وزیرِ خزانہ اسد عمر نے تئیس جنوری کو جو دوسرا منی بجٹ پیش کیا اس میں تاجروں، صنعت کاروں ، سرمایہ کاروں اور اسٹاک بروکرز کے لیے خاصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو ، معیشت کا پہیہ رواں ہو ، نیا روزگار پیدا ہو، ملک قرضوں کے گھن چکر سے نکل کر پاﺅں پر کھڑا ہو اور غربت جھٹک کر اگلے دس برس میں متوسط ترقی یافتہ ملکوں کے کلب میں قدم رکھ سکے۔
ممکن ہے یہ سب اہداف اسی طرح حاصل ہوجائیں جیسا کہ موجودہ حکومت کو امید ہے۔مگر معیشت کا پہیہ چلنا، صنعت و حرفت کی ترقی ، زرِ مبادلہ کے اضافی ذخائر کا جمع ہونا اور بہی کھاتے میں فی کس آمدنی کا دگنا ہو جانا کیا یہ سب اس کی ضمانت ہے کہ خوشحالی میں سب کا حصہ برابر ہو گا اور ریاستی آمدنی بڑھنے کے سبب عدم مساوات بھی قدرے کم ہو گی اور کچھ علاقے ضرورت سے زیادہ ترقی نہیں کر جائیں گے اور کچھ علاقے بالکل ہی پیچھے نہ رہ جائیں گے ؟
آئیے! معاشی ترقی کی دو مثالیں دیکھتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی مثال تھائی لینڈ کی ہے جس کا شمار گزشتہ دو دھائیوں سے ایشیا کے ابھرتے ہوئے معاشی ٹائیگرز میں ہو رہا ہے۔اس وقت سات کروڑ آبادی والے تھائی لینڈ کی معیشت کا حجم ایک اعشاریہ بتیس ٹریلین ڈالر ہے۔یہ ایشیا کی آٹھویں بڑی معیشت ہے۔اس کی کرنسی بھات دنیا کی دسویں مضبوط کرنسی ہے۔ سالانہ قومی آمدنی کا بانوے فیصد صنعتی اور سروس سیکٹر سے آتا ہے۔عالمی بینک کہتا ہے کہ سماجی و معاشی ترقی کے اشاریوں کے اعتبارسے تھائی لینڈ کا شمار انتہائی کامیاب معاشی مثالیوں میں ہوتا ہے۔
مگر اس چکا چوند میں کسی معاشی جادوگر کو دکھائی نہیں دیتا کہ اس قدر سنہری اعداد و شمار کے باوجود تھائی لینڈ کا شمار معاشی عدم مساوات کی شکار ریاستوں میں سب سے اوپر کیوں ہے۔ریاست کی سڑسٹھ فیصد پیداواری دولت ایک فیصد آبادی یعنی سات لاکھ افراد کے کنٹرول میں ہے۔ جب کہ چھ کروڑ ترانوے لاکھ تھائی شہریوں کے کنٹرول میں صرف تینتیس فیصد وسائل ہیں۔نوے فیصد سے زائد کاروبار، سروس سیکٹر اور صنعت ان چند خاندانوں اور کمپنیوں کے کنٹرول میں ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا ، رشتہ ناطہ ، فائدہ نقصان فوج اور شاہی اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہے۔ کنٹرولڈ ملکی سیاست ریڈ شرٹس کے غریبوں اور یلو شرٹس کے متوسط طبقے میں بانٹ دی گئی ہے۔مگر کاغذ اور عالمی معاشی روزنامچوں میں تھائی لینڈ ایک جیتا جاگتا معاشی معجزہ ہے۔
تھائی لینڈ ذرا دور ہے مگر بھارت تو ہماری گردن پر ہر وقت گرم سانسیں چھوڑتا رہتا ہے۔اس وقت بھارت چھٹی عالمی اور تیسری بڑی ایشیائی معیشت ہے۔سال دو ہزار اٹھارہ انیس کے لیے بھارتی معاشی نمو میں آٹھ فیصد سے زائد اضافے کی پیش گوئی ہے جو کہ چین کے معاشی نمو کے آنکڑے سے بھی ایک فیصد زائد ہے۔ یہی رفتار رہی تو اگلے دس برس میں بھارت چین کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔
مگر برطانوی خیراتی ادارے آکسفام کی تازہ سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس وقت بھارت کی پچاس فیصد آبادی جتنے اثاثے کی مالک ہے اتنے ہی اثاثے کے مالک صرف نو بھارتی ارب پتی ہیں۔ صحت و صفائی کے شعبوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مجموعی طور پر جتنا بجٹ اس سال مختص کیا ہے۔اس کا حجم صرف ایک صنعت کار مکیش امبانی کی ذاتی دولت سے بھی کم ہے۔
