بچپن سے آج تک میں نے جتنے بھی خاص و عام لوگوں کو تحریکِ پاکستان یا بعد از قیامِ پاکستان کے موضوع پر سنا ان میں سے ننانوے فیصد درمیان یا آخر میں ضرور کہتے ہیں کاش بہتر سالہ قائدِ اعظم چند برس اور زندہ رہتے تو شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تقابل میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ آزادی کے ڈیڑھ برس بعد بھارت گاندھی جی کی شہادت کا دھچکا یوں برداشت کر گیا کہ سردار پٹیل اور نہرو زندہ تھے۔ اور انیس سو پچاس میں پٹیل کے رخصت ہونے کے بعد بھی نہرو اگلے چودہ برس تک حیات رہے۔ یوں جو بھارت تشکیل پایا اسے نہرو آئینی، علاقائی اور بین الاقوامی استحکام دینے میں کامیاب رہے۔
چلیے بات کر لیتے ہیں کہ جناح صاحب کی وفات گیارہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کے بجائے گیارہ ستمبر انیس سو اڑسٹھ کو ہوتی تو کیا ہوتا اور کیا نہ ہوتا۔ ۔ ۔
کیا مسئلہِ کشمیر حل ہو جاتا؟
جناح صاحب ایک لیگل مائنڈ تھے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بیک ڈور چینلز پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا وہ کشمیر میں خفیہ طور پر قبائلی لشکر کبھی نہ بھجواتے جس کے نتیجے میں صورتِ حال تیزی سے بگڑی اور مہاراجہ کشمیر نے بھارت اور پاکستان کے ساتھ کیا گیا اسٹینڈ اسٹل معاہدہ طاق پر رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اڑسٹھ برس بعد کئی ماخذوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ قبائلیوں کو غیر اعلانیہ طور پر بھیجنے کے فیصلے کا علم وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، چیف منسٹر صوبہ سرحد خان عبدالقیوم خان اور میجر جنرل اکبر خان کو تو تھا مگر گورنر جنرل کو بے خبر رکھا گیا۔ ( گویا یہ پاکستان کا پہلا ’’ کرگل کرائسس‘‘ تھا)۔
اگر گورنر جنرل کو واقعی اس اسکیم کا علم ہوتا تو وہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے الحاق کے اعلان پر بھونچکا ہو کر بری فوج کے سربراہ جنرل فرینک میسروی کو باقاعدہ فوجی دستے کشمیر بھیجنے کا حکم نہ دیتے اور میسروی کا یہ جواب نہ سننا پڑتا کہ بھارت اور پاکستان کی مشترکہ ڈومینین کمان کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ آخن لک کے مشورے کے بغیر وہ حکم بجا لانے سے قاصر ہیں۔
چونکہ جناح صاحب اول تا آخر لیگل مائنڈ تھے لہذا خون کے گھونٹ بھرنے کے باوجود انھوں نے جنرل میسروی کو چلتا نہیں کیا۔ حتی کہ جنرل میسروی خود جنوری انیس سو اڑتالیس میں سبکدوش ہو گئے۔ تاہم اس بحران کے نتیجے میں جناح صاحب اور لیاقت علی خان کے تعلقات میں جو بال آیا وہ آخر تک رہا۔
چونکہ پاکستان کے بجائے بھارت یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے گیا تھا اور چونکہ بھارت کو اندازہ تھا کہ الحاق کا فیصلہ مشکوک حالات میں ہوا ہے لہذا بھارت کے وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ پنڈت نہرو کو وعدہ کرنا پڑا کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ رائے شماری سے ہو گا۔ اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس ضمن میں جناح صاحب کی زندگی میں دو قرار دادیں منظور کیں (اپریل اور اگست انیس سو اڑتالیس)۔
