وزیرِ اعظم عمران خان نے یومِ اقبال (نو نومبر) پر ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ اقبال کا شاہین جب انا کا خول توڑ کے بلندی پر چلا جاتا ہے تو اپنے لیے نہیں انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ انسان عقل کی غلامی سے نکل کر عشق اور جنون کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
مثلاً ایڈمنڈ ہلری ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھا۔ اس سے پہلے جس نے بھی دنیا کی اس سب سے اونچی چوٹی پر چڑھنے کی کوشش کی وہ مر گیا یا ناکام ہوگیا۔ اگر ایڈمنڈ ہلری عقل کا غلام ہوتا تو رک جاتا کیونکہ عقل تو کہتی ہے کہ کوئی بھی نہیں چڑھ سکا تو بھی نہ چڑھ پائے گا۔ اور پھر ایسا انسان کامیابی کے بعد ایک منزل پر نہیں رکتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے۔
یہ پہلا خوشگوار موقع ہے کہ یومِ اقبال پر کسی وزیرِ اعظم نے روایتی سائیکلو سٹائل کے بجائے باقاعدہ وڈیو پیغام دیا ہے۔ ورنہ یومِ اقبال کے ساتھ بھی کلامِ اقبال جیسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ کبھی اقبال کے یومِ پیدائش پر قومی تعطیل ہوتی ہے تو کبھی صرف پنجاب میں تعطیل ہوتی ہے اور کبھی پنجاب میں بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہر حکمران اقبال کو اپنی نگاہ سے اوپر نیچے کرتا رہتا ہے ۔
مگر اقبال کی نگاہ سے عمران خان نے اپنے وڈیو پیغام میں شاہین کے جو اوصاف گنوائے مثلاً بے خوفی، بلندیِ پرواز، عشق و سرمستی اور عقل سے ماورا ہو جانا۔ اگر شاہین کی واقعی یہی تعریف ہے تو پھر ایک خودکش بمبار ہی اس پر پورا اتر سکتا ہے۔
لہذا ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وزیرِ اعظم غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عقل پر سو فیصد تکیہ کرنے کے بجائے اس میں تھوڑا سا جنون بھی ملا لینا چاہیے تاکہ جنون وہ لمبی بے خوف چھلانگ لگوا سکے جہاں بزدل عقل پہنچتے ہوئے جھجکتی ہے۔
اس بابت خان صاحب نے ماؤنٹ ایورسٹ کے فاتح سر ایڈمنڈ ہلری کی جو مثال دی وہ بھی قابلِ غور ہے۔ آپ نے فرمایا کہ منطق تو یہ کہتی ہے کہ جس چوٹی تک کوئی نہ پہنچ سکا تو بھی نہ پہنچ سکے گا لہذا خطرہ مول نہ لے۔ مگر جنون نے ایڈمنڈ ہلری کا ساتھ دیا اور ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچا دیا۔
بات یہ ہے کہ معاملہ صرف جنون کا ہوتا تو ایڈمنڈ ہلری ان کوہ پیماؤں سے زیادہ جنونی ہرگز ہرگز نہ تھے جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچنے کی خواہش میں راستے میں ہی مر گئے۔ مگر ہلری اس لیے کامیاب ہو سکا کہ ان کے جنون کا عقل نے بھرپور ساتھ دیا۔انہوں نے سابقہ مہمات کی ناکامی کے اسباب، غلطیوں اور موسمیاتی اونچ نیچ پر دھیان دیا، زیادہ بہتر حکمتِ عملی اپنائی، زیادہ پیشہ ور مقامی معاونین کا انتخاب کیا، رسد کا انتظام بھر پور رکھا تب جا کر اس جنون کا ہاتھ تھاما جو ایڈمنڈ ہلری کو چوٹی تک لے گیا۔ اس موقع پر ہمیں قسمت کا شکر گزار بھی ہونا چاہیے۔
خود اقبال نے مبتلاِ جنون ہو کر دیوارِ حیات سے ٹکر نہیں ماری بلکہ آس پاس کی اونچ نیچ سمجھ کر، حالات کے اعتبار سے فیصلے کر کے منطق و مصلحت کے چھتر تلے زندگی گزاری۔اقبال کے اندر جو آتشِ عشق تھی وہ مصرعے میں ڈھل گئی۔ اور پھر جیسا کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اقبال کے مجموعوں میں سے مولوی نے اپنے مطلب کے شعر اٹھا لیے، قوم پرستوں نے اپنے حساب سے اقبال تراشی کر لی اور بائیں بازو نے اپنی پسند کا اقبال پکڑ لیا۔ گویا جس کو جتنا ہاتھی سمجھ میں آیا اس نے اسے ہی پورا سمجھ لیا۔
اور اس کا کیا کریں کہ اقبال سے متاثر تو عمران خان ہیں مگر کلامِ اقبال علامہ خادم حسین رضوی کو حفظ ہے۔
فیس بک کمینٹ