خدا خدا کر کے آئی ایم ایف نے سوا تین سال کے لئے کڑی شرائط کی پوٹلی میں باندھ کر چھ ارب ڈالر قرضہ تین جولائی کو منظور کیا ہی تھا کہ ٹھیک گیارہ روز بعد سرمایہ کاری سے متعلق عالمی بینک کے ایک ثالثی ٹریبونل نے ریکوڈک تانبے کے ذخیرے کی لیز کے تنازعے کا فیصلہ پاکستان کے خلاف دے دیا۔
اس فیصلے کے تحت اب پاکستان کو آسٹریلیا کی معدنیاتی کمپنی ٹیتھان کو 5.9 ارب ڈالر ہرجانہ دینا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ریکوڈک کے معدنی حقوق ٹیتھان کمپنی کو رہن رکھوانے پڑیں گے۔
ٹیتھان کو لیز دینے سے حکومتِ بلوچستان نے بغیر کوئی معقول وجہ بتائے نومبر 2011 میں انکار کیا تھا۔
تب تک ریکوڈک کے سروے اور فیزیبلٹی اور دیگر اخراجات کی مد میں ٹیتھان کمپنی لگ بھگ 220 ملین ڈالر خرچ کر چکی تھی۔چنانچہ کمپنی نے عالمی بینک کے ثالثی نظام سے رجوع کیا اور ٹریبونل نے سات برس کی سماعت کے بعد پاکستان کو لگ بھگ تقریباً چھ ارب ڈالر کا چالان تھما دیا۔
ریکوڈک میں چھ ارب ٹن خام تانبے اور چھ لاکھ ٹن سونے کے ذخائر کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یعنی اسے سونے کا پانچواں بڑا عالمی ذخیرہ بتایا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت تین ماہ پہلے تک کراچی کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے ایک بہت بڑے گیم چینجر ذخیرے کی دریافت کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ مگر آج ریکوڈک کا ثابت شدہ معدنی ذخیرہ بھی اس کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔
حکومت نے ریکوڈک کے ہرجانے کی ذمہ داری کے تعین کے لئے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت اور وہ جو کہتے ہیں کہ مردے کے بال مونڈنے سے اسکا وزن تو ہلکا نہ ہو گا اور وہ جو کہتے ہیں کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا اپنے ہی منہ پر جڑ لینا چاہئے۔
اور جب کمہار پے بس نہ چلے تو گدھے کے کان ہی اینٹھے جا سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کوئی اسمبلی میں سلیکٹڈ نہ کہہ دے، نواز شریف کو جیل کا کھانا دیا جائے کہ گھر کا، جن پر کرپشن کے مقدمے ہیں انھیں ٹی وی کوریج ملنا چاہئے کہ نہیں، تین ٹی وی چینلز کی نشریات پیمرا نے معطل کروائیں یا پیمرا کو عضوِ معطل بنانے والے فرشتوں نے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی پر بے نامی جائیداد کا ریفرنس ٹھیک ہے یا غلط، احتسابی جج ارشد ملک کی وڈیو پر یقین کیا جائے کہ بیانِ حلفی پر، خواجہ آصف نے بطور وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ کتنے قیمتی راز کسی بیرونی ایجنٹ کے حوالے کئے اس کی چھان بین بھی ضرور ہو گی۔
20 جولائی کو سابق فاٹا میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ دفعہ 144 کے باوجود کوئی بھی ’ملک دشمن امیدوار‘ جیتنے نہ پائے۔(سلیس اردو میں ملک دشمن امیدوار اسے کہتے ہیں جس کا تعلق یا ہمدردی پختون تحفظ موومنٹ سے ہو)۔
رانا ثنا اللہ اپنی ہیروئن سمگل کر رہا تھا یا دوسروں کی؟ کوئی این آر او مانگے یا نہ مانگے دونوں کی خیر نہیں۔ جیسے 50 برس پہلے کے پاکستان میں نہ کمیونسٹ کی خیر تھی نہ اینٹی کمیونسٹ کی۔ مفرور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو گرفتار کر کے ضرور پاکستان لایا جائے گا مگر پرویز مشرف نامی مفرور؟
بھلے چھ ارب ڈالر آئی ایم ایف سے آ جائیں اور دوسرے ہاتھ سے ریکوڈک کے ہرجانے میں لٹ جائیں مگر گیس، بجلی، تیل، چینی، آٹے پر سبسڈی ایک بھاری بوجھ ہے اور اس بوجھ کا یہ ملک اب متحمل نہیں ہو سکتا۔
ٹرینوں کے حادثات سے ریکوڈک ہرجانے تک سب کی ذمہ دار وہ دو سابق سویلین حکومتیں ہیں جو سنہ 2008 سے پہلے بہنے والی دودھ اور شہد کی نہریں بغیر ڈکار لئے پی گئیں۔ لہذا کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے (کرپٹ سے مراد ہر ایسا شخص جو اپوزیشن میں ہو)۔
ریکوڈک کا فیصلہ تو آ گیا۔ تین دن بعد کلبھوشن یادو کے بارے میں عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔ حق میں آیا تو موجودہ حکومت کی واہ واہ، خلاف آیا تو سابق حکومتوں کے نام پے دھاڑ دھاڑ۔
بچپن میں محاورہ سنا تھا ’کی پرواہ ملنگا نوں، بھاویں کتے پے جاون جنگاں نوں‘ (ملنگ کی ٹانگ سے کتے بھی لپٹ جائیں تو اسے کیا پرواہ)۔ جدید اردو میں اس کا مطلب ہے ’گھبرانا نہیں ہے‘۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)