بھارت میں اس وقت ایک سو انیس ارب پتی ہیں جن کی مجموعی ذاتی دولت کا اندازہ چار سو چالیس ارب ڈالر ہے۔دو ہزار سترہ سے اب تک ان ارب پتیوں کی دولت میں ایک سو پندرہ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
بھارت کی ایک فیصد آبادی باون فیصد قومی دولت کنٹرول کرتی ہے اور دس فیصد آبادی مجموعی طور پر ستتر فیصد دولت کنٹرول کرتی ہے۔جب کہ بھارت کی دس فیصد غریب ترین آبادی (ساڑھے تیرہ کروڑ ) پچھلے پندرہ برس سے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی قرض ادھار پر زندہ اور اس میں اکثریت کسانوں کی ہے۔معاشی و سماجی زبوں حالی کے ہاتھوں بھارت میں جتنی خود کشیاں ہوتی ہیں ان میں سے ستر فیصد اسی نچلے دس فیصد غریب ترین طبقے میں ہوتی ہیں۔مگر ریاستی اسٹیبلشمنٹ ہو کہ میڈیا یا عالمی ادارے سب کے سب ”شائننگ انڈیا ” کے گیت میں ہم آواز ہیں۔جو ٹیڑھا سوال اٹھائے وہ حاسد۔
اس وقت سوئٹزرلینڈ کے تفریحی مقام ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجتماع ہو رہا ہے جہاں اس کرہِ ارض کی دولت کے مالک ، سیاسی گرو ، صنعت و کارپوریٹ سیکٹر کے زار اور ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے گر بتانے والے کنسلٹنٹس ہر سال کی طرح سر جوڑ کے بیٹھے ہیں کہ کس طرح اس کرہِ ارض کی ماحولیات کو سدھارا جائے ، ترقی کو بے بس طبقات تک لے جایا جائے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
ایسے مواقعے پر آکسفام اور اس جیسے کچھ اور ادارے جنھیں ڈیوس کی پارٹی میں آنے کی اجازت نہیں۔وہ اپنے جلے پھپھولے متوازی رپورٹیں شایع کر کے پھوڑتے رہتے ہیں۔مثلاً تری اور غربت کے خاتموں کے شاندار دعوﺅں کے بیچ کوئی تو اس کا بھی جواب دے کہ یہ کیسی دنیا ہے جو ہر سال اتنی ترقی کر رہی ہے جو سات ہزار برس کی مجموعی ترقی سے بھی زیادہ ہے تو پھر ایسی دنیا میں تو جہالت، بیماری ، بے گھری ، جنگوں اور بے روزگاری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
مگر ایسا کیوں ہے کہ دو ہزار سترہ میں اس دنیا کے چوالیس افراد کے پاس جتنی دولت تھی وہ دنیا کی آدھی آبادی کے زیرِ استعمال وسائل کے برابر تھی۔ لیکن اس سال یہ چوالیس کم ہو کر چھبیس رہ گئے ہیں۔ یعنی اب چھبیس افراد کے پاس پونے چار ارب نفوس کے برابر دولت ہے۔پچھلے دس برس میں ارب پتیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے مگر انھی دس برس میں دنیا کی آدھی آبادی کی آمدنی میں اضافے کے بجائے گیارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایک جانب اگر چار سو ارب پتیوں کی مجموعی آمدنی روزانہ ڈھائی ارب ڈالر کے حساب سے بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب ساڑھے تین ارب افراد روزانہ ساڑھے پانچ ڈالر فی کس پر منجمد کیوں ہیں۔
یقیناًپاکستان بھی ترقی کر جائے گا۔اس کی معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی۔اسے بھی قرضوں سے نجات مل جائے گی۔اس کی قومی پیداوار میں بھی سالانہ آٹھ نو فیصد اضافے کا خواب پورا ہوگا۔مگر یہ بائیس کروڑ لوگوں کی ترقی ہو گی یا بائیس لوگوں کی ؟ ہو سکے تو اس بارے میں سوچنے کے لیے کچھ قیمتی وقت نکالیے گا۔یہ درخواست میں عام آدمی سے نہیں اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حاشیہ بردار ارب پتیوں اور کارپوریٹ اداروں کے کارٹیل سے کر رہا ہوں کہ جن کے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے سوائے سماعتوں کے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