یکم مئی 2003ء ، 29صفر المظفر 1424ھ کی شب یعنی ربیع الاول شروع ہونے سے دو دن پہلے ملک کے معروف نعت گو شاعر اور صحافی ولی محمد واجد ہم سے منہ موڑ گئے تھے ۔ ولی محمد واجد کی موت کے بارے میں مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ صفر المظفر 1424ھ میں ہم سے جدا ہو جائیں گے۔ اب ولی محمد واجد کے عزیز و اقارب دوست احباب کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ میرے پاس ایسا کون سا علم ہے جس سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ سال 1424ھ صفر المظفر میں انتقال کر جائیں گے۔ اس سوال کا جواب مضمون کے آخر میں دوں گا لیکن اس سے پہلے قارئین کو بتانا چاہوں گا کہ مولانا ولی محمد واجد کے جنازے میں اتنا رش کیوں تھا؟ ولی محمد واجد صاحب سے پہلے بھی صحافی فوت ہوتے تھے۔ بہت سے نعت کہنے والوں کا بھی انتقال ہوا۔ لیکن واجد صاحب کے جنازے میں جا کر یوں محسوس ہوا۔ جیسے پورا شہر اُمڈ آیا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ ایک جنازہ نہیں بہت سے گھروں سے الگ الگ جنازے آئے ہیں۔ واقعی ولی محمد واجد کوئی ایک شخص نہیں تھا بلکہ وہ تو انجمن تھا ، صحافیوں میں اگر واجد صاحب موجود ہوتے تھے تو وہ ان میں الگ دکھائی دیتے تھے۔ نعتیہ محفل میں جب ترنم سے نعت پڑھتے، تو سماں باندھ دیتے تھے۔ اگر سیاسی تجزیہ کر رہے ہوتے تو یوں لگتا۔جیسے انہیں آنے والے وقت کا ادراک ہے۔ دوستوں کی محفل میں موجود ہیں تو واجد صاحب کو چپ کرانا مشکل ہو جاتا۔ اپنے خوبصورت جملوں سے محفل کو گرمائے رکھتے تھے کہ ان کی سرشت میں یہ بات شامل تھی کہ وہ ہر وقت دوستوں کے دکھوں کو سکھ میں تبدیل کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور پھر جب تک اپنے دوست کے چہرے پر خوشی کے تاثرات نہ دیکھ لیتے تھے تب تک ان کو چین نہیں آتا تھا۔
ولی محمد واجد سے میری ابتدائی ملاقاتیں امروز کے دفتر میں ہوئیں جب میں اور رضی کالج سے فارغ ہو کر اپنی تنظیم مجلس فکر نو کی ادبی تقریبات کی خبریں دینے جایاکرتے تھے۔ امروز کی رپورٹنگ والے کمرے میں سعید صدیقی، ولی محمد واجد، اکرم آرزو، سعید صدیقی ،رشید ارشد سلیمی اور دیگر رپورٹرزموجود ہوتے تھے۔ میں سیدھا واجد صاحب کے پاس جاتا۔ وہ ہماری لکھی ہوئی خبر کی ہمارے سامنے ہی ایڈیٹنگ کر کے کہتے یہ خبر اوپر نیوز روم میں دے کر چلے جاؤ۔ نیوز روم میں کبھی وہ خبر مرزا ابن حنیف کے ہاتھ دیتے تو کبھی مظہر عارف کے حوالے کرتے۔ کبھی ریڈیو سنتے ہوئے مسیح اللہ جام پوری کو سلام کر کے خبر چھاپنے کا کہہ دیتے۔
اخبارات میں خبریں دینے کا سلسلہ 1981ء میں شروع ہوا اور کم و بیش اسی سال ولی محمد واجد سے تعارف ہو گیا۔ چچاحسین سحر کی وجہ سے ملتان کے ادیبوں اور شاعروں سے تعارف بڑا آسان تھا۔ خصوصاً ولی محمد واجد کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں حسین سحر کا قریبی عزیز ہوں تو واجد صاحب نے خصوصی محبت دینا شروع کر دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب واجد صاحب نے اپنے کسی بچے کی شادی کی تو انہوں نے خاص طور پر گھر آ کر مجھے شادی کا دعوت نامہ دیا اور تاکید کی میں تمہارے ہر پروگرام میں آتا ہوں اس لئے شادی میں غیر حاضری نہ لگے۔
