روایت ہے کہ جب بنی اسرائیل مصریوں کی غلامی سے نجات پا کر بحیرہِ قلزم کے پار پہنچے اور چالیس برس تک وادی سینا کے بنجرعلاقے میں پھرنے کے بعد انھیں یروشلم کی سلطنت ملی تو پھر وہ غفلتوں اور بے اعتدالیوں میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔
مگر ضمیر کے کچوکوں سے بچنے کی راہ یہ نکالی گئی کہ ہر برس یومِ کپور ( یومِ نجات ) کے موقع پر راہبِ اعظم پوری امت کے گناہ رنگ برنگی علامتی دھجیوں کی شکل میں ایک بکری کے سینگوں سے منڈھ کر بکری کو ویرانے کی طرف ہنکال دیتا۔ تب سے لغت میں ایک اصطلاح داخل ہوئی اسکیپ گوٹ۔ یعنی ایسی بکری جس کے سر ہم اپنی تمام غلطیاں، بے اعتدالیاں اور نا اہلیاں منڈھ سکیں۔ یہ اصطلاح بنی اسرائیلیوں کا ایسا تحفہ ہے جسے دنیا بھر کے سیاستداں، حکمراں، بازی گر اور قول و فعل کے متضادی نسل در نسل تا قیامت استعمال کرتے رہیں گے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ جن یہودیوں نے دنیا کو اسکیپ گوٹ کا تصور دیا۔ انھی کی اگلی نسلوں کو یورپ میں ہٹلر کے دور تک اسکیپ گوٹ بنا کے رکھا گیا اور پھر ان یہودیوں نے فلسطینوں کو اسکیپ گوٹ بنا لیا۔ اور اب تو فلسطینی اسکیپ گوٹ کے درجے سے بھی نیچے آ گئے ہیں۔
آج نو اپریل کو اسرائیل میں جو پارلیمانی الیکشن ہو رہے ہیں ان میں اگر نتین یاہو اور ان کے شدت پسند دائیں بازو کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہو گئی تو انتخابی وعدے کے مطابق غربِ اردن میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی اسکیپ گوٹ کو قربان کر کے اس میں سے یہودی بستیوں کے پارچے اسرائیل میں ضم کرنے کی خطرناک سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ نام نہاد مسلم امہ خود اسکیپ گوٹ بننے کے خوف سے اس بار بھی اپنا منہ ادھر ادھر کر لے گی اور مسئلہ فلسطین حسب ِ معمول آسمان کی جانب نمناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرے گی۔
اسکیپ گوٹ کے تصور سے زیادہ موثر نظریہ آج تک وجود میں نہیں آیا۔ کوئی بھی ریاست دوسری ریاست کو، ایک نظریہ دوسرے نظریے کو، ایک اکثریتی گروہ کسی بھی اقلیتی گروہ کو، ایک طاقتور دوسرے کمزور کو اپنی تمام برائیوں کی جڑ یا اپنی غلطیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے صاف بچ نکل سکتا ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو سب کے سامنے کہہ سکیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی لہذا میں معذرت خواہ ہوں۔ غلطی اول تو مجھ سے ممکن ہی نہیں اور بالفرضِ محال ہو بھی گئی تو یہ میں نے نہیں کی بلکہ مجھ سے معروضی حالات یا فلاں بندے یا ادارے نے خود کو بچانے کے لیے کروائی ہے۔
میں ایک ہی خاندان کو دہشت گرد فرض کر کے سڑک پر اڑا دینے والے ساہیوال سانحے کی بات نہیں کروں گا جو رفتہ رفتہ بلیک کامیڈی کی شکل اختیار کرنے کے بعد یادداشت سے ہی اوجھل ہو گیا۔ اور اب یہ فرض کرایا جا رہا ہے کہ دراصل اس خاندان نے جان بوجھ کر خود کو قانون نافذ کرنے والوں سے قتل کرا لیا تاکہ ”منی بدنام ہو جائے“۔
دیکھیے مشرقی پاکستان میری وجہ سے نہیں ٹوٹا، وہ تو دراصل بنگالی ہی غدار اور سازشی تھے۔ انھیں تو جانا ہی تھا۔ ویسے اگر جانا ہی تھا تو پھر اتنا خون خرابہ کس امید پر کیا؟ ایسے سوالات کیوں پوچھتے ہیں جن کا جواب آپ پہلے سے جانتے ہیں۔ یہ تو زیادتی ہے نا سر جی۔
ملک میں مذہبی تنگ نظری کیوں مریضانہ حد تک بڑھ چکی ہے؟ وہ جی جنرل ضیا کی وجہ سے۔ مگر جنرل ضیا کو تو مرے تیس برس ہو گئے۔ ہاں جی تیس برس تو ہو گئے مگر اس کے دور میں پیدا ہونے والے بچے بھی تو تیس برس کے ہو گئے ہیں اور اب تو ان بچوں کے بھی ماشا اللہ بچے ہو گئے ہیں۔ تو یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اور اگلے تیس برس تک ہوگا اور اس کا ذمے دار جنرل ضیا ہی رہے گا۔
