اس وقت سیاسی مچھلی بازار میں وہ آپا دھاپی ہے کہ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کون کیا آواز لگا رہا ہے ، کیا بیچ رہا ہے ، خرید رہا ہے ، کس بھاؤ اور کیوں؟ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ) سے قرضہ بھی چاہیے اور آئی ایم ایف سے ڈرا اور ڈرایا بھی جا رہا ہے۔گنتی کی جائے تو سن اسی کے بعد سے یہ تیرہواں آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ ضیا تا عمران ہر حکومت نے اس پر تھو تھو بھی کیا اور پھر اس پروگرام کو مرتا کیا نہ کرتا مان بھی لیا۔
ہر حکومت نے یہ کہتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کیں کہ بس یہ آخری پروگرام ہے۔اس کے بعد کشکول توڑ دیا جائے گا۔جب بھی کوئی پاکستانی حکومت کہتی ہے کہ بس یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہماری حکومت بس آخری بار یہ قرضہ لے رہی ہے اگلی حکومت لے گی یا نہیں یہ وہ جانے یا آئی ایم ایف جانے ۔
جہاں تک کشکول توڑنے کی بات ہے تو تیرہ کشکول آخری بار توڑے جا چکے ہیں اب چودھواں بھی تین برس بعد آخری بار توڑ دیا جائے گا تاکہ پندرہویں کشکول کی آخری بار جگہ بن سکے۔
ویسے کوئی خیرات لینا ہم سے سیکھے۔عام طور پر خیرات لینے والا شخص مخیر کے آگے عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی پرسوز کہانی بیان کرتا ہے یا رونا روتا ہے کہ سامنے والے کا دل پسیج جائے اور وہ کشکول میں کچھ ڈال دے۔مگر ہم کچھ اس ادا سے خیرات مانگتے ہیں گویا سامنے والے کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں۔
’’ ابے او آئی ایم ایف تو خود کو کیا سمجھتا ہے ؟ تو نے پیسے نہ دیے تو ہم مرجائیں گے ؟ ارے لعنت بھیجتے ہیں تجھ پر اور تیرے قرضے پر۔وہ تو پچھلی حکومت اتنی خبیث نہ ہوتی تو میری حکومت تیرے منہ پر تھوکتی بھی نہیں۔لا اب ڈال دے کشکول میں جو پانچ سات ارب ڈالر ڈالنے ہیں۔زیادہ شرطیں ورطیں مت لگائیو۔ویسے بھی ہم آخری بار تیرے پاس آئے ہیں یوں خواہ مخواہ کی ڈکٹیشن بازی کر کے اپنی ذات مت دکھا۔
ابے سوچ کیا رہا ہے لا نہ پیسے۔ہاں ہاں واپس کر دیں گے۔بھاگے تھوڑی جا رہے ہیں تیرے پیسے لے کے۔دیکھنا آج سے ٹھیک تین برس بعد اپن اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا۔تیرے پیسے تیرے منہ پر ماریں گے۔ یوں ٹکر ٹکر دیکھتا کیا ہے ؟ اچھے دن نہ رہے تو برے بھی نہ رہیں گے۔آڑا وقت تو کسی پر بھی آ سکتا ہے۔بس وقت وقت کی بات ہے۔کبھی ہمارے پرکھوں کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہتا تھا۔آج کل برا ٹیم چل رہا ہے اور تجھ جیسے نودولتیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے ہیں۔اب زیادہ پنچایت مت کر پیسے نکال اور اسلام آباد واپس جانے کا کرایہ بھی دے۔حساب میں لکھ لینا ‘‘۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حزبِ اختلاف جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک خود بھی بہو تھی۔آج روایتی ساسوں کی طرح دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کر عمرانی حکومت کو کیوں طعنے دے رہی ہے کہ اس نے اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا۔ چھاج بولے تو بولے پر چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید۔لنگڑا لنگڑے کو لنگڑا کہہ رہا ہے ؟
