تعداد تعدود کچھ نہیں ہوتی۔صحیح حکمتِ عملی، وسائل کا بروقت ذہانت آمیز مصرف، حریف کو غلطی پر نہ ٹوکنا، دایاں دکھا کر بایاں جڑ دینا ، حیرت کا بطور ہتھیار استعمال ، درست خام مال و افرادی قوت کا چابکدست انتخاب، وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے یا باپ کو گدھا بنا دینے کی صلاحیت ، زیادہ منافع کے انتظار کے بجائے تھوڑے منافع پر خود کو بھنا لینے اور خسارہ بھانپنے کی خو ، کسی نئے مرغے کو پھانسنے کے لیے پچھلے کو بلا ہچکچاہٹ ذبح کر دینے کا حوصلہ ، اپنے ہر گھٹیا عمل کی بڑھیا اور قائل کر دینے والی تاویلات کا ذخیرہ ، کچھ ایسا چکر چلانا کہ ایک بار ڈسا جانے والا بار بار کہے آ مجھے پھر سے ڈس لے۔ہر کارآمد شے کی قیمت کا درست تخمینہ لگانا اور خود کو اوقات سے زیادہ ظاہر کر کے مہنگا بیچنے کا فن جاننا وغیرہ وغیرہ۔اگر ان ہتھکنڈوں میں سے آپ کو نصف بلکہ نصف چھوڑئیے ایک چوتھائی بھی ازبر ہوں تو سوائے آسمانی طاقتوں کے کوئی آپ کو سیاست و حکمرانی کے میدان میں شکست نہیں دے سکتا۔
تعداد تعدود کچھ نہیں ہوتی۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ پورس کے ہاتھیوں نے کیوں دشمن کے بجائے اپنی ہی چار گنا سپاہ کو کچل دیا ورنہ تو سکندر کے بجائے ہم پورس کے ساتھ اعظم لگاتے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ رانا سانگا کی سوا لاکھ فوج کے مقابلے میں بابر کا لشکر بمشکل پچیس ہزار تھا ۔مگر حکمتِ عملی کے اعتبار سے بابر کا دماغ سوا لاکھ کا تھا۔کیا تم نے نہیں سنا کہ کلائیو کی سپاہ بمشکل چند سو سپاہیوں پر مشتمل تھی اور سراج الدولہ کا لشکر بیس ہزار سے زائد کا تھا۔ مگر کلائیو کے پاس نہ صرف موثر توپیں بلکہ سراج الدولہ کی لنکا کے ایک ایک تنکے کا احوال جاننے والا میر جعفر اور میر قاسم بھی تھا۔
جنگیں میرٹ پے تھوڑا لڑی جاتی ہیں۔ورنہ تو آخری فتح فتح علی ٹیپو کی ہوتی۔مگر ایک میر صادق اور ایک پورنیا اگر ٹوٹ کے ساتھ جائیں تو شطرنج کی بساط الٹ جاتی ہے۔
کوئی بھی مضبوط سے مضبوط قلعہ فتح کرنے کے لیے لمبی چوڑی سپاہ تھوڑی درکار ہوتی ہے۔بس ایک شخص چاہیے جو اندر سے باہر والوں کے لیے قلعے کا دروازہ کھول سکے۔ بس ایک حکیم احسن اللہ خان چاہیے جو نمک خوار بہادر شاہ ظفر کا ہو اور نمک حرامی میں جنرل ہڈسن کا دمساز ہو۔
سکندر سے جنرل نکلسن تک اس سرزمینِ ہندوستان نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔برہمن کتنے تھے ؟ چند ہزار۔ حکومت کے برس کی ؟ ساڑھے چار ہزار سال سے کر تو رہے ہیں۔عرب کتنے آئے تھے ؟ چند ہزار۔برصغیر پر حکومت کے برس کی؟ ڈھائی سو برس۔مغل کتنے تھے ؟ چند ہزار۔ حکومت کے برس کی ؟ پانچ سو برس۔
انگریز کتنے تھے ؟ گورنر جنرل سے لے کر عام پلٹنی سپاہی تک بھی گن لو تو پونے دو سو برس میں کبھی بھی ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ نہیں رہے۔اور نوے برس تک سواری کتنوں پر گانٹھی ؟ چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر۔ اور کہاں سے کہاں تک گانٹھی ؟ لنڈی کوتل سے تامل ناڈو تک اور بمبئی سے کلکتے تک۔کس کے بل پر گانٹھی ؟ نوے فیصد مقامی سپاہ اور ذہنی غلام زادوں کے بل پر۔