1985ء سے لے کر 1987ء تک میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلا گیا تو واپس آ کر معلوم ہوا کہ واجد صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے ان سے ملنے اور اہلیہ کا افسوس کرنے گیا تو وہ بہت دل گرفتہ تھے۔ شاید ان کو آنے والے دنوں کا علم تھا اس لئے انہوں نے بڑی محبت سے اپنی اہلیہ کو یاد کیا جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ولی محمد واجد اور میرے تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا جب بھی ریڈیو ملتان میں کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے آتے میری طرف ضرور آتے۔ کئی سال پہلے جب انہوں نے اپنا گھر شاہ رکن عالم کالونی میں بنایا تو واجد صاحب نے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ رکھا یہ بات کہنے میں مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے آخری دس سالوں میں انہوں نے اہل ملتان کو بہت محبت دی۔ وہ دوست کے دکھ سکھ میں اس طرح شریک ہوتے جیسے ان کا وہ اپنا دکھ ہوتا تھا۔ خاص طور پر مسیح اللہ جام پوری کے بیٹے احمد حسن کا قتل ہوا تو واجد صاحب نے مجھے فون کر کے کہا شاکر صرف جنازے میں شریک نہ ہونا بلکہ مسیح اللہ جام پوری کے پاس گاہے بگاہے جاتے رہنا تاکہ اس کی دلجوئی ہوتی رہے۔ اگر تمہارا کوئی ملنے والا وکیل ہے۔ تو اسے بھی جام پوری کے پاس لے جاؤ تاکہ وہ احمد حسن قتل کیس کو صحیح طور پر لڑ سکے۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات کا عینی شاہد ہوں جس میں ولی محمد واجد نے خاص طور پر ہدایت کی فلاں شاعر یا ادیب مشکل میں ہے اس سے رابطہ کرو۔
واجد صاحب کا اصل نام ولی محمد تھا۔جو یکم جنوری 1936 جالندھر میں پیدا ہوئے۔مادری زبان پنجابی تھی ۔اسی لیے شعر سخن میں بھی پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔انہوں نے اپنے اکلوتے نعتیہ مجموعے” والضحی”
کے دیباچے میں لکھا کہ میرے کان بچپن سے ہی نعت سے آشنا ہو گئے تھے۔ کیونکہ میری دادی ماں لوری کے لیے حضرت راقب قصوری کی نعت گنگناتی تھی۔ اس لیے شاید میں سوا سال کی عمر میں اپنے بچگانہ زبان سے نعت کے ٹوٹے پھوٹے مصرعے ادا کرنے لگا تھا۔یہ تھی میری نعت خوانی کی ابتدا، اس کے علاوہ جب میں سکول میں زیر تعلیم تھا تو اپنے گاؤں ہوشیار پور میں ایک روحانی شخصیت کے چار روزہ عرس اور عیدمیلاد النبی کے پروگراموں میں شرکت کرتا تھا۔مجھے میرے والد نے بھی حکم دے رکھا تھا کہ نعت کو ذریعہ روزگار مت بنانا، البتہ اہل دل اور صاحبان ذوق کی مجلس میں اگر کوئی نعت کی فرمائش کرے تو انکار مت کرنا۔
اپنے پہلے نعتیہ مجموعے کی اشاعت کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دن میں حضرت بہاؤالدین زکریا کی چوکھٹ پر حاضر ہوا تووہاں پر میرے پرانے دوست خواجہ محمد مسعود بھی موجود تھے ۔میں جب دربار کی حاضری کے بعد واپس آنے لگا تو انہوں نے مجھے روکا اور فرمایا میں نے اپ کا نعتیہ کلام ماہنامہ السعید میں پڑھا، بہت سرور آیا، اسے کتابی صورت میں شائع کریں اور مجھ سے درگاہ حضرت غوث میں وعدہ لیا کہ اس سلسلہ جلد پیش رفت ہونی چاہیے۔پھر انہوں نے مجھے حکم کیا کہ میری نعتوں کی کمپوزنگ کروائیں اوراس کو خوبصورت انداز میں شائع کریں۔ان کا نعتیہ مجموعہ کیسے شائع ہوا ۔اس کی کہانی آگے جا کر بتاتا ہوں۔
