یکم مارچ سے پہلے میں نہیں مانتا تھا کہ مٹی بھی انسانی شخصیت و کردار پر اثرانداز ہوتی ہے مگر چار روز پہلے ایک خبر سننے کے بعد میرا خیال بدل گیا ہے۔مٹی انسانوں پر طرح طرح سے اپنی چھاپ چھوڑتی ہے۔
مثلاً سندھ کے سات دروازوں والے شہر شکارپور کو لے لیں۔کلہوڑوں کے سر کا تاج اور سترویں سے انیسویں صدی تک وسطی ایشیا کا تجارتی دروازہ کہلانے والا خطے کا سب سے بڑا کاروباری مرکز۔یہاں کے ہندو بھائی بند تاجروں کی ساکھ کا یہ عالم تھا کہ ان کے دستخطوں کی ہنڈی عدن سے سمرقند اور بصرہ سے استنبول تک بطور کیش استعمال ہوتی تھی۔قافلہ قلعہ نام کی ایک سرائے تھی جس میں خشک میوے اور ریشم کے بدیسی بیوپاری قیام کرتے تھے اور استنبول کے چھت والے بازار کی طرز پر بنے شکار پور کے بازار میں اپنی مصنوعات برائے فروخت چھوڑ جاتے تھے۔ یہاں امیر تاجروں کی جمالیاتی ضرورت پوری کرنے کے لیے عطر سازی کی مقامی صنعت تھی۔یہ امرا منقش بگھیوں میں اردگرد پھیلے باغات کی سیر کو نکلتے۔روزانہ دھلنے والی سڑکوں پر گندگی پھیلانے والی گھوڑا گاڑیوں پر جرمانہ ہوتا تھا۔
خوشحالی خصوصی نہیں عمومی تھی۔آج کسی سے پوچھیں کہ زندگی کیسی گذر رہی ہے تو جواب ملتا ہے بس کرم ہے مالک کا دال روٹی چل رہی ہے۔پرانے شکار پور میں کہا جاتا تھا بس کرم ہے مالک کا مچھلی روٹی مل رہی ہے۔
ہر خاص و عام کے لیے رائے بہادر اودھے داس تارہ چند خیراتی اسپتال اور ہیرا نند گنگا بائی زنانہ اسپتال کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔سندھی لڑکیوں کے لیے پہلا ایشوریا بائی گرلز اسکول ، قاضی ملاح ( نادر وارا ) بوائز اسکول اور چیلا سنگھ سیتل داس کالج۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انیس سو تیس کے سندھ میں جو ستتر گریجویٹ تھے ان میں سے ستر شکار پور سے تھے۔سندھ اسمبلی کے پہلے اسپیکر آغا بدرالدین ، پہلے وزیرِ اعلی اللہ بخش سومرو اسی مٹی کے تھے۔سندھی شاعری کے چار ستون ہیں۔لطیف ، سچل ، سامی ، شیخ ایاز۔ان چاروں میں سے آخری دو ستون شکار پور نے فراہم کیے۔شکار پور میں رہنا اور تعلیم سے محروم رہ جانا ، دونوں الگ الگ باتیں تھیں۔
اور پھر جیسا ہر شہر کے ساتھ ہوتا ہے شکارپور بھی زوال کی ریت تلے دبتا چلا گیا۔مگر بعض شہروں کی مٹی زوال کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیتی ہے۔اسی زوالیہ شہر میں ایک کمپاؤنڈر لال محمد بھٹو بھی تھا۔ مٹی کی تاثیر نے لال محمد کو علم دوستی سے رنگ دیا اور پھر اس سے یہ علم دوستی اس کے پانچ بچوں میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ان میں سے دو بچے قتل ہو گئے۔مگر یہ کہانی کسی بھی قتل سے پہلے کی ہے۔