تعداد تعدود کچھ نہیں ہوتی ورنہ تو پاکستان بننے سے آج تک ہر صدر نہیں تو کم ازکم ہر وزیرِ اعظم بنگالی ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب تک بنگال ساتھ رہا تو کتنے وزیرِ اعظم بنگال سے آئے ؟ دو، تیسرا برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ اور کتنے گورنر جنرل بنگال سے آئے ، دو۔ اور ان میں سے بھی ایک وہ کہ جس کا حسب نسب میر جعفر سے جا ملتا ہے۔
اگر تعداد ہی سب کچھ ہوتی تو چھپن فیصد پاکستان چوالیس فیصد پاکستان سے کیسے جان چھڑا کر ایسے بھاگتا جیسے بلی ہاتھوں سے چھوٹے تو پیچھے مڑ کے دیکھے بنا یہ جا وہ جا۔کیا کسی نے کبھی آٹھ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سنا کہ اکثریت اقلیت سے اتنی تنگ آئی کہ بھاگ گئی۔ہم نے یہ معجزہ بھی اڑتالیس برس پہلے دنیا کو دکھا دیا۔
پرسوں سے سب ایسے بھولے بن رہے ہیں جیسے پہلی بار تعداد و اکثریت کا فلسفہ بے وقعت ہوا ہو۔اگر اوپر کی کوئی بھی مثال سمجھ میں نہیں آ رہی تو عیدِ قرباں کے لیے لگی بکرا پیڑی میں جا کر جانور ہی گن لو۔ہزارہا جانور فروخت کے لیے پیش ہیں۔بکرا پیڑی میں جو جو بھی ریوڑ جگلا رہا ہے ان میں سے ہر ایک کا مالک کوئی ایک ہی دماغ زادہ ہوتا ہے۔وہ بکرے کو کھلاتا پلاتا ضرور ہے مگر یہ تھوڑی پوچھتا ہے کہ تو بکے گا یا نہیں۔یہ مینڈیٹ تو صرف مالک کا ہے کہ جب جس قیمت پر بیچنا چاہے بیچ دے یا مناسب گاہک یا قیمت نہ ملے تو گھر لے جائے۔
ہم تو ایسے ہلکان ہو رہے ہیں گویا کسی نے عبادت گاہ میں سیند لگا دی ہو۔جانتے ہو نا کہ فلم انڈسٹری میں کیا ہوتا ہے ؟ ایک فلم ساز ہوتا ہے جو پیسہ لگاتا ہے،ایک ڈائریکٹر ہوتا ہے جو اسکرپٹ کے کرداروں کے اعتبار سے اداکاروں اور ایکسٹراز کی کاسٹنگ کرتا ہے۔یہ ڈائریکٹر کی پیشہ ورانہ صوابدید ہے کہ کس فلم میں کس کو ہیرو اور ہیروئن کاسٹ کرے اور کسے ولن یا پھر ایکسٹرا۔اور پھر اگلی فلم میں اگر اسکرپٹ کی ڈیمانڈ ہو تو پچھلی فلم کے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بھی تو بنایا جا سکتا ہے یا ڈائریکٹر چاہے تو بالکل ایک نئے لڑکے اور لڑکی کو بھی چانس دے سکتا ہے۔کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی اداکار نے یہ ضد کی ہو کہ چونکہ میں پچھلی فلم میں ہیرو کاسٹ ہوا تھا لہٰذا اب ہر فلم میں ہیرو ہی بنوں گا ورنہ اداکاری ہی نہیں کروں گا۔اچھے اداکار وہ ہوتے ہیں جنھیں ایکٹنگ سے مطلب ہوتا ہے بھلے انھیں کوئی سا بھی رول دے دیا جائے۔
بالکل اسی طرح پولٹیکل انڈسٹری میں بھی وہی اداکار کامیاب ہوتے ہیں جو ڈائریکٹر کے معاملات میں دخل در معقولات دیے بغیر ہر کردار تندہی اور سچائی کے ساتھ ادا کرنے پر آمادہ رہیں۔الا یہ کہ آپ دلیپ کمار ، امیتابھ بچن ، مارلن برانڈو یا رابرٹ ڈی نیرو یا سر انتھونی ہاپکنز ہوں کہ ڈائریکٹر آپ کے آگے مودب کھڑا رہے اور آپ فیصلہ کریں کہ میں اس فلم میں یہ کردار ادا کروں گا اور اتنا معاوضہ لوں گا۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک آپ مہم جوئی میں خود کو جھونک کر پوری کے چکر میں آدھی سے بھی نہ چلے جائیں۔ذرا پیچھے مڑ کے دیکھئے۔صرف ایک چانس کے منتظر فن کاروں اور نیم فن کاروں کی ایک طویل قطار ہے ہر طرح کے کردار ادا کرنے اور ہر طرح کی خدمت بجا لانے حتیٰ کہ اسپاٹ بوائے بننے کے لیے بھی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)