دسمبر اسرائیل کے لیے منحوس مہینہ ہے۔ٹھیک ایک برس پہلے تئیس دسمبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے صفر کے مقابلے میں چودہ ووٹوں سے قرار داد نمبر تئیس سو چونتیس منظور کی جس میں بنا الفاظ چبائے کہا گیا کہ جون انیس سو سڑسٹھ سے اب تک اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں بشمول مشرقی یروشلم میں جو یہودی آباد کار بستیاں قائم کی ہیں وہ غیرقانونی اور دو ریاستی حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ لہذا اسرائیل فوری طور پر مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی تعمیراتی کام بند کر دے۔
سلامتی کونسل میں یہ قرار داد اس لیے منظور ہو پائی کہ امریکا نے اسے ویٹو نہیں کیا۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا (امریکا پچاس برس کے دوران اسرائیل کے حق میں تینتالیس بار ویٹو استعمال کر چکا ہے)۔ بالکل اسی متن کی قرار داد جب دو ہزار گیارہ میں پیش کی گئی تو امریکا نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔مگر تئیس دسمبر کو امریکی مندوب سمانتھا فوکس نے نہ صرف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدارانہ رویہ اپنایا بلکہ یہ بھی کہا کہ آباد کار بستیوں کی تعمیر اور دو ریاستی حل کی بیک وقت حمائیت امریکا کے لیے ممکن نہیں۔
یہ وہ سلیم شاہی جوتا تھا جو بارک اوباما جاتے جاتے نیتن یاہو کے منہ پر جڑ گئے۔مگر ٹرمپ نے اس ووٹ کے بعد ٹویٹ کیا ’’اسرائیل پریشان نہ ہو، بیس جنوری (نئی صدارت) کے بعد حالات ایسے نہیں رہیں گے‘‘ ۔اور پھر حالات واقعی ایسے نہیں رہے۔
اس اسرائیلی ہزیمت کے ٹھیک ایک برس بعد چھ روز پہلے اٹھارہ دسمبر کو سلامتی کونسل میں قریبی امریکی اتحادی مصر نے یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت تسلیم کرنے کے ٹرمپیانہ اعلان کو غیر قانونی ڈکلئیرکرنے کے لیے سلامتی کونسل میں قرار داد پیش کی۔اس کے حق میں بھی چودہ ووٹ آئے مگر امریکی ویٹو کے سبب قرارداد منظور نہ ہو سکی۔پر یہ طے ہوگیا کہ ٹرمپ کا امریکا سیکیورٹی کونسل میں ’’الف تنہا‘‘ کھڑا ہے۔
دوسرا جوتا تین روز بعد (اکیس دسمبر) جنرل اسمبلی نے کھینچ مارا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک سو اٹھائیس ارکان نے یروشلم کی حیثیت کو اقوامِ متحدہ کے طے کردہ دائرہ کار سے بالا بالا بدلنے کی کسی بھی کوشش یا اعلان کو حرام قرار دے دیا۔صرف نو ووٹ قرار داد کے خلاف آئے۔اسرائیل اور امریکا کے علاوہ گوئٹے مالا، ہنڈوراس، ٹوگو، مائکرونیشیا، نوارو، پلاؤ ، مارشل آئی لینڈ (آپ نے ان میں سے کتنے ممالک کے نام اب سے پہلے سنے ہیں)۔
مگر مجھے نو مخالف ووٹوں کا اتنا دکھ نہیں جتنا پینتیس رکن ممالک کی جانب سے رائے شماری میں غیر جانبدار رہنے کا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کینیڈا پر ہے جس کی موجودہ خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔جواں سال کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو سے ایسی امید نہ تھی۔دیگر غیر حاضر قابلِ ذکر ممالک میں امریکا کا جنوبی ہمسائیہ میکسیکو،ارجنٹینا، پولینڈ، فلپینز، آسٹریلیا، یوکرین، یوگنڈا اور بوسنیا ہرزے گوینا شامل ہیں (آخری دونوں ممالک اسلامی کانفرنس کے رکن بھی ہیں)۔ جنوبی ایشیا سے واحد ملک بھوٹان غیر حاضر رہا۔
قرارداد کے حق میں سلامتی کونسل کے چار مستقل ارکان (چین، روس، فرانس، برطانیہ) یورپی یونین کے اٹھائیس میں سے بائیس رکن ممالک، عرب لیگ کے تمام ارکان اور اسلامی سربراہ کانفرنس کے ننانوے فیصد ارکان نے ووٹ دیا۔
جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس یوں بھی یاد رہے گا کہ اسرائیلی قیادت مکمل باؤلی ہو گئی۔سفارتی امور کے نائب وزیر نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اب اقوامِ متحدہ پر لعنت بھیج دینی چاہیے۔وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کو جھوٹ کا گڑھ قرار دیا۔اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کو ووٹنگ سے پہلے ہی وہ کٹھ پتلیاں قرار دیا جن کی ڈور فلسطینی آقا ہلا رہے ہیں۔ یہ ممالک وہ اندھے ہیں جنھیں نہ حقائق نظر آتے ہیں اور نہ ہی سچائی۔