کیا آئی ایم ایف نے آپ کی کنپٹی پر پستول رکھا جو آپ تیرہ بار اس کے پاس گئے۔یقیناً آئی ایم ایف کو گالی دینے میں آپ حق بجانب ہیں اگر اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کوئی بتائے گا کہ آئی ایم ایف کون سی ایسی شرائط لگا رہا ہے جو اس ملک کی معیشت کے لیے نہایت مضر ہیں۔کیا ٹیکس دھندگان کا دائرہ وسیع کرنے اور ٹیکس چوری روکنے کی شرط غلط ہے ؟ یا یہ غلط ہے کہ جو ادارے بیمار ہیں انھیں اربوں روپے سالانہ کے امدادی انجکشن لگانے کے باوجود افاقہ نہیں ہو رہا تو ایسے اداروں سے جان چھڑا لی جائے اور اسی پیسے سے کوئی ڈھنگ کا فائدہ مند کام کیا جائے۔کیا روپے کو مصنوعی تنفس کے وینٹی لیٹر پر ہی عمر بھر رکھنا ہے یا کھلی مارکیٹ میں چھوڑنا ہے تاکہ روپے کی قدر کا تعین خود بخود ہو سکے اور روپیہ اپنا دفاع خود کر سکے ؟ کیا غیر ضروری محکموں کو کم کرنے یا ضم کر کے انتظامی و غیر ترقیاتی اخراجات کو گھٹانے کی فرمائش کوئی نقصان دہ شرط ہے ؟
کیا دولت مندوں کو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹیکس چھوٹ دینے اور اس چھوٹ کو غریبوں پر بلاواسطہ ٹیکس لگا کر وصول کرنے کی حکمتِ عملی جاری رکھنا جائز ہے ؟ کیا معاشی پالیسی کو ملک کے مجموعی مفاد کے بجائے چند طبقات،اداروں اور لابیوں کے مفادات کا یرغمال بنا کر رکھنا مگر معاشی تنزلی کا واویلا بھی مچاتے رہنا صحیح الدماغی ہے ؟
کیا کوئی ایسا ادارہ ، بینک ، ملک یا دوست ہے جو آئی ایم ایف کی شرحِ سود سے بھی کم شرح سود پر قرض دے سکے ؟ آئی ایم ایف جو بھی کڑوی میٹھی شرائط عائد کرتا ہے وہ دستاویز پر لکھی جاتی ہیں۔کیا باقی ادارے ، بینک ، ملک یا دوست بھی تمام شرائط دستاویز پر لکھتے ہیں اور ان کی کوئی شرط زبانی یا خفیہ نہیں ہوتی ؟
قرض کو آمدنی تصور کرنا ، قرض یہ سوچ کر لینا کہ اگلی حکومت یا اگلی نسل جانے کہ کیسے واپس کرنا ہے ، قرض کی قسطیں بھی مزید قرض لے کر ادا کرنا۔مگر اپنے الللے تللے کسی قیمت پر ترک نہ کرنا اور ہر بار چیخنا کہ لٹ گئے مر گئے۔ جس لمحے اس نفسیات سے جان چھوٹے گی تب ہی قرض کی علت سے جان چھوٹے گی۔
کبھی ہیروئنچی کو دھیان سے تادیر دیکھا ہے؟ برے حال بونکے دہاڑے۔ کیسی کیسی کہانیاں سناتا ہے۔خدا رسول کی قسم بس آخری سگریٹ کے لیے پچاس روپے دے دو۔اس کے بعد پئیوں تو جو چور کی سزا وہ میری۔چار پانچ گھنٹے بعد جب پھر سے بدن اکڑنے لگتا ہے تو دوبارہ ہاتھ پھیل جاتا ہے۔بس باوا جی ایک اور سگریٹ کے لیے پیسے دے دو۔قرآن مجید کی قسم جو اس کے بعد کبھی ہیروئن کو ہاتھ لگاؤں تو تم میرا مرا ہوا منہ دیکھو۔اب دے بھی دو نا یار میں مر رہا ہوں۔نہیں پئیوں گا اس کے بعد۔بس آخری بار…
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