حیرت ہے کہ جناح۔ لیاقت حکومت نے جنگ بندی و رائے شماری سے متعلق یہ دونوں بنیادی قرار دادیں اقوامِ متحدہ کے چیپٹر سکس کے بجائے چیپٹر سیون کے تحت منظور کروانے کے لیے زور کیوں نہیں لگایا۔ جب کہ یہ بات دونوں بیرسٹرز کے علم میں تھی کہ اقوامِ متحدہ کے چیپٹر سکس کے تحت منظور ہونے والی قرار داد کی نوعیت محض سفارشی ہوتی ہے اور چیپٹر سیون کے تحت منظور ہونے والی قرار داد پر اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان کو لازماً عمل کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ بنیادی نقص ہے جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کو چوہے بلی کا کھیل بنا کے رکھ دیا۔
پھر بھی جناح صاحب اگلے بیس برس زندہ رہتے تو اپنا مقدمہ بین القوامی فورمز پر بہتر دلائل کے ساتھ لڑتے اور عین ممکن ہے کہ وہ سرد جنگ میں اتحادیوں کی متلاشی مغربی طاقتوں کی مدد سے سلامتی کونسل سے چیپٹر سیون کے تحت بھی کوئی قرار داد منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتے۔
مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے نہرو اور جناح زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی نفسیاتی طاقت و کمزوریوں سے پرانے واقف تھے اور دونوں کی تربیت اس مشترکہ سیاسی ماحول میں ہوئی جس میں لاکھ دشمنی کے باوجود آنکھ میں وضع داری اور مشترکہ ماضی کی یاد جھلملاتی رہتی ہے اور بعض اوقات یہ میراث ذاتی سطح پر ٹیڑھے سے ٹیڑھا مسئلہ بھی حل کروا لیتی ہے (یہ لگژری نہرو کی وفات تک پے درپے آنے والے دو پاکستانی گورنر جنرلوں، دو صدور اور سات وزرائے اعظم کو حاصل نہ تھی۔ نہ نہرو انھیں جانتے تھے اور نہ وہ نہرو کو۔ اور نہرو یہ بات اچھی طرح جانتے تھے)۔
کیا جناح صاحب آئین بنانے میں کامیاب ہو جاتے؟
یقیناً کامیاب ہو جاتے اور ستر فیصد امکان تھا کہ مشرقی و مغربی پاکستان کی قومیتی نزاکتوں کو دیکھتے ہوئے یہ آئین بھی ’’ ون یونٹ ’’ اسکیم کے تحت بنتا لیکن ریاست کی جغرافیائی مجبوریوں کے پیشِ نظر یہ فیڈرل کے بجائے کنفیڈرل آئین ہوتاجس کے تحت دو صوبائی اسمبلیاں (مشرقی و مغربی پاکستان) ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر تشکیل پاتیں اور پھر یہ دونوں اسمبلیاں ایک کنفیڈرل نیشنل اسمبلی کے لیے الیکٹورل کالج کا کام کرتیں۔
(مغربی پاکستان کا ون یونٹ چار ذیلی یونٹوں کا مجموعہ ہوتا اور ان ذیلی یونٹوں کو آبادی و وسائل کے تناسب سے مغربی پاکستان اسمبلی میں نشستیں الاٹ ہوتیں تا کہ ذیلی یونٹوں کی سطح پر احساسِ محرومی کا تدارک ہو سکے)۔
عین ممکن ہے جناح صاحب کی رہنمائی میں جو آئین بنتا اس میں انیس سو چالیس کی قرار دادِ پاکستان اور انیس سو چھیالیس کے کیبنٹ مشن پلان کے بنیادی نکات سموئے ہوئے ہوتے۔ دفاع، خارجہ تعلقات، کرنسی کنفیڈرل حکومت کی ذمے داری ہوتی اور باقی محکمے یونٹوں کے پاس ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر مضبوط مرکز کے حامی جناح صاحب ایسا مرکز گریز آئین آخر کیوں بناتے؟ جناح صاحب کا انیس سو چار تا سینتالیس تک کا سیاسی سفر کسی ضدی آدمی کا نہیں بلکہ ایک لچکدار عملیت پسند سیاست داں کا سفر ہے۔ لہذا جناح صاحب کنفیڈرل آئین یوں بناتے کہ انھوں نے تقسیم سے پہلے کیبنٹ مشن پلان کے کنفیڈرل گروپ فارمولے کو صرف اس وجہ سے منظور کیا تھا کہ یہ پلان متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت کے سیاسی و جغرافیائی حقوق کا ٹھوس تحفظ کرتا تھا۔ اگر کیبنٹ مشن پلان قرار دادِ پاکستان کی بنیادی روح سے متصادم ہوتا تو جناح صاحب اسے کیوں منظور کرتے؟ (رہا تشکیلِ پاکستان کا معاملہ تو اب تو جسونت سنگھ اور دلیپ ہیرو جیسے جدید بھارتی مورخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان جناح کی ضد کا نہیں نہرو اور پٹیل کی ابن الوقتی اور دوہرے موقف کا نتیجہ ہے۔ )
