ابھی 27 برس پہلے ہی کی تو بات ہے جب میں نے بش ہاؤس کلب میں ہندی سروس کے پہلے پاکستانی نژاد براڈ کاسٹر شفیع نقی جامعی کو دیکھا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے جس شعلہ بیان مقرر صدر کے بارے میں ایک خاص دبدبے دار تصور لے کر میں بش ہاؤس میں داخل ہوا تھا اس تصوراتی شفیع اور میرے سامنے موجود گرے کلر کے سوٹ میں بیٹھے شفیع کے درمیان کوئی مماثلت نہیں تھی۔
ہاں چشمے کے پیچھے چمکتی ایکس رے نگاہیں، پاٹ دار آواز اور اس آواز کے دوش پر پرواز کرتی محاوراتی زبان بتا رہی تھی کہ شاید یہ وہی ہے جس کے بارے میں کراچی سے سنتا یہاں تک آیا ہوں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ شفیع ہندی میں اکثر اور کبھی کبھار اردو میں بھی بطور فری لانسر کام کرتے ہیں۔
اردو تو خیر مادری زبان تھی ہی مگر ہندی شفیع نے ضرورتاً اور ضد میں بطور چیلنج سیکھی۔ حالانکہ وہ دیوناگری نہیں لکھ سکتے مگر اردو رسم الخط میں ہندی لکھ کر بولتے ایسے ہیں کہ سات پھیرے کرانے والا پنڈت بھی کان پکڑ لے۔ اسی دور میں کسی ستم ظریف اردو پروڈیوسر نے میر صاحب کی زمین میں منہ ماری کرتے ہوئے کہا ’شفیع! چھوڑ دو انداز ہندی والوں کے۔ اٹھو گے حشر میں ورنہ تتھا تتھا کرتے۔‘
تاہم اردو سروس پر جو پنڈت چھائے ہوئے تھے ان کا خیال تھا کہ شفیع کا ترجمہ اور زخیرہِ الفاظ اردو براڈ کاسٹنگ کے معیار پر کھرا نہیں اترتا۔ لہذا سیربین، شب نامہ یا جہاں نما میں کبھی کبھار شفیع کو اکا دکا مراسلہ ترجمہ کرنے کو مل جایا کرتا تھا۔
یہ رویہ شفیع کے حق میں بہتر ہی ثابت ہوا اور شفیع نے اس سرد مہر رویے کا جواب پروگرام ’کھیل کے میدان سے‘ کو ایک نئے تیز رفتار جناتی انداز میں ڈھال کر دیا۔
شفیع کو ’کھیل کے میدان سے‘ منجھے ہوئے براڈ کاسٹر اطہر علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملا اور پھر کئی برس تک یہ پروگرام شفیع کے منفرد انداز، محنت اور دلی کے محاوراتی تڑکوں کے سبب اردو سروس کی شناخت بن گیا۔ پھر ایک روز شفیع کو اردو سروس نے بادلِ نخواستہ باقاعدہ پروڈیوسر کے طور پر قبول کر ہی لیا۔
شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ شفیع ایک کھردرے شخص ہیں۔ اسے تو بھنڈی گوشت بنانا بھی آتا ہے۔ اس کا تو قہقہہ بھی چھت پھاڑ ہے۔ یہ تو لمبی لمبی شرطیں بھی ہارتا جیتتا ہے، جب چاہتا ہے اپنی انگریزی کو آکسفورڈین بنا لیتا ہے اور جب عام گوروں گوریوں اور کالوں کے درمیان ہوتا ہے تو انگریزی بھی عوامی اور کبھی کبھار بازارو اور کبھی افریقنائز ہو جاتی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ شفیع بی بی سی کے اندر زیادہ مقبول ہے یا باہر۔
شفیع کو بہت غصہ آتا تھا۔ پھر حالات غصہ روکنے والی بریکیں مضبوط کرتے چلے گئے۔ شفیع چونکہ طبعاً مقرر ہے لہذا کبھی کبھی محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنی آواز اور اتار چڑھاؤ پر خود ہی فدا ہے۔ چنانچہ شروع شروع میں جب شفیع سیاستدانوں کے انٹرویوز لینے لگے تو ہوتا یہ تھا کہ شفیع کا سوال دو گز کا اور جواب ملتا تھا تین فٹ کا۔
شفیع بھائی فیلڈ میں گئے تو دو گھنٹے کا ریکارڈنگ مٹیریل جمع کرنے مگر لوٹے 22 گھنٹے کی ریکارڈنگ اٹھائے۔ اب نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا کہ اس صوتی گودام کی ایڈیٹنگ کیسے ہو گی۔ خدا کا شکر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں عادتیں بہتر ہوتی چلی گئیں۔
پھر میں نے شفیع کو بی بی سی اردو ٹی وی پر دیکھا۔ لگتا تھا کہ جنم جنم سے صاحب یہی تو کرتے آئے ہیں۔ مگر شفیع جتنے بولنے کے دھنی ہیں اتنے ہی لکھنے کے چور۔ حسرت ہی رہی کہ یہ رنگارنگ، پیچ دار اور چیلنج کو خندہ پیشانی سے قبول کر کے کھرا اترنے والا قلم کے میدان میں بھی اترے۔
البتہ شفیع نے پچھلے 35 برس میں ہندی اور اردو کو جو دیا اور اردو سروس کو شناخت دینے میں جتنا بھی انفرادی حصہ ڈالا وہ کم از کم اس نسل تک تو یاد رہے گا ہی جسے اگلے چالیس پچاس برس اور جینا ہے۔ کون جانے اس کے بعد ریڈیو اور ٹی وی رہے نہ رہے اور رہے بھی تو جانے کس شکل میں۔
شفیع اگرچہ تین روز قبل اردو سروس سے ریٹائر ہو گئے مگر اب میں بطور دوست انھیں ایک اور چیلنج دینا چاہتا ہوں۔
شفیع بھائی آپ اب تک بہت بول لیے۔ اب لکھنے پر اتر آؤ اور باجے پھاڑ دو۔
(بشکریہ:بی بی سی)
فیس بک کمینٹ