جب آپ تازہ ہوا کے لیے کھڑکی کھولتے ہیں تو کچھ مکھیاں بھی اندر گھس آتی ہیں ( ڈینگ ژاؤ پنگ )۔
جب دو ریاستوں کے درمیان معاشی تعاون کی کھڑکی کھولتی ہے تو شہریوں کی آہر جاہر بھی شروع ہوتی ہے اور اس آمدورفتی ہجوم کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر اور مافیائیں بھی اپنا کاروبار اور بین الریاستی تعاون پھیلاتی ہیں۔ان پر نظر رکھنے اور اپنے شہریوں کے مفادات ، جان و مال ، عزت و آبرو کے تحفظ کے سلسلے میں متعلقہ ریاستی اداروں کی ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر جرائم پیشہ بین الاقوامی گروہوں پر بروقت گرفت نہ ہو تو پھر عام آدمی کے ذہن میں یہ ڈالنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ فلاں قوم ہی جعلساز ہے یا فلاں نسل ہی دھوکے باز ہے۔یوں نسل پرستی اور نفرت کا ایک نیا پنج شاخہ جنم لیتا ہے۔نوبت یہاں تک پہنچنے سے پہلے جرائم کی بلی پر روزِ اول ہی گرفت ضروری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ایف آئی اے نے چھ چینی باشندے پکڑے جو اے ٹی ایم میں سکمنگ آلات لگا کے بینک ڈیٹا چرانے اور کھاتے داروں کے پیسے غتربود کرنے میں ملوث تھے۔ایک نجی بینک نے اعتراف کیا کہ اس طریقے سے اس کے پانچ سو انسٹھ کھاتے داروں کے اکاؤنٹس میں لگ بھگ ایک کروڑ روپے کی نقب لگائی گئی۔اس واردات کا پتہ چلنے کے بعد بینکوں نے اے ٹی ایم مشینوں کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ تکنیکی اصلاحات بھی کیں۔
تازہ شاخسانہ چینی باشندوں سے پاکستانی لڑکیوں کی دھوکے سے شادی کے اسکینڈل کی صورت سامنے آیا ہے۔ ایف آئی اے نے اب تک اسلام آباد ، لاہور ، فیصل آباد ، سرگودھا ، منڈی بہاؤ الدین وغیرہ سے انتالیس ملزموں کو حراست میں لیا۔ان میں اکثریت چینی باشندوں کی ہے۔ چھ خواتین بھی برآمد ہوئی ہیں جنھیں مقامی جرائم پیشہ افراد کی مدد سے جھانسہ دے کر شادی کے ذریعے چین اسمگل کرنے کا منصوبہ تھا۔وہاں ان سے جنسی مشقت کرانے کا خدشہ تھا۔
ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق چینی جرائم پیشہ سنڈیکیٹ چین میں میرج بیوروز کے ذریعے شکار پھنساتے ہیں۔پھر شکار سے بھاری رقوم لے کر پاکستان لایا جاتا ہے۔یہاں غریب مسلمان اور کرسچن خاندانوں کو رقم کی ترغیب دے کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں ان چینیوں سے کرنے کا خواب دکھایا جاتا جو شادی کرنے کی خاطر بظاہر مذہب بدل کر مسلمان یا کرسچن ہو چکے ہیں۔کاغذ پر پورا کام ملی بھگت سے پکا پکا کیا جاتا ہے اور پھر دلہن پیا کے دیس سدھار جاتی ہے۔
ایف آئی اے کو بھی اس ریکٹ کی بھنک ایک پاکستانی لڑکی کے ذریعے ملی جسے چین پہنچا کر جنسی مشقت پر مجبور کیا گیا اور انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بیجنگ کے پاکستانی سفارتخانے کی مدد سے بازیاب کر کے واپس وطن لایا گیا اور اس کی نشاندہی پر ابتدائی مجرم پکڑے گئے۔ پھر یہ دائرہ بڑھتا چلا گیا۔
گزشتہ ماہ انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی پاکستانی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ چینی مجرم سنڈیکیٹ جو میانمار ، لاؤس ، کمبوڈیا ، ویتنام اور شمالی کوریا سے غریب لڑکیوں کو جھانسہ دے کر چین اسمگل کر رہے ہیں اب پاکستان میں بھی متحرک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ اسلام آباد کے چینی سفارتخانے نے بھی حالات کی سنگینی بھانپتے ہوئے ایک بیان میں یقین دلایا کہ چین سرکاری سطح پر غیرقانونی شادیوں کے پردے میں انسانی اسمگلنگ کے معاملے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف پاکستانی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تعاون کر رہا ہے بلکہ چین میں بھی غیر قانونی میرج بیوروز کے خلاف اقدامات کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ چین جس کی اپنی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔وہاں غیر ملکی خواتین کو شادی ، ملازمت یا دیگر جھانسوں کی مدد سے اسمگل کرنے والے سنڈیکیٹ کیوں پھل پھول رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ ’’ شادیوں کا بحران‘‘ بتایا جاتا ہے۔
