مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ سیتھین اشرافیہ میں گانجے کے پتوں کا اسٹیم باتھ بہت مقبول ہے۔ان پتوں کی بھاپ کے غسل کے بعد نیند بہت اچھی آتی ہے۔یہ تبصرہ چار سو چالیس قبلِ مسیح میں کیا گیا۔یعنی اب سے ڈھائی ہزار برس پہلے۔
گانجے کا اسٹیم باتھ رومنوں سے لے کر شمالی افریقہ کی مسلم اشرافیہ تک قوم در قوم خطہ در خطہ سفر کرتا رہا اور پھر پرتگالی اسے سولہویں صدی میں جنوبی امریکا کے مقبوضات تک لے گئے۔مگر یورپی تب تک ایشیا بالخصوص برصغیر سے خاصے ناواقف تھے لہذا اس سے بھی نابلد تھے کہ پتوں کو کس طرح چرس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اب کہیں جا کے مغرب نے اس شعبے میں مشرق کے مقام کو تسلیم کیا ہے۔
گزشتہ روز بی بی سی کی ویب سائٹ پر گانجے اور چرس کے استعمال کے اعتبار سے جرمن تحقیقی ادارے اے بی سی ڈی کی فہرست کی روشنی میں بتایا گیا کہ ٹاپ ٹین شہروں میں نیویارک کے بعد کراچی اور پھر دلی بالترتیب پہلے ، دوسرے تیسرے نمبر پر جب کہ قاہرہ اور ممبئی پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ فہرست میں لاس اینجلس ، لندن ، شکاگو ، ماسکو اور ٹورنٹو بھی شامل ہیں۔مگر ایمسٹرڈم ٹاپ ٹین فہرست میں نہیں۔ حالانکہ چرس کو قانوناً مخصوص ریستورانوں میں بیٹھ کر پینے کی اجازت ہے۔
امریکا ، برطانیہ کی طرح بھارت ، پاکستان اور مصر بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں گانجے اور چرس کی خرید و فروخت پر قانوناً پابندی ہے۔اس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ تینوں ممالک کے چار شہر ٹاپ ٹین گانجا چرس استعمالی فہرست میں شامل ہیں۔
لسٹ کے مطابق سالانہ اٹہتر میٹرک ٹن چرس نیویارک میں ، پینتالیس میٹرک ٹن کراچی میں ، اڑتیس میٹرک ٹن دلی میں ، سینتیس میٹرک ٹن لاس اینجلس ، تینتیس میٹرک ٹن قاہرہ اور ممبئی میں ، بتیس میٹرک ٹن لندن میں اور لگ بھگ چوبیس چوبیس میٹرک ٹن شکاگو ، ماسکو اور ٹورنٹو میں پی جاتی ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ سالِ گزشتہ سب سے زیادہ گانجا بالترتیب اسپین، پاکستان اور مراکش میں پکڑا گیا مگر گانجا استعمال کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں اسپین اور مراکش کا ذکر نہیں۔ممکن ہے کہ ان دو ممالک میں لوگ گانجے کے استعمال سے واقف نہ ہوں یا پھر دونوں ممالک محض بطور منشیاتی راہداری استعمال ہوتے ہیں۔ان کے برعکس پاکستان میں رپورٹ کے مطابق دو ہزار سولہ میں انسدادِ منشیات کے ادارے نے چار سو ستائیس من گانجا پکڑا۔لیکن پھر بھی ذوق و شوق کا یہ عالم ہے کہ پاکستان گانجے کا استعمال کرنے والے چوٹی کے ممالک میں شامل ہیں۔
کون سا نشہ برا سمجھا جاتا ہے ، کون سی اخلاقی برائی سنگین ہے اور کس برائی کو برائی تو سمجھا جاتا ہے مگر سنگین نہیں۔اس کا دار و مدار مقامی ثقافت و اقدار پر ہے۔مثلاً ہم جنس پرستی اور زنا کو مشرقِ وسطیٰ سمیت بیشتر ایشیائی معاشروں میں سنگین برائی بلکہ جرم سمجھا جاتا ہے۔البتہ جہاں تک قوانین کے نفاذ کا سوال ہے تو زنا کے جرم پر ان کا عملی اطلاق ہم جنس پرستی سے زیادہ ہے۔
ہم جنس پرستی کے بارے میں عملی سماجی رویہ نہ کہو نہ سنو والا ہے۔میڈیا میں بھی زیادہ تر خبریں زنا اور ریپ کے حوالے سے آتی ہیں جب کہ جبری ہم جنسانہ تعلقات کی تشہیر کی عمر چند گھنٹوں یا دنوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔حتیٰ کہ قصور وڈیو اسکینڈل کے لیول کی خبر سامنے آ جائے کہ جسے حجم کے اعتبار سے نظر انداز کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے۔
اسی طرح نشے کے بارے میں بھی سماجی رویہ ہی اس کی سنگینی کا تعین کرتا ہے۔مثلاً شراب نوشی کو زیادہ بڑی برائی سمجھا جاتا ہے جب کہ چرس ، گانجے ، افیون ، بھنگ وغیرہ کے استعمال کو سنگینی کا وہ درجہ حاصل نہیں حتیٰ کہ ایک بڑی مقدار پکڑ میں آ جائے۔یعنی اسمگلنگ استعمال سے بڑا جرم ہے۔