ولی محمد واجد کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے۔ وہ ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ اردو پنجابی نعت کہنے کے علاوہ پنجابی غزل بھی کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھی آواز کی نعمت سے نوازا تھا۔ کئی سال پہلے جب جبار مفتی نے پریس کلب ملتان کے صدر کی حیثیت سے ربیع الاول کے موقع پر نعتیہ مشاعروں کا آغاز کیا تو بطور صحافی اور شاعر ولی محمد واجد خاص طور پر شریک ہوا کرتے تھے۔ ان مشاعروں میں وہ ترنم سے اپنی نعت سنا کر مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ اسی طرح ضیاء دور میں صحافیوں کے حقوق کی بات کرنے پر جب ان کو پابند سلاسل کیا گیا تو ان کی کمی کو اہل ملتان نے بہت محسوس کیا۔ رہائی کے بعد یار لوگوں کا خیال تھا ولی محمد واجد ضیا الحق کا حامی ہو کر جیل سے باہر آیا ہوگا لیکن جیل میں جانے کے بعد ولی محمد واجد ایک نئے حوصلے کے ساتھ آمریت کے سامنے کھڑے دکھائی دیئے اس دور میں ولی محمد واجد نے پنجابی غزل کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انہیں نے طفیل ہاشمی کے چوبارہ (جو چوک گھنٹہ گھر کے قریب تھا) میں پنجابی اکیڈمی کے ہفتہ روزہ اجلاس شروع کئے۔ تو واجد صاحب نے ترنم سے ضیائی آمریت کے خلاف اپنی غزلیں سنانی شروع کر دیں۔ جس میں ان کی بہت سی غزلوں کو شہرت ملی، خاص طور پر
’’کالے پھنیر وانگوں شوکے ات اندھیری رات‘‘
والی غزل اکثر ان سے فرمائش کر کے سنی جاتی اسی طرح جب قسور گردیزی کا انتقال ہوا تو ولی محمد واجد نے ان کے بیٹوں سے مل کر برسی منانے کے پروگرام ترتیب دیئے ۔ جو چند سال تک بڑی کامیابی سے ہوتے رہے۔
زندگی کے آخری پانچ سالوں سے ان کا معمول تھا کہ وہ مجھے صبح سویرے فون کر کے ’’ دل کا حال سنایا اور سنا‘‘ کرتے تھے۔ اسی دوران ان کے نعتیہ مجموعہ والضحیٰ کی اشاعت کا پروگرام بنا میں نے معروف آرٹسٹ علی اعجاز نظامی سے ’’والضحیٰ‘‘ کے دو تین ٹائٹل بنوائے تو واجد صاحب کو دکھانے کے لئے ان کے گھر گیا کہنے لگے میری کتاب کو جس طریقے سے بھی شائع کرو بس جلد سے جلد کتاب منظر عام پر آنی چاہئے۔ میرا خیال تھا کہ وہ اپنی کتاب کو کسی نعتیہ مقابلے میں بھجوانا چاہتے ہیں لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا وہ اپنا نعتیہ مجموعہ اس لئے جلد لانا چاہتے تھے کہ اس کے بعد وہ اپنے پنجابی مجموعہ کو تیار کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنے پنجابی مجموعہ کا نام ’’سنتاف‘‘ رکھا اس کے دیباچہ کے لئے انہوں نے منو بھائی اور حسین سحر کا انتخاب کیا۔منو بھائی سے ولی محمد واجد نے اپنی کتاب کے دیباچے کا کہا تو انہوں ے مصروفیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں بعد دوں گا۔ تو ولی محمد واجد نے کہا شاکر، میری کتاب فوراً چھاپ دو مجھے منو بھائی کے مضمون کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پھر ایک دن واجد صاحب نے بتایا کہ منو بھائی کا نہ صرف معذرت نامہ آیا ہے بلکہ اس نے ایک تفصیلی مضمون بھی لکھ کر بھیج دیا ہے۔ اسی طرح واجد صاحب نے حسین سحر سے جب پنجابی شاعری پر لکھنے کا کہا ، وہ ان دنوں سعودی عرب جا رہے تھے۔ حسین سحر نے وہاں جا کر ولی محمد واجد کی شخصیت اور شاعری پر مضمون بھجوایا تو بڑے خوش ہوئے۔ کہنے لگے شاکر میری کتاب کا کام مکمل ہو گیا اب پنجابی شاعری کی کتاب آ جانی چاہئے۔ جو تادم تحریر بعض وجوہات کی بنا پر طبع نہ ہو سکی۔
