسندی پھیلائی تھی۔ اب فرمائیے کہ 1984ء کے ریفرنڈم میں جو سوال پوچھا تھا، وہ درست تھا؟ اپریل 2002 کے ریفرنڈم میں مذکورہ احتساب منطقی انجام کو کیوں نہیں پہنچا؟ اور خالص پیشہ ورانہ اہلیت سے متعلقہ سوالات تو دہکتے ہوئے کوئلے ہیں کہ ان سے دور رہنا چاہئے۔
تعلیم کے بارے میں تشویش بہت جائز ہے، سوال مگر یہ کہ تعلیم کسے کہتے ہیں؟ انگلینڈ میں سو فیصد خواندگی کی مہم انیسویں صدی کے نصف اول میں چلائی گئی۔ تب برطانوی جمہوریت پر ڈیڑھ سو برس گزر چکے تھے۔ ہم نے 2000ء میں وعدہ کیا تھا کہ تعلیم پر جی ڈی پی کا چار فیصد حصہ خرچ کریں گے۔ اٹھارہ برس بعد یہ شرح 2.2 فیصد پہ ٹھہری ہوئی ہے۔ اس میں نو برس پرویز مشرف کی روشن خیالی کے بھی شامل ہیں۔ آمریت تعلیم پھیلانے کے لیے قائم نہیں کی جاتی، آمریت کا ایک ہی مقصد ہے ، شہریوں کو مفلوج رکھنا۔ دوسری طرف بامعنی تعلیم وہی ہے جو شہریوں کو اس قابل بنائے کہ وہ مملکت کے کاروبار میں بامعنی کردار حاصل کر سکیں۔ اگر قریشہ بیگم کے لے پالک بھتیجے کو دس پیسے ماہانہ فیس کا سرکاری اسکول میسر نہیں آتا تو وہ آج یہ معروضات لکھنے سے معذور رہتا۔ آج پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جمہوریت ہی ان اڑھائی کروڑ بچوں کو قیمے والے نان کی بجائے سیاسی شعور کے ساتھ ووٹ استعمال کرنے کے قابل بنائے گی۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ آئین کو مکمل احترام دیا جائے، جمہوریت کی بنیادوں میں بارود نہ رکھا جائے۔ بیلٹ بکس سے جادو کا کبوتر نہ نکالا جائے۔ موت کے اس کنویں کو گرا دیا جائے جس میں موٹر سائیکل سوار بازی گر کو دیوار پہ چڑھا کر مائنس ون سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چاق و چوبند بیٹوں کے سوالات سر آنکھوں پر، آئیے اختر حسین جعفری کی کچھ سطریں پڑھتے ہیں۔
تکلم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا
جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے
وہاں سے دور ہے بچہ کہ اس کے پاؤں
دریاؤں کے رستے سے ابھی ناآشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
فصیل صبح ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