اچھا تو یہ معیشت کیوں قابو میں نہیں آ رہی؟ نواز شریف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے۔ تو پھر آپ آٹھ ماہ سے کیا کر رہے ہیں؟ ہم تو ماضی کی غلط پالیسیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا آپ کی اپنی بھی کوئی پالیسی یا ویژن ہے؟ بالکل ہے، نواز شریف اور زرداری دور کی پالیسیوں کو ٹھیک کرتے رہنا۔ اور مشرف دور کی اقتصادی بے اعتدالیوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کچھ بھی نہیں کہوں گا، تب میں سیاست میں نہیں تھا لہذا مجھے کیا پتہ کہ اس دور میں کیا اچھا کیا برا ہوا۔
کب تک ماضی کی غلط پالیسیاں ٹھیک ہو جائیں گی؟ امید ہے پانچ سال پورے ہونے سے پہلے پہلے۔ اگر نہ ہوئیں؟ تو پھر یہ ہم پانچ سال بعد ہی بتا پائیں گے کہ کیوں نہیں ہوئیں۔ تو پھر اگلے انتخاب میں ووٹ کس منہ سے مانگیں گے؟ جی اسی منہ سے۔
دراصل ہم عوام کے سامنے نصابی نظریہ لے کر جائیں گے اور جیت جائیں گے۔
نصابی نظریہ؟ میں سمجھا نہیں؟
جی ہم عوام کو اس بچے کی کہانی سنائیں گے جو ایک اسکول میں داخل ہوا تو ایک ماہ بعد ہی اپنے والد سے کہنے لگا کہ اب وہ اسکول نہیں جائے گا۔ والد نے پوچھا کیوں بے؟ بچے نے روتے ہوئے بتایا کہ ایک ٹیچر اس سے بڑی غلط غلط فرمائشیں کرتا ہے اور انکار کرنے پر خوب پٹائی کرتا ہے۔ مجھے نفرت ہو گئی ہے میں وہاں نہیں پڑھنا چاہتا۔ والد فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور بچے کو لے کر اسکول پہنچ گیا اور پرنسپل سے کہا کہ آپ کے اسکول میں بچوں سے کیا یہی سلوک ہوتا ہے؟ میں اپنے بچے کو یہاں سے فوراً نکال کر کسی ایسے اسکول میں داخل کراؤں گا جہاں بچے کی حرمت پر آنچ نہ آئے اور وہ خود کو محفوظ سمجھے۔ پرنسپل نے کہا کہ ہم اس ٹیچر کی باز پرس کریں گے۔ آپ اپنے بچے کو یہیں رہنے دیں۔ لیکن اگر آپ اس بچے کو کہیں اور داخل کرانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ پر ایک بات بتائے دیتا ہوں کہ آپ جہاں بھی جائیں گے نصاب تو یہی رہے گا۔
جب ہم ووٹروں کو یہ کہانی سنائیں گے تو امید ہے وہ ہمیں دوبارہ منتخب کر لیں گے۔
چلیے مان لیا کہ معیشت سابق ادوار کی بے اعتدالی کی وجہ سے جلد ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ مگر باقی مسائل کے بارے میں کیا ہو رہا ہے؟
دیکھیے جی ہم تو پارلیمنٹ چلانا چاہ رہے ہیں مگر اپوزیشن نہیں چاہتی کہ پارلیمنٹ چلے۔ بلوچستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی ذمے داری افغان انٹیلی جینس اور را پر عائد ہوتی ہے۔ فاٹا میں اگر کوئی بے چینی ہے تو اس کی ذمے دار پشتون تحفظ موومنٹ کی جذباتی سیاست ہے۔
سر سندھ میں صحت اور تعلیم کی حالت روز بروز ابتر کیوں ہو رہی ہے، جتنا بھی ترقیاتی بجٹ آپ کو ملتا ہے وہ بھی پورا کیوں خرچ نہیں ہو پاتا؟
دیکھیے جناب جب ہم پر مسلسل مقدمات اور تفتیش کی تلوار لٹکا کے رکھی جائے گی، جب اٹھارویں ترمیم کے مستقبل کے بارے میں مسلسل سوالات اٹھائے جائیں گے تو ہم کیسے باقی کاموں پر دھیان دے سکیں گے۔
مگر مقدمات تو اب قائم ہوئے ہیں۔ آپ تو گیارہ سال سے مسلسل صوبے پر حکومت کر رہے ہیں؟
حکومت کون کمبخت کر پا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ایک دن بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔
فرض کریں اسٹیبلشمنٹ آپ کو فری ہینڈ دے دے تو آپ کیا کریں گے؟
جب فری ہینڈ دے گی تب سوچیں گے۔ ابھی سے کیا سوچنا۔
ابھی کیا سوچ رہے ہیں؟
ایک نئی اسکیپ گوٹ کے بارے میں!
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