تین لوگ ایک بار میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ پہلے نے کہا کہ میں سالانہ ایک لاکھ ڈالر کماتا ہوں۔ اُس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے، اُس نے جواب دیا کہ میں اسٹاک بروکر ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں سالانہ پچھتّر ہزار ڈالر کماتا ہوں۔ اُس سے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے، اُس نے جواب دیا کہ میں آرکیٹیکٹ ہوں۔ تیسرا شخص جو یہ سب سن رہا تھا بولا کہ میں سال میں دس ہزار ڈالر کما لیتا ہوں۔ پہلے دونوں کچھ دیر چُپ رہے پھر آرکیٹیکٹ بولا ’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم کس قسم کی کہانیاں لکھتے ہو؟‘‘ لطیفہ قدرے باریک ہے اور شانِ نزول اِس کی یہ بتانا مقصود ہے کہ لکھاری بیچارہ اپنے ہاں تو مسکین ہے ہی باہر بھی مسکین ہی ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں لکھاری ہوں تو جواب ملتا ہے کہ وہ تو ٹھیک ہے پر کرتے کیا ہو! سو ایسے معاشرے میں اگر آپ لکھاری بننا چاہتے ہیں اور کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے من چلے کا سودا ہے، کٹھا ہے یا میٹھا، آپ کی مرضی کیا پسند ہے۔ مگر یہ سودا اُس وقت مزید مہنگا پڑ جاتا ہے اگر لکھاری سر پھرا اور سنجیدہ قسم کا ہو اور اُس کا ماننا ہو کہ ملک میں سنجیدہ مکالمے کی فضا کو پروان چڑھانا چاہیے یا پھر اُس کی دانشوری سطحی نہ ہو بلکہ وہ مقبول اور کھوکھلی باتوں کے بجائے درست اور ٹھوس حقائق پر مبنی تجزیے پیش کرتا ہو اور اسے یہ بھی خوش فہمی ہو کہ معاشرے میں علمی دلائل کے زور پر بحث کی جانی چاہیے تاکہ سچائی اور حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔ ایسے سر پھرے دانشوروں اور لکھاریوں کا/کو ہمارے جیسے معاشروں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات ان کی شرافت اور نجابت ہی ان کے راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ لکھاریوں کی ایسی فہرست میں ایک نام خورشید ندیم کا ہے۔
خورشید ندیم صاحب ایک نستعلیق آدمی ہیں، نرم خو شخصیت کے مالک ہیں، علمی گفتگو کرتے ہیں، ابوالکلام کے انداز میں نثر لکھتے ہیں، غامدی صاحب کے انداز میں دلائل دیتے ہیں، بذلہ سنجی بھی طبیعت میں رچی ہے مگر اپنے جملے کی خاطر بندہ ضائع نہیں کرتے، مدمقابل کو اپنی شخصیت کی خوبصورتی سے متاثر کرتے ہیں اور جب وہ متاثر ہو جاتا ہے تو پھر کہیں کا نہیں رہتا، آپ کی ذات جملہ خوبیوں کا مجموعہ ہے بس ایک ہی خرابی ہے اور وہ یہ کہ آپ کالم نگار ہیں اور کالم نگار بھی ایسے جو کسی پر جملے کستا ہے اور نہ چٹ پٹا الزام لگاتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالتا ہے اور نہ کسی پر ذاتی حملہ کرتا ہے، اپنے کالموں میں کسی دیومالائی شخصیت کے حامل مسیحا کی امیج بلڈنگ کرتا ہے اور نہ ہی چھ ماہ میں ملک کے تمام مسائل کے حل کا چُورن بنا کر پیش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بندہ پوچھے کہ پھر ایسی کالم نگاری کا اچار ڈالنا ہے جس میں کوئی بڑھک ہی نہ لگائی جائے، ایسا سنجیدہ اور پُرمغز تجزیہ کس کام کا جس میں کسی پر کیچڑ ہی نہ اچھالا جائے اور ایسا آزاد لکھاری بننے سے کیا حاصل کہ آپ کے ذریعے بوقت ضرورت منفی اور مثبت خبریں ہی نہ پھیلائی جا سکیں! سو، خورشید ندیم نے مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے، مہنگا سودا کیا ہے، جو چیز بازار میں آسانی سے بِک رہی ہے وہ آپ بیچتے نہیں اور جو آپ لوگوں کو بیچنا چاہتے ہیں اُس کا گاہک مشکل سے لاکھوں میں ایک ہے۔ ایسے میں ایک کتاب لکھ مارنا اور اُس کا نام رکھنا ’’سماج، ریاست اور مذہب۔۔۔ایک متبادل بیانیہ‘‘ جناب خورشید ندیم کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ یہ کتاب خورشید ندیم کے کالموں کا مجموعہ ہے اور حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اگر آپ مجھ سے مشورہ کرتے تو میں اس کا نام تجویز کرتا ’’جنس، عریانی، سماج اور مذہب۔۔۔ پاکستان میں‘‘ اور ساتھ ہی چار پانچ مضامین ایسے شامل کروا دیتے جس میں موصوف یہ دعویٰ کرتے کہ اُن کی رسائی ایک ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تک ہے جو ہر قسم کے مسائل کا حل آناً فاناً کر دیتے ہیں، شرط اتنی ہے کہ وسیلہ یہ لکھاری ہو۔ اس کے دو فائدے ہوتے۔ ایک تو ظاہر ہے کہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بِک جاتی اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ دکھی خواتین اپنے مسائل کے حل کے لیے انہیں۔۔۔۔خیر چھوڑیں اب خورشید ندیم صاحب کو یہ سب بتانے کا کیا فائدہ!