اسی لال محمد کے بڑے بیٹے جاوید بھٹو سے میری ملاقات 80 کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی کے قائدِاعظم ہاسٹل میں ہوئی۔گھنے بالوں والا چادر اوڑھے ہوئے اپنی دنیا میں گم ہاسٹل کی سنگی بنچ پر بیٹھا ایک لڑکا۔غور و فکر کی کیفیت سے لگتا تھا کہ یہ لڑکا آج دنیا کے مسائل حل کر کے ہی اٹھے گا۔جاوید بھٹو دراصل ایک تکون کا تیسرا کونہ تھا۔تکون کے باقی دو کونے نرنجن کمار اور انعام شیخ تھے۔یہ تینوں سیاسی ایکٹوسٹ تھے، فلسفی تھے۔ نرنجن میں آگ بھری ہوئی تھی، انعام بہت بولتا تھا اور جاوید کینجھر یا منچھر کی طرح پرسکون ۔
تینوں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں فعال تھے۔میرا تعلق اسلامی جمیعت طلبا سے تھا۔ایسا نہیں کہ میرا مطالعہ نہیں تھا اور میں بحث نہیں کر سکتا تھا۔مگر ان تینوں سے الجھنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔کیونکہ مطالعہ اور پولٹیکل ایکٹو ازم میرا جزوی اور ان تینوں کا کل وقتی مسئلہ تھا۔البتہ جاوید جب کبھی کہیں تنہا مل جاتا تو میرے کچے پکے سوالات کے جواب میں وہ نہایت سکون سے منطقی و جدلیاتی گفتگو کرتا۔کبھی کبھی تو یوں لگتا کہ اس لڑکے میں کسی ایسے گذرے منطقی کی روح ہے جس کا کام نامکمل رہ گیا تو اس نے جاوید کی شکل میں نیا جنم لے لیا۔
میرے لیے یہ بات بھی حیرت انگیز تھی کہ یہ وہ لڑکا ہے جسے بولان میڈیکل کالج میں پڑھتے ہوئے عین بیچ سفر میں ایک دن محسوس ہوا کہ یہ راستہ اس کے لیے نہیں اور اس نے یو ٹرن لیا اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہِ فلسفہ میں داخلہ لے لیا۔پھر ایک دن یہ تینوں لڑکے ایک ایک کر کے میرے ریڈار سے اوجھل ہو گئے۔پھر پتہ چلا کہ نرنجن چیکوسلواکیہ اور وہاں سے فن لینڈ چلا گیا ( آج کل حیدرآباد میں وتایو گھر چلا رہا ہے)، انعام شیخ نے سندھ یونیورسٹی میں تدریس شروع کر دی اور بیشتر زندگی حیدرآباد میں گذار دی۔ جاوید بھٹو بلغاریہ گیا اور ڈاکٹر جاوید بھٹو (پی ایچ ڈی ان فلاسفی ) بن کے لوٹا اور سندھ یونیورسٹی جوائن کر لی۔
مگر اس سے پہلے ایک المناک خبر ملی۔جنوری انیس سو نوے میں جاوید کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کا قتل۔اخبارات میں شایع ہوا کہ پیپلز پارٹی کے ایک رکنِ صوبائی اسمبلی رحیم بخش جمالی نے شادی کا جھانسہ دیا اور پھر مار کے پھینک دیا۔جاوید نے جذباتی ہوئے بغیر انصاف کے مروجہ اداروں کا دروازہ کھٹکٹایا۔حسبِ توقع ریاست کی جانب سے بھر پور ساتھ اور تعاون کے بجائے بااثر اپنوں، پرائیوں کی جانب سے جاوید پر مقدمے سے دستبرداری کے لیے دباؤ پڑا اور وہ سب سے پوچھتا ہی رہا کہ آخر کیوں ؟ رحیم بحش جمالی پر قتل کی فردِ جرم عائد ہوئی۔لگ بھگ دو برس جیل میں رہا اور پھر جیسا ہوتا ہے ضمانت ہو گئی۔بیس برس بعد ( دو ہزار بارہ ) میں رحیم بخش جمالی کا بھی اپنی ہی برادری کے ایک شخص کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ہو سکتا ہے بہت سے لوگ اسے مکافاتِ عمل سمجھیں۔ہوسکتا ہے ایسا سمجھنا ٹھیک بھی ہو۔
