جمعے کو لاہور میں نواز شریف اور مریم کے استقبال کی آڑ میں مسلم لیگیوں کی قیادت نے دراصل کیا کھیل کھیلا؟لاہور اور فیصل آباد وغیرہ کے مختلف تھانوں میں ایک ہزار سے زائد نونیوں کے خلاف جو درجن بھر پرچے کٹے ان سے سب کھل کے سامنے آگیا۔ مسلم لیگی قیادت نے اپنے کارکنوں کو ڈسپلن میں رکھنے کے بجائے جس غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا وہ ہم سب کے لیے ایک لمحہِ فکریہ ہے۔لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد اکبر نے تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ شہباز، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، پارٹی چیئرمین راجہ ظفر الحق، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق، امیر مقام مشاہد حسین سید، سابق وزراء بلال یاسین، مجتبی شجاع الرحمان، طلال چوہدری، رانا مشہود، رانا ثنا اللہ، اکرم انصاری، مریم اورنگ زیب، سائرہ افضل تارڑ اور سابق ایم پی اے عظمی بخاری نے سرکاری عمارتوں اور املاک کو نقصان پہنچایا، ریاستی اہلکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی نیت سے پتھراؤ کیا۔یوں 20 پولیس والے اور چار رینجرز اہل کار زخمی ہوئے۔ چنانچہ پولیس کو بادلِ نخواستہ ایف آئی آروں میں ان نام نہاد رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کرنا پڑ گئیں۔کیا زمانہ تھا جب مرحوم چوہدری ظہور الہیٰ صرف بھینس چوری کرتے پکڑے جاتے تھے اور مرحوم حسن محمود بھری دوپہر میں کھمبوں پر چڑھ کر بجلی کی تاریں چوری کر کے سمجھتے تھے گویا سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور کوئی نہیں دیکھ رہا۔لیکن آج ریاست اور ادارے پہلے سے زیادہ بالغ و خود مختار ہیں اور قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے میں انتہائی سنجیدہ بھی۔ وہ دن گئے جب کٹھ پتلی پارلیمنٹیرینز مارشل لا کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ ( انڈیمنٹی ) دے دیتے تھے۔وہ دن ہوا ہوئے جب کسی آمر کو آئین توڑنے کے جرم میں قانونی تحفظ مل جاتا تھا اور وہ عدالتی طلبیوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کے بیرونِ ملک مشرف کی طرح سکون سے جھلنگے میں لیٹ سکتا تھا اور کسی میں جرات نہ تھی کہ اس کے نام کے ریڈ وارنٹ نکال کر انٹرپول کو دے سکے۔اب وہ دن کبھی نہ آئیں گے جب کیمروں کے سامنے عین وفاقی دارالحکومت میں عین پارلیمنٹ کے سامنے کسی اچھے خان یا کسی مولانا جغادری کے جیالے کسی ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو مار مار کے گٹھڑی بنا دیں، وزیرِ اعظم ہاؤس کی آہنی باڑھ کاٹ دیں یا ٹی وی سٹیشن میں گھس کے ہر شے تتر بتتر کر کے اور پھر اپنے گرفتار حامیوں کو پولیس کے بند ٹرکوں کی ہوا نکال کے چھڑا لے جائیں اور اپنے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم ہونے کے باوجود بچ نکلیں۔ اپنی صداقت و امانت بھی بچا لے جائیں اور سینہ ٹھوک کر الیکشن بھی لڑ سکیں۔وہ دن گئے جب کوئی اسلام آباد، پنڈی یا لاہور کو اپنی مرضی سے جب چاہے یرغمال بنا لے، چیف جسٹس کو بیسیوں کیمروں کے سامنے ننگی ننگی گالیاں دے۔ اوپر سے نیچے تک کوئی بھی ادارہ اس پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہے ’چلو فیر جان دئیو، اے پھڑو ہزار ہزار روپے تے معاف کرو، تہاڈے خلاف سارے پرچے خارج۔ تسی الیکشن لڑو۔‘جو ہوا سو ہوا مٹی پاؤ۔ اب گڈ گورنینس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب کسی فرعون نے سرکار کو پتھر چھوڑ پتھر مارنے کی نیت بھی کر لی تو اسے نہیں چھوڑنے کا۔ ایک ایک اقامے، ایک ایک وصول و غیر وصول شدہ پیسے کا حساب دینا پڑے گا۔ ایک ایک مکان کی ملکیت ثابت کرنا پڑے گی بھلے کرپشن سے بنایا یا چھپا کر بنایا۔کتنی شادیاں کیں سمیت سب بتانا پڑے گا۔ مغل بادشاہت ختم، نگراں حکومت کے بعد سلطانیِ جمہور کا نگراں کنڈرگارٹنی دور شروع۔ نیا پاکستان زندہ باد۔مگر وہ پشاور کے 22، بنوں کے چار اور مستونگ کے 128؟ ایک بار اندرونی خطرات سے نمٹ لینے دو، ایک بار گڈ گورننس آنے دو۔ تب دیکھیں گے کون مائی کا لال دہشت گرد ہے جو اب بھی زندہ ہے۔ آپریشن جاری تھا، جاری ہے اور آخری دہشت گرد کے مرنے تک جاری رہے گا۔ اپنا سنجو بابا سب ٹھیک کردینے کا۔ پھوکٹ میں ٹینشن کائے کو لینے کا!
فیس بک کمینٹ