ٹرمپ اور اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے سفارتی زبان کو خدا حافظ کہتے ہوئے ہر طرح کی دھمکی دے ڈالی۔مثلاً اقوامِ متحدہ ہمیشہ سے اسرائیل دشمن ہے۔امریکا ان ممالک کو ہمیشہ یاد رکھے گا جنہوں نے آج امریکی وقار کو ٹھیس پہنچائی۔امریکا ان ممالک کو دی جانے والی امداد پر نظرِ ثانی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔
ٹرمپ انتظامیہ چونکہ اس بات کے لیے مشہور ہے کہ جو کہتی ہے وہ کرتی ہے۔لہذا امید ہے کہ ووٹ دینے والے ممالک کی امداد پر فوراً نظرثانی ہو گی کیونکہ خود ٹرمپ بھی اپنے ٹویٹ میں کہہ چکے ہیں کہ ’’انھیں ووٹ دے لینے دیں۔فائدہ ہمارا ہی ہے۔ہمارے اربوں ڈالر بچیں گے‘‘۔ نکی ہیلی کے بقول ’’میں نے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ووٹ دینے والے ممالک کی فہرست تیار کر لی ہے‘‘۔
اگر یہ فہرست بن چکی ہے تو اس میں قاعدے سے سب سے پہلا نام انڈیا کا ہونا چاہیے جس نے نہ صرف قرار داد کے حق میں ووٹ دیا بلکہ انڈیا نے ووٹ دیتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ وہ نمرتا رندھاوا عرف نکی ہیلی ولد اجیت سنگھ رندھاوا و راج کور رندھاوا ساکن امرتسر کا آبائی وطن بھی ہے۔
نکی نمرتا کا نک نیم ہے (یعنی چھوٹی)۔نکی جب ریاست جنوبی کیرولائنا کی گورنر تھیں تو انھوں نے ریاست میں اسرائیل مخالف فنڈ جمع کرنے کی مہم پر پابندی بھی لگائی۔اگرچہ وہ خود ایک تارکِ وطن کی اولاد ہیں مگر اس نظریے کی پرزور حامی ہیں کہ امریکا میں نہ صرف تارکینِ وطن کے داخلے کے قوانین اور سخت ہونے چاہیں بلکہ نئے آنے والوں کو ضروری دستاویزات ہمہ وقت اپنی جیب میں رکھنی چاہئیں۔ان خیالات کے ہوتے نکی کیسے ٹرمپ کی آنکھ کا تارہ نہ بنتیں۔اقوامِ متحدہ میں بطور مندوب تو انھوں نے خیر وہ حقِ نمک ادا کیا جو اوباما انتظامیہ کی سفیر سمانتھا فوکس بھی نہ ادا کر پائیں۔
نکی نے جو فہرست بنائی ہے اس کے تحت جن ٹاپ ٹین ممالک کی امداد فوراً معطل کی جانی چاہیے ان میں سوائے اسرائیل (سوا تین ارب ڈالر سالانہ) سب نے ہی امریکا کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔جیسے افغانستان (سالانہ امداد چار ارب اٹھتر کروڑ ڈالر)، مصر (ڈیڑھ ارب ڈالر)، عراق (سوا ارب ڈالر)، اردن (ایک ارب ڈالر)، پاکستان (سات سو بیالیس ملین ڈالر) کینیا (چھ سو چھبیس ملین ڈالر)، تنزانیہ اور ایتھوپیا۔
جب ٹرمپ نے سات ماہ پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تو خلیجی ریاستوں سے اربوں ڈالر مالیت اسلحے کے بھاری سودے بھی کیے۔کچھ ناشکرے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ جیسے ہی میاں ٹرمپ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے ریاض اور ابوظہبی سے اعلان ہوگا کہ ہم بھی امریکی اسلحے کے سودے احتجاجاً معطل کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس اقدام سے ٹرمپ کے ہوش ذرا سے ٹھکانے آجائیں۔
مگر یہ ناشکرے بھول گئے کہ نہ تو یہ انیس سو تہتر ہے، نہ امریکا کو بہت زیادہ خلیجی تیل کی اب ضرورت ہے، نہ ٹرمپ نکسن ہے اور نہ ہی شاہ سلیمان شاہ فیصل ہیں۔بدلے حالات میں یہی بہت بڑی بات ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں ایک ساتھ ووٹ دے دیا۔یہ روشنی کی واحد کرن ہے جو اندھی گلی میں کھڑے فلسطینی فی الحال محسوس کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد جو کرنا ہے فلسطینوں کو ہی کرنا ہے۔
بین الاقوامی سیاست اگر اخلاقیات کے تابع ہوتی تو اقوامِ متحدہ میں ایک ہی ہفتے میں دو عبرت ناک ذلتوں کے بعد ٹرمپ استعفی پیش کرچکا ہوتا۔مگر سیاست میں گینڈے جیسی موٹی کھال ہی بطور پہناوا چل سکتی ہے۔
جب تیرہ مئی انیس سو پینتیس کو کریملن میں فرانسیسی وزیرِ خارجہ پیرے لوال نے اسٹالن سے ملاقات میں کہا اگر روسی کیتھولکس پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے تو نازیوں کے خلاف پوپ کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔اسٹالن نے پلٹ کر پوچھا پوپ؟ کتنے ڈویڑن فوج ہے اس پوپ کے پاس؟