بہت دور کی بات نہیں۔جنرل ضیا سے قبل ہر چھوٹے بڑے قصبے میں ٹھیکہ افیون و بھنگ کی لائسنس یافتہ دکانیں تھیں۔ شہر میں ہر کوئی جانتا تھا کہ کون استعمال کرتا ہے کون نہیں مگر یہ کوئی خبر نہ تھی۔تب تک ہیروئن کا نام کسی نے نہ سنا تھا۔
قبائلی علاقہ جسے ہم علاقہِ غیر کے نام سے جانتے تھے۔وہاں چرس ، افیون اور گانجے کی خرید و فروخت معمول کی بات تھی۔مجھے یاد ہے کہ میں ایک اسکول ٹرپ کے ساتھ لنڈی کوتل گیا تو وہاں ایک دکان کے باہر بڑے سے چھابے میں چرس کے چوکور ٹکڑے پولیتھین میں پیک کر کے رکھے گئے تھے۔تین چار ہپی گورے گوریاں وہیں بنچ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سوٹے ( کش ) لگا رہے تھے۔دکان کے بورڈ پر لکھا تھا ’’ مسعود بنگش اسٹور ( یہاں پر خالص چرس اور پین پسٹل وغیرہ بارعایت ملتا ہے ) ‘‘۔
مجھے غلام جیلانی صاحب عرف ٹچے حضور بھی یاد ہیں۔وہ طارق روڈ کے پیچھے کی گلیوں میں رہتے تھے۔ آپ سرگودھاکے زمیندار تھے مگر بیشتر زندگی کراچی میں گذاری۔ زمینوں سے اناج اور پیسے آ جاتے اور سال بھر کا کام سیدھا ہو جاتا۔ٹچے حضور کا اپنا طرزِ حیات تھا۔ جب بھی دیکھا خاکی نیکر اور سفید بنیان میں ہی دیکھا۔ مشہور تھا کہ جتنا آپ کا وزن ہے اس سے دگنی چرس اب تک پی چکے ہیں۔
ٹچے حضور کے پاس فلسفے کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔ہم جیسے یونیورسٹی کے لمڈوں سے مل کر بہت خوش ہوتے ، خطرناک مباحث میں الجھا لیتے اور ہم کنگلوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ رکھتے۔ان کے ڈھائی کمروں کے فلیٹ میں کتابیں اور چرس کا دھواں ہی پایا۔
ریڈیو ، ٹی وی اور اخبار سے ٹچے حضور کو کوئی علاقہ نہ تھا۔چنانچہ استغنا کی اس منزل پر تھے کہ جب ایک دن ہم میں سے کسی نے باتوں باتوں میں کہا کہ ضیا نے بھٹو کو نواب محمد احمد ِخان قتل کیس میں گرفتار کر لیا ہے تو آپ نے پوچھا یہ ضیا کون ہے ؟ بتایا گیا کہ جس نے بھٹو کو معزول کر کے اقتدار سنبھالا ہے۔فرمایا اچھا۔۔اور پھر ڈھائی منٹ کی خاموشی کے بعد گویا ہوئے ’’ تو اس کا مطلب ہے یحیی خان چلا گیا ‘‘۔
جانے کیا بات ہو رہی تھی اور میں ٹچے حضور کی یاد کے نشے میں کہاں نکل لیا۔
ہاں تو جیسے ہی ضیا دور میں مذہبی اقدار کی جانب زیادہ شدت سے مراجعت کی ریاستی پالیسی عمل میں آئی اور مغربی ممالک نے ہیروئن کی اسمگلنگ کا شور مچایا تو اس کے تدارک کے زور میں وہ روایتی نشے اور ان کا قانونی ترسیلی نیٹ ورک بھی زد میں آ گیا جو صدیوں سے برصغیر کے کھلے پن کے کلچر کا جزو سمجھا جاتا تھا۔
قانون کے سختی سے نفاذ نے بس اتنا کیا کہ جو کام بالائے زمین ہوتا تھا وہ زیرِ زمین چلا گیا۔نشہ کرنے والوں کی تعداد کم تو خیر کیا ہوتی اور بڑھ گئی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا بظاہر ایک خفیہ نظام وجود میں آ گیا۔لاگت میں بلیک مارکیٹنگ کے سبب اضافہ ہوتا چلا گیا اور اسی تناسب سے ملاوٹ کے سبب معیار گرتا چلا گیا۔
اے بی سی ڈی چرس رپورٹ لکھنے والوں کو کراچی سے باہر بھی جانا چاہیے تھا۔تاکہ انھیں اندازہ ہوتا کہ کراچی کے باہر کتنی بڑی دنیا ہے اور اس دنیا میں نشے کا کیا مقام ہے۔ اب کی بار آئیں تو ہم سے رابطہ کریں۔ ہو سکا تو ہم انھیں سیہون لے کر چلیں گے تاکہ قلندر کے مزار کے پچھواڑے میں بنی ملنگوں کی چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں بیٹھ کر وہ صدیوں پرانی نشیلی روایت کا کچھ تو مشاہداتی یا عملی آنند لے سکیں۔
قلندری ملنگوں کا کہنا ہے کہ جس نے بھری سلفی کو لبوں سے لگا کر الٹا سانس کھینچتے ہوئے سلفی کے مال میں سے شعلہ نہیں نکالا اسے نشے پر نہ بولنے کا حق ہے نہ لکھنے کا۔لہذا ان ملنگوں کے قول کی روشنی میں جرمن ادارے اے بی سی ڈی کی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھی گئی نامکمل رپورٹ ڈسمس کی جاتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)