بات ہو رہی تھی ان کے نعتیہ مجموعہ والضحیٰ کی، انہوں نے ملتان کے تمام دوستوں کو خود جا کر یہ کتاب پیش کی۔ اپنی کتاب کو کسی بھی نعتیہ مقابلے میں نہیں بھیجا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میرے لئے قدرت کا اس سے بڑا انعام اور کیا ہے کہ میری پہچان نعت کے حوالے سے ہے۔ ولی محمد واجد سینئر ہونے کے باوجود چھوٹی سے چھوٹی محفل میں نعت کو بہت اعزاز سمجھ کر پڑھا کرتے تھے۔ نعت پڑھتے ہوئے وہ آنکھیں بند کر لیا کرتے تھے میرا خیال ہے کہ آنکھیں بند کر کے وہ مدینہ منورہ کو اپنے سامنے دیکھ لیا کرتے تھے یوں ان کی نعت میں جو سرشاری اور وارفتگی دیکھنے کو ملتی وہ ان کے ہم عصروں میں نہیں ہوتی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیر ریاض حسین قریشی نے ڈائیلاگ کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی تو ولی محمد واجد اس کے بانی جنرل سیکرٹری مقرر کئے ۔اس تنظیم کے بنیادی اراکین میں محسن شاہین، ملک ارشاد رسول، ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری، ملک وزیر غازی۔جاوید گردیزی اور دیگر احباب شامل تھے۔ ولی محمد واجد باقاعدگی سے ڈائیلاگ کے اجلاس کی نظامت کرتے نظامت سے پہلے خود ہی تلاوت کرتے۔ پروگرام کا آغاز نعت کے دو اشعار پڑھ کر پھر موضوع کی طرف آتے اور اجلاس کے دوران دوستوں کی گفتگو پر جملے کستے رہتے۔ اجلاس سے ایک دم غائب ہو جاتے تو معلوم ہوتا کہ واجد صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں ان کی زندگی کی آخری ادبی تنظیم ڈائیلاگ تھی جس میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔
جہاں تک ولی محمد واجد کی ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کا تعلق تھا تو وہ ملتان میں ایسی تمام تنظیموں کی حمایت میں ہر وقت سرگرم رہتے تھے۔ جہاں سے متوسط درجے کے لوگوں کو کچھ مل سکتا تھا۔ ان کا اپنا تعلق اسی قبیلے سے تھا اس لئے ان کی تمام زندگی انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے گزری۔ وہ بات الگ ہے کہ لوگوں کو انصاف دلانے والا خود انصاف سے محروم رہا۔ ساری زندگی دکھوں اور اکلاپے سے لڑتا رہا لیکن اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے دکھ اتنے زیادہ تھے کہ آخر کار موت کو واجد پر رحم آیا اور اس کے دکھوں کو سمیٹ کر واجد کو اپنے ساتھ لے گئی کہ جہاں پر یقینا ولی محمد واجد کے لئے سکھ ہی سکھ ہیں۔
ولی محمد واجد کی زندگی کے آخری برسوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، اورلکھا جائے گا۔ آ خری چند برسوں میں جو بھی دوست ان سے ملنے جاتا وہ مغموم ہو کر آتا۔ کہ ولی محمد واجد ان کی باتوں کا جواب نہیں دیتے۔ واجد صاحب ان کو دیکھ کر فقرہ نہیں اچھالتے ہیں ولی محمد واجد اپنی زندگی کے آخری کئی ماہ بستر سے لگ کر رہے۔ وہ بہت کم لوگوں کو پہچانتے تھے۔ ایک مرتبہ حسین سحر نے سعودی عرب جانے کا قصد کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں جانے سے پہلے ولی محمد واجد سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جمعہ کی شام کو چلیں گے، میں اور سحر صاحب ان کے آبائی گھر لکڑ منڈی گئے تو سخت سردیوں کے دن تھے۔ ان کے کمرے میں ہیٹر چل رہا تھا اور ولی محمد واجد ہمیں دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ سحر صاحب خوش ہو گئے کہ واجد صاحب نے انہیں پہچان لیا ہے یہ بات درست تھی کہ انہوں نے ہمیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا لیکن وہ بول نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے ہماری کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔بلکہ وہ خود کلامی کر رہے تھے۔ ساری زندگی دوستوں کی محفل میں سب سے زیادہ بولنے والا ولی محمد واجد چپ تھا۔ ہم نے واجد صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کے کمرے سے باہر آ گئے ان کے کمرے سے لے کر سڑک تک آنے کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا لیکن حسین سحر رات کے اندھیرے میں اس طرح اپنے دوست کے لئے رو رہے تھے۔ جیسے کسی بچے سے اس کی عزیز ترین چیز چھین لی جاتی اور پھر کافی دیر تک ہم ولی محمد واجد کی گلی میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو دلاسا دیتے رہے کہ واجد صاحب جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ حسین سحر اپنے پروگرام کے مطابق سعودی عرب چلے گئے اور میں گاہے گاہے واجد صاحب کی عیادت کو جاتا رہا۔ واجد صاحب کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ پھر ایک دن ولی محمد واجد کے قریبی دوست ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کا مجھے فون آیا کہ میں اور مشکور صابری آج واجد صاحب کو دیکھ کر آئے ہیں ان کی مالی امداد کے لئے کچھ کیا جائے۔ میں نے ڈاکٹر صلاح الدین کی ہاں میں ہاں ملائی اور سوچا کہ اسلام آباد میں افتخار عارف(ان دنوں اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ تھے ) اور لاہور میں امجد اسلام امجد سے واجد صاحب کی مالی امداد کے لئے بات کروں۔ پھر ذہن میں ایک خیال یہ بھی آیا کہ اگر واجد صاحب کو پتہ چل گیا کہ جس شخص نے تمام زندگی تنگی کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال بلند نہیں کیا تو اب میری بیماری کے دوران میری عزت نفس مجروح کر رہے ہیں تو وہ ناراض ہوں گے یہ سوچ کر میں نے اسلام آباد اور لاہور رابطہ نہیں کیا۔ اور واجد صاحب کی موت کے بعد سوچتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ درست تھا کہ اگر واجد صاحب صحت یاب ہو جاتے تو شاید اسی مسئلہ پر ان کا سامنا نہ کر پاتا کہ وہ اپنی ذات کی بے توقیری کے قائل نہ تھے کہ انہوں نے تمام عمر ایک وقار کے ساتھ گزاری۔
واجد صاحب کی موت سے تقریباً 8 دن پہلے کی بات ہے کہ محسن شاہین میرے پاس آئے اور معمول کی باتیں کر کے چلے گئے۔ محسن شاہین کچھ ہی دیر بعد واپس آ گئے۔ خیریت تو ہے؟ میں نے محسن شاہین سے پوچھا۔ کہنے لگے کسی دن واجد صاحب کو دیکھ آتے ہیں ، میں نے کہا کسی دن نہیں ابھی چلتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد دونوں واجد صاحب کے کمرے میں تھے۔ محسن بھائی نے جاتے ہی واجد صاحب کی ٹانگوں کو دبانا شروع کر دیا میں نے واجد صاحب کو اپنا نام بتایا وہ خاموش رہے۔ محسن نے اپنا نام بتایا تو انہوں نے غور سے دیکھا اور چہرے پر مسکراہٹ لائے۔ ان کی مسکراہٹ پر محسن شاہین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ واجد صاحب اب پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں اور دوستوں کو پہچان رہے ہیں۔ پھر آنکھوں سے ہم نے واپسی کے لئے قصد کیا تو محسن شاہین کے موبائل پر واجد صاحب کے یار دیرینہ پرویز آفتاب کا فون آ گیا کہ میں بھی واجد صاحب کو دیکھنا چاہتا ہوں ہم نے ان کو منع کر دیا کہ آپ سے ولی محمد واجد کی حالت دیکھی نہیں جائے گی تو ہم اپنی طرف سے خدا حافظ کہہ کر اسی امید پر واپس آ گئے کہ اگلی مرتبہ جب واجد صاحب سے ملاقات ہوگی تو وہ پہلے سے بہتر ہوں گے۔ کیونکہ ان کا بڑا بیٹا اقبال کہہ رہا تھا کہ ابو اب پہلے سے کافی بہتر ہو گئے ہیں۔