مگر یہ تو ایک عام سی کہانی کے عام سے کردار ہیں۔ میں ان عام سے کرداروں پر اتنی تفصیل سے کیوں لکھ رہا ہوں ؟ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔جاوید بھٹو اگر ایک عام سا استاد ہوتا اور کسی یونیورسٹی میں اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو کر مر جاتا تو لکھنا بنتا نہیں تھا۔مگر جاوید ان علم ساز اساتذہ میں سے تھا جو فی زمانہ اقلیت میں ہیں۔
جاوید نے تصوف ، روشن خیالی اور عقلیت پسندی پر تو جو کام کیا سو کیا مگر وہ شاگرد ساز بھی تھا۔ایسے شاگرد جو لکیر کے فقیر بن کے محض خوراک ِ روزگار نہ بن جائیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ اردگرد کو بھی اپنے کردار اور کمٹمنٹ سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
مگر وہ کیا ذاتی و غیرذاتی عوامل تھے جن کے سبب جاوید بھٹو کو لگ بھگ بیس برس پہلے پاکستان چھوڑ کر امریکا جانا پڑا۔میں ان وجوہات کے بارے میں اندھیرے میں ہوں ۔لیکن بعد کی زندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شائد جاوید کی ہجرت تلاشِ معاش سے زیادہ کنوئیں سے باہر نکل کے دیگر انسانوں کے مطالعے کی جستجو میں تھی۔تلاشِ معاش کے لیے ہوتی تو کاہے کو واشنگٹن ڈی سی کے اس علاقے میں بستا کہ جہاں راندہِ درگاہ سیاہ فاموں کی اکثریت ہے۔
وہ اسی علاقے میں کیوں رہنا چاہتا تھا ؟ کیا وہ خوئے غلامی کی تہہ تک پہنچنا چاہ رہا تھا کہ جو انسانوں کے ڈی این اے میں سرائیت کر جاتی ہے۔کیا وہ اپنے اس نظریے کو ٹیسٹ کرنا چاہ رہا تھا کہ رنگ و نسل کچھ نہیں ہوتے، اصل شے انسانی ذہن ہے۔وہ کیسے بگڑتا ہے یا بگاڑا یا مسخ کیا جاتا ہے ؟ اگر یہ نکتہ سمجھ میں آجائے تو اسے کیسے سنوارا جا سکتا ہے۔
جاوید چاہتا تو اپنے علم اور صلاحیت کے بل بوتے پر کسی بھی اچھی امریکی یونیورسٹی میں ایڈجسٹ ہو سکتا تھا۔ مگر واشنگٹن میں بھی اس نے ملازمت چنی تو کیا ؟ اسپیشل چلڈرن ( جسمانی و ذہنی معذور بچوں ) کے مرکز میں ان بچوں کے ساتھ وقت گذارنا۔جو تنخواہ ملتی ان میں سے بیشتر نادار بچوں کی تعلیمی مدد میں صرف ہو جاتی۔مگر صوفیت میں گندھی سندھیت پر اس کا کام کبھی نہ رکا۔سال میں ایک یا دو چکر لگاتا تھا تو اندازہ ہوتا تھا کہ پرسکون چہرے کے باوجود اس کی روح گھتیاں سلجھانے کے لیے اتنی ہی بے چین ہے جیسی پینتیس برس پہلے کراچی یونیورسٹی ہاسٹل کے اس سنگی بنچ پر بیٹھے لڑکے کی تھی۔
یکم مارچ کو واشنگٹن میں جاوید کے ایک ہمسائے نے گھر کے سامنے نشہ کر کے اول فول بکنے پر ٹوکنے کی سزا جاوید کے جسم میں گولیاں اتار کے دے دی۔المیہ یہ نہیں کہ جاوید بھٹو قتل ہو گیا۔المیہ یہ ہے کہ قاتل نہیں جانتا کہ اس نے کس آدمی کو مار ڈالا۔مگر مجھے جاوید کے دنیا سے یوں چلے جانے کے دکھ کے علاوہ یہ بھی دکھ ہے کہ اسے سندھ سے نہیں جانا چاہیے تھا۔آج کے قحط الرجالی بونے عہد میں اس جیسے علم ساز و شاگرد ساز کی یہاں پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
بہت بے آسرا پن ہے سو چپ رہ
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