ایسا کنفیڈرل آئین بنانے کی دوسری وجہ یہ ہوتی کہ پاکستان کی قومی زبان کے سوال پر جناح صاحب مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی بے چینی دیکھ چکے تھے۔ لہذا اس طرح کی بیماریوں کا آگے چل کے تدارک ایک کنفیڈرل آئین کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ ویسے بھی معمار سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ اس کی اٹھائی عمارت میں کونسا شہتیر کتنا بوجھ کب تک سہارے گا۔
ایسا آئین بنانے کی تیسری وجہ یہ ہوتی کہ تقسیم کے وقت تبادلہِ آبادی کے باوجود پاکستان میں غیر مسلم آبادی بیس فیصد تھی۔ اور جب جناح صاحب گیارہ اگست کی بنیادی تقریر کا مسودہ لکھ رہے تھے تو ان کے پیشِ نظر یہ حقیقت تھی کہ جو ہم نے ایک متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت کے تحفظ کے لیے مانگا وہی ایک نئے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو بھی ملنا چاہیے۔ چنانچہ جناح صاحب کے ہوتے ہوئے قراردادِ مقاصد کا منظور ہونا ممکن نہ تھا (تبھی تو ان کی زندگی میں یہ قرار داد پیش نہیں ہوئی)۔ جناح صاحب کی پہلی سات رکنی کابینہ سے ہی اندازہ لگا لیجیے کہ ان کے ہوتے آئین بنتا تو کیسا ہوتا۔
اگر جناح صاحب کا انتقال گیارہ ستمبر انیس سو اڑسٹھ کو ہوتا تو امریکا سے قریبی تعلقات ضرور ہوتے لیکن پاکستان سیٹو اور سینٹو کا دم چھلا نہ ہوتا۔ یوں سوویت یونین سے مفت کی محاذ آرائی پروان نہ چڑھتی۔ سندھ طاس کا معاہدہ یقیناً ہوتا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی نئی جنگ نہ ہوتی۔ غلام محمد، اسکندر مرزا، ڈاکٹر خانصاحب، ایوب خان اور بھٹو کا نام کسی نے نہ سنا ہوتا۔
ممکن ہے جناح صاحب خرابیِ صحت کے سبب انیس سو باسٹھ میں عہدہِ صدارت سے سبکدوش ہو جاتے اور ان کی جگہ جوگندر ناتھ منڈل یا راجہ صاحب محمود آباد ڈیموکریٹک ری پبلک آف پاکستان کے نئے صدر منتخب ہو چکے ہوتے اور لیاقت علی خان کے بجائے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی دوسری پانچ سالہ مدت پوری کر رہے ہوتے۔
چونکہ پاکستان کو انیس سو اڑتالیس کی جنگِ کشمیر کے علاوہ کسی اور جنگ کا تجربہ نہ ہوتا لہذا غالب امکان ہے کہ جناح صاحب کے سبب پاکستان کے پہلے اور دوسرے پنج سالہ منصوبے میں صنعتی ڈھانچے کی بنیادیں رکھے جانے اور جدید زرعی اصلاحات کے بعد تیسرے پنج سالہ منصوبے میں شرح افزائش کا ہدف چھ تا سات فیصد سالانہ مقرر کیا جاتا اور دس کروڑ کی آبادی میں غربت کی شرح ساٹھ فیصد سے کم ہو کر تیس فیصد تک آ جاتی۔ یوں ثابت ہوجاتا کہ پاکستان بننا کتنا ضروری تھا۔
اور پھر اس پاکستان میں گیارہ ستمبر انیس سو اڑسٹھ کو جناح صاحب بانوے برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوتے تو ان کے جنازے میں جانسن، کوسیجن، ولسن، چو این لائی، رضا شاہ، شاہ فیصل اور اندرا گاندھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے اور مشرقی پاکستان اسمبلی ایک متفقہ قرارداد منظور کرتی کہ قائدِ اعظم کا مزار دارالحکومت کراچی کے بجائے دارالحکومت ڈھاکا میں بنایا جائے کیونکہ مشرقی پاکستان میں چھپن فیصد پاکستانی بستے ہیں اور انیس سو چالیس کی قرار داد بھی مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب ’’ اگر‘‘ ہی ہے۔ اس ’’اگر‘‘ کے بغیر جو پاکستان ہے اس کے بارے میں شاعر اور لیکھک سرمد صہبائی کا تبصرہ ہے
’’ پاکستان ساڈا معشوق اے۔ تے معشوق جنا وی ظالم ہووے، چھڈیا نئیں جاندا‘‘۔
2015