ماؤزے تنگ کے دور میں چین کی آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے ’’ فی جوڑا ایک بچہ ’’ کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا گیا۔دو ہزار تیرہ میں اس پالیسی میں نرمی لائی گئی اور اب دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے۔اس پالیسی کے ہوتے ایک ضمنی بحران یہ پیدا ہوا کہ چونکہ چینی سماج بھی برصغیری سماج کی طرح لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کا عادی ہے۔ لہٰذا برصغیر کی طرح چین میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کو خاندانی سطح پر بالخصوص دیہی سماج میں روکنے یا حوصلہ شکنی کی کوشش کی جاتی ہے۔
سرکاری پالیسی اور رواج کے ملاپ سے چین میں جنسی تناسب بری طرح متاثر ہوا۔یعنی سو لڑکیوں کے مقابلے میں ایک سو پندرہ لڑکے پیدا ہوئے۔کئی علاقوں میں تو یہ شرح سو کے مقابلے میں ایک سو پچیس تک جا پہنچی۔
چنانچہ شادی کے شعبے میں طلب اور رسد کا بحران سنگین ہوتا گیا۔رواج کے مطابق شادی کے اخراجات لڑکے کا خاندان اٹھاتا ہے۔اور اچھے رشتوں پر ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ اور بعض حالتوں میں تین لاکھ یوآن تک بھی خرچ ہو جاتے ہیں ( دس ہزار سے تیس ہزار امریکی ڈالر )۔
کچھ عشرے پہلے تک چینی سماج میں بھی لڑکیوں کو بالغ ہوتے ہی بیاہ دیا جاتا تھا اور جوں جوں عمر بڑھتی جاتی توں توں اچھے رشتے آنے بھی کم ہو جاتے۔لیکن اب لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم اور روشن معاشی مستقبل کے مواقعے پہلے سے زیادہ وا ہو رہے ہیں۔چنانچہ لڑکیاں شادی سے پہلے معاشی خود مختاری اور پسند کے ہم پلہ رشتے کے بارے میں سوچنے لگی ہیں۔
اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں غیر ملکی لڑکیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جو مقامی شادیوں کی بہ نسبت سستی بھی پڑتی ہیں اور دور پردیس میں ہونے کے سبب سسرال یا سنڈیکیٹ کے رحم و کرم پر بھی رہتی ہے۔ضروری نہیں کہ ہر اسمگل شدہ لڑکی کا مستقبل تاریک ہی ہو۔مگر زیادہ تر کو جو خواب دکھائے جاتے ہیں تعبیر یکسر مختلف نکلتی ہے۔یہ صرف چین میں اسمگل ہونے والی خواتین کا ہی المیہ نہیں بلکہ ہر خطے میں دھوکے سے لے جائی جانے والی خواتین کا سانحہ ہے۔
ایف آئی اے ہر سال مقامی انسانی اسمگلروں کی ریڈ بک شائع کرتی ہے۔تازہ ریڈ بک کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں چوٹی کے انسانی اسمگلروں کی تعداد ایک سو بارہ ہے۔ان میں سے بارہ بیرونِ ملک فرار ہیں اور پہلی بار پانچ خواتین کے نام بھی اس ریڈ بک میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے اٹھاون پنجاب میں ، پندرہ سندھ میں ، تین خیبر پختون خوا اور دو بلوچستان سے ہیں۔
ریڈ بک میں راجدھانی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انسانی اسمگلروں کی تعداد اکتیس ہے۔یعنی پنجاب کو چھوڑ کے باقی تین صوبوں میں جتنے اہم اور مطلوب انسانی اسمگلر ہیں، ان سے ڈیڑھ گنا زیادہ انسانی اسمگلر صرف اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کوئی پرچون کا کام نہیں کہ آپ نے منڈی سے مال خریدا اور دکان پر لا کر بیچ دیا بلکہ ایسا کوئی بھی نیٹ ورک تمام متعلقہ افراد اور اداروں میں موجود کالی بھوری سفید بھیڑوں کو ملائے بغیر رواں نہیں رکھا جا سکتا۔یقیناً اگر یہ مافیا ایف آئی اے کے ہتھے چڑھنے کے بجائے صرف اس کی ریڈ بک میں ہی قید ہے تو سوچئے کہ اس مافیا کی پشت پر کس کس کا ہاتھ نہ ہوگا۔
کیا پاکستان میں دوست یا غیر دوست ممالک سے جتنے بھی مہمان آتے ہیں ملک میں داخلے کے بعد ان کی نقل و حرکت یا سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔شائد نہیں۔ورنہ یہ کالم اس طرح لکھنے کی نوبت نہ آتی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