صحافت،شاعری میں غزل، حمد نعت ،منقبت، ٹریڈ یونین،روزنامہ امروز، بی بی سی لندن ،سمرا پبلک سکول کی ملازمت(دوران ملازمت مزدوروں،کسانوں، ہاریوں اور صحافیوں کے لیے کلمہ حق بلند کرنے والے ) مولانا ولی محمد واجد نے 30 اپریل 2003 کو انتقال کیا ۔
ولی محمد واجد کے جنازے پر پیرزادہ عبد السعید دل گرفتہ تھے کہ میرے گھر کی نعتوں کی محافل کو سجانے والا چلا گیا۔ میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا ڈاکٹر محمد امین کہہ رہے تھے کہ مجھ سے دل کی بات کرنے والا چلا گیا ۔ سیاستدان، صحافی، ادیب، شاعر، سماجی کارکن، وکلاء کن کن کا ذکر کیا جائے۔ وہاں تو اس دن پورا شہر ہی ان کے جنازے میں موجود تھا۔
جنازے میں وہ لوگ بھی شریک تھے جو ان کی نعت سنا کرتے تھے۔ ان کی نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ بہت سے دوست کہہ رہے تھے کہ اس سال ربیع الاول پر ولی محمد واجد کی آواز میں نعت نہیں سن سکیں گے۔ بہت سے دوست یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے پچھلا پورا سال ان سے نعت نہیں سنی کہ وہ شدید بیمار تھے۔ میرا خیال ان سب سے مختلف ہے۔ یہ بات درست تھی کہ ولی محمد واجد گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھے لیکن ایک بات ان کی سرشت میں شامل تھی کہ وہ گزشتہ کئی عشروں سے ربیع الاول میں خصوصی طور پر نعت کی محافل بغیر اعزازیئے کے نعت پڑھا کرتے تھے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں جس شخص کی بنیادی شناخت نعت گو ئی ہو۔ ربیع الاول آئے اور وہ نعت نہ پڑھے اس لئے ولی محمد واجد نے 29صفر المظفر کی شب کو فانی دنیا سے کوچ کیا کہ وہ حسب روایت اس سال بھی ربیع الاول کے موقع پر ایسی ہستی کو اپنی نعت سنانا چاہتے تھے کہ جس کی مدحت پوری زندگی ولی محمد واجد کرتے رہے۔ اسی لئے ربیع الاول سے دو دن پہلے ولی محمد واجد ہمارے ہاں سے چلے گئے کہ انہوں نے اگلے جہان میں جا کر اپنی نعتیہ بیاض پر ایک سال سے پڑی گرد جھاڑنا تھی۔اپنے حضورؐ کے سامنے جانے کے لئے تیاری کرنا تھی۔ ان کو کم از کم دو تین دن تو ملنے چاہئے تھے اس لئے میں نے مضمون کے آغاز میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اس سال صفر المظفر کے آخر میں اسی ہستی کے پاس چلے جائیں گے جس کا میلاد وہ ہر سال پڑھا کرتے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس سال میلاد نہ پڑھتے۔
واجد عجیب رنگ جمے گا روزِ محشر
تو نعت جب پڑھے گا رسول انامؐ کی
________________________
ہونے نہیں دیتا میری تسکین کو برہم
کرتا ہے کرم تیرا حفاظت مری ہر دم
صحرائے دل و جاں میں کھلا گلشن رحمت
اس پیار سے برسی تیرے الطاف کی شبنم
تسخیر مہ و مہر کے اسلوب سکھائے
فطرت کی اداؤں کا بنایا ہمیں محرم
ظلمت کدہء دہر میں اک شمع فروزاں
ہر ایک ادا تیری ہےاے نور مجسم
اس دور حیا سوز کی حدت سے اماں دے
واجد کی یہ فریاد ہے بادیدہ پرنم
فیس بک کمینٹ