عام انتخابات 2018 میں خواتین امیدواروں کی شمولیت کے حوالے سے سخت قانون بنایا گیا ،الیکشن ایکٹ 2017کی شق 206 کے تحت سیاسی جماعتوں کے لیئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نششتوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کو جاری کریں ، جبکہ اس قانون پر عمل نہ کرنے کی صورت میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے خلاف سخت کاروائی کے بھی احکامات موجود تھے ، الیکشن ایکٹ 2017 کے قوانین کے مطابق اگر کسی پولنگ اسٹیشن یا حلقے میں خواتین کے کاسٹ ووٹوں کی تعداد 10 فیصد سے کم ہوئی تو اس حلقے کا الیکشن بھی کالعدم قرار دے دیا جائے گا .. تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی اس شرط کو تو قبول تو کیا لیکن خواتین کو ان حلقوں سے ٹکٹ جاری کیئے جہاں پر شکست واضح تھی ۔سخت الیکشن قوانین کے باعث 2013 کے عام انتخابات کے مقابلے میں الیکشن 2018 میں خواتین امیدواروں کی تعداد 9 فیصد زائد رہی 2018 کے انتخابات میں 171 خواتین نے قومی اسمبلی کی نششتوں کے لیئے عام انتخابات میں حصہ لیا جو کہ ملکی تاریخ میں خواتین کے براہ راست انتخابی عمل میں حصہ بننے کی سب سے بڑی تعداد ہے لیکن بیشتر جماعتوں نے خواتین کو ان حلقوں سے ٹکٹ دیا جہاں سے ان کے جیتنے کے امکانات نہایت کم تھے جس کی وجہ سے صرف چند خواتین ہی کامیاب ہو سکیں ۔
الیکشن 2018 میں خواتین کو سب سے زیادہ 19 ٹکٹس پیپلز پارٹی نے دیں متحدہ مجلس عمل نے 14 جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے 11 ، 11 قومی حلقوں پر خواتین کو ٹکٹس جاری کیں ۔الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 2013 میں 135 خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا جن میں سے 61 پارٹی ٹکٹس پر الیکشن لڑیں جبکہ 76 خواتین آزاد حثیت سے میدان میں اتریں ۔عام انتخابات 2008 میں 72 خواتین انتخابی میدان میں اتریں جن میں سے 41 خواتین نے پارٹی ٹکٹس پر الیکشن لڑا جبکہ 31 خواتین امیدوار وں نے آزاد حثیت سے ہی الیکشن میں حصہ لیا
2018 کے عام انتخابات میں اگر خواتین کی نمایاں کامیابیوں کی بات کریں تو این اے 115 سے تحریک انصاف کی غلام بی بی بھروانہ نے آزاد امیدوار احمد لدھایانوی کو بھاری اکثریت سے شکت دی جبکہ این اے 230 میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پیپلزپارٹی کے امیدوار رسول بخش چانڈیو کو شکست دی اور پانچ بار مسلسل الیکشن جیت کر ایک ریکارڈ بھی قائم کیا ۔ این اے 191 سے تحریک انصاف کی زرتاج گل نے مضبوط امیدوار سردار اویس لغاری کو شکست دی جبکہ این اے 216 سے شازیہ مری کامیاب ہوئی
الیکشن پر گہری نظر رکھنے والے ادارے فافن کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں مرد ووٹروں کا ٹرن آوٹ58.3 فیصد رہا جبکہ خواتین کا ٹرن اوور 47 فیصد رہا جو کہ 2013 کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود کچھ علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ایسی شکایات موصول ہوئیں کہ خواتین کو زبردستی ووٹ ڈالنے نہیں دیئے گئے جس پر الیکشن کمیشن کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے
یورپی یونین کے مبصرین نے خواتین کو انتخابی جمہوری عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کا خیر مقدم کیا یورپی یونین کے مبصرین کی جانب سے جاری کیئے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ خواتین کی بڑی تعداد کی شرکت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عام نششتوں پر خواتین کو پانچ فیصد نششتیں دینے کی شرط ایک نکتہ آغاز ہو گا لیکن ضروری یہ ہے کہ انہیں اہم حلقوں سے امیدوار بنایا جائے نا کہ کمزور حلقوں میں صرف کوٹہ پورا کرنے کے لیئے امیدوار نامزد کیا جائے
الیکشن ایکٹ 2017 کے بعد پانچ فیصد کوٹے پر خواتین کو ٹکٹیں جاری ہونے این اے 155 سے اے این پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی خاتون امیدوار نوشین افشاں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس کا بہت فائدہ نظر آئے گا ، حوصلہ افزاء بات ہے کہ کم از کم سیاسی عمل میں خواتین نے براہ راست شرکت شروع ہوئی ہے جو کہ ایک صحت مند معاشرے کی طرف جانے کے لیئے اہم قدم ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے حقوق کی آواز لگانے والی اور روشن خیال جماعتوں نے ایسا کیوں کیا ، کیا سیاسی جماعتون کے لیئے انسانی مساوات ، صنفی امتیازات جیسے سوال کوئی اہمیت کے حامل نہیں رکھتے ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے صرف الیکشن جیتنے کی طرف زور لگایا نہ کہ معاشرے کے تمام طبقوں میں برابری کی مثال قائم کی جاتی ۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم کس طرح کا معاشرہ بنتے جا رہے ہیں جہاں صرف طاقت کو اہمیت ہے اقدار کو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