جنوبی پنجاب سے گزرنے والی قومی شاہراہ کا یہ سیکشن جہاں آج پٹرول کا ٹینکر الٹا اس سیکشن پر پنجاب اور خیبر پختونخوا سے کراچی و بلوچستان آنے جانے والی بھاری ٹریفک چوبیس گھنٹے رواں رہتی ہے۔ رات کو یہ ٹریفک فل بیم ہیڈ لائٹس کے ساتھ چلتی ہے اور سامنے سے آنے والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔
گنے کی کٹائی اور کرشنگ سیزن میں بہاولپور تا رحیم یار خان قومی شاہراہ کے ہر دسویں کلو میٹر پر قائم شوگر مل کے سبب ہائی وے پر تاحدِ نگاہ دورویہ ٹریکٹر ٹرالیوں کا راج ہوتا ہے اور ہر ٹرالی پر گنجائش سے کم ازکم تین گنا گنا لدا ہوتا ہے۔ ان ٹرالیوں کی نہ ہیڈ لائٹس کام کرتی ہیں نہ بیک لائٹس۔ لہٰذا گنے کے کرشنگ سیزن میں اس سیکشن پر اندھی ٹریکٹر ٹرالیوں کی چپیٹ میں جتنے راہگیر یا مسافر آتے ہیں ان کی مجموعی تعداد کم وبیش اتنی ہی بنتی ہے جتنی آج کے حادثے میں جھلسنے والوں کی ہے۔
ہاں مرنے والوں کی اکثریت غریب، ان پڑھ اور محروم لوگوں کی تھی جو شاید تماشا دیکھنے آ گئے تھے یا پھر چند لیٹر پٹرول لوٹ کے تھوڑے بہت پیسے بچانا یا کمانا چاہتے تھے۔ مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود یہ ویسے ہی لوگ تھے جیسے اسلام آباد لاہور اور کراچی سمیت کہیں کے بھی پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔
کسی بھی شہر یا قصبے میں بڑا حادثہ چھوڑ، کبھی دو موٹر سائیکلوں کی ٹکر کے بعد کا منظر دیکھیے۔ اچانک ایک ہجوم اکٹھا ہو جائے گا۔ اس میں سے بس دو چار لوگ ہی زخمی یا گرنے والے کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ باقی خاموش تماشائی یا پھر مدد کے بجائے مفت کا مشورہ دینے والے ہوتے ہیں۔ اس بے مصرف ہجوم کے سبب ٹریفک جام شروع ہو جاتا ہے۔ زخمی وہیں پڑے ہیں مگر ہر آتی جاتی کار سیلفی لینے کے چکر میں ان کے قریب سے اتنی آہستہ سے گزرے گی گویا زندگی میں پہلی بار موٹر سائیکل کا حادثہ دیکھا ہو۔
تو احمد پور شرقیہ سے گزرنے والی نیشنل ہائی وے کے اردگرد واقع سات آٹھ بستیوں کے لوگوں کو بھی جب پتہ چلا ہوگا کہ ایک آئل ٹینکر کہ جس میں ہزاروں لیٹر پٹرول بھرا ہے الٹ گیا ہے تو وہ دوڑ پڑے ہوں گے۔
بے رنگی و دیہی یکسانیت سے بور بچوں کے لیے یہ منظر کسی ایڈونچر سے کم نہ ہوگا اور وہ ٹینکر کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو کر تماشا چاہ رہے ہوں گے۔ پیچھے پیچھے ان بچوں کی مائیں، خالائیں اور بڑی بہنیں بھی دوڑی دوڑی آئی ہوں گی۔ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کنستر، واٹر کولر، دیگچیاں، بالٹیاں اور جیری کین بھی نکل پڑے۔ بیسیوں موٹر سائیکلیں بھی بہتی گنگا سے ٹنکی فل کرنے کا خواب لیے ٹینکر کی طرف لپکیں۔ سنا ہے چھ کاریں بھی آگ سے چرمر ہو گئیں۔ شاید یہ بڑے شہروں کے وہ مسافر ہوں جنہوں نے عید کے سفر کی یکسانیت اور تکان سے بور ہونے کے سبب کچھ منٹ کے لیے رک کر یہ حادثاتی تماشا دیکھنا مناسب سمجھا ہو۔
یہ سب مرنے اور بچنے والے ہم ہی تو ہیں۔ جنہیں نہ کل پر یقین نہ آج پر نہ آنے والے کل پر نہ کسی پر نہ کسی کے وعدے پر۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی پر عمل پیرا ہم لوگ کہ جن کے سامنے بھلے شادی یا مرگ کا کھانا چنا ہو ٹرین یا بس میں سوار ہونا ہو امدادی ٹرک سے سامان چھیننے کا مرحلہ ہو کہ فضا سے گرائی جانے والی خوراک تک پہنچنے کی دوڑ کہ کٹی پتنگ لوٹنے کی آرزو۔ ایسے تمام مرحلوں اور معاملات میں ہم سب ایک ہیں۔ جہاں جس کا ہاتھ پڑ جائے۔ کسی کی پہنچ صرف الٹے ٹینکر کے تیل تک ہے تو کسی کی خزانے اور جیب تک۔ مفت میں سانپ بھی ہاتھ آ جائے تو سبحان اللہ۔
ہاں ان جاہلوں کو پتہ ہونا چاہیےتھا کہ یہ آئل ٹینکر نہیں موت کا پھندہ ہے۔ سنا ہے اس ٹینکر کے ڈرائیور نے بھی ہجوم کو روکنے کی کوشش کی سنا ہے موٹر وے پولیس نے بھی سمجھانے اور دھکیلنے کی کوشش کی۔ مگر جو ٹریفک کی لال بتی پر نہ رکے وہ الٹے ٹینکر کو دیکھ کے کیسے رکے گا؟ کیا صحافی اور سیاستداں جائے دھماکہ یا حادثہ کی حفاظت کے لیے چاروں طرف لگائی پیلی پٹی تک آ کے رک جاتے ہیں؟
اس علاقے کے بھاری بھرکم رہنما شاہ محمود قریشی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ہر ضلعی ہسپتال میں جلے ہوئے لوگوں کی فوری مدد کے لیے آخر برنز وارڈ کیوں نہیں؟ یہ بات شاہ صاحب کو آج ہی کیوں یاد آئی؟ کیا وہ آج ہی سیاست میں آئے ہیں؟
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے (غالب)
(بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