اپنی کتاب میں خورشید ندیم نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ان کے جواب میں کچھ لوگ ہاتھ میں تلوار اٹھا لیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس دلیل نہیں ہوتی۔ سیکولرازم کیا ہے، روحانیت کیا ہے، لبرل ازم کیا ہے، تکفیر کا مسئلہ کیا ہے، مذہبی انتہا پسندی کا بیانیہ کیوں کر پھیلا، فرقہ واریت کیوں پیدا ہوئی۔۔۔۔۔یہ تمام حساس موضوعات ہیں، اگر کوئی اِن پر روایتی شعلہ بیانی سے کام لینے کے بجائے منطقی اور علمی انداز میں لکھنا چاہے گا تو یہ کام مزید مشکل ہو جائے گا، خورشید ندیم نے اسی مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ تاہم مجھے یہ کہنے دیں کہ آپ کا انداز سادہ نہیں، آپ قدرے مشکل پسند ہیں، جیسے اپنے وجاہت مسعود، جہاں ایک آسان لفظ لکھا جا سکتا ہو وہاں مٹا کر مشکل لفظ لکھ دیتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ کتاب ایسی دقیق ہے کہ عام قاری کو سمجھنے میں دشواری ہو، سچی بات تو یہ ہے کہ خورشید ندیم جیسی اردو نثر لکھنے والے اب شاید چند لوگ ہی ہمارے درمیان رہ گئے ہیں۔
خورشید ندیم کی یہ کتاب ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے، ایسا بیانیہ جو انتہا پسندی کا رد کرتا ہے، یہ بیانیہ قران و حدیث سے طاقت سینچتا ہے، عقل اور استدلال کی بنیاد پر کھڑا ہے اور منطق اور دلیل سے لیس ہے۔ اس کتاب میں آپ کو اُن تمام سوالات کے جواب مل جائیں گے جن کے بارے میں ہم نے فرض کر رکھا ہے کہ ہم اُن کا جواب جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اُن بنیادی مذہبی اور سماجی تصورات سے ناآشنا ہیں جن کی بنیاد پر ایک پوری نسل غیر محسوس طریقے سے انتہا پسند ہو چکی ہے۔ سیکو لرازم کو ہم لادینیت سمجھتے ہیں، لبرل ازم کو ہم مادر پدر آزادی گردانتے ہیں اور اسلام میں پردے کا اصل حکم کیا ہے ہم نہیں جانتے۔ خورشید ندیم نے ایسے ہی بنیادی سوالات اٹھائے ہیں، ان کے مدلل جوابات دیے ہیں مگر کہیں بھی اُ ن کی تحریر سے تحکمانہ پن نہیں جھلکتا، کہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ اپنی رائے کو حتمی سمجھ رہے ہوں۔ ہمارے ہاں تو ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ہر بندہ اپنے لہجے میں خواہ مخواہ تمکنت پیدا کرکے خود کو علم و دانش کا دیوتا سمجھ کر بات کرتا ہے۔ حیرانی اس بات پر نہیں ہوتی کہ کوئی ایسا کیسے کر لیتا ہے، حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ سچ مچ اسے دانشور مان بھی لیتے ہیں۔
سو یہ ہے ہمارا معاشرہ جس کی اصلاح کے لئے خورشید ندیم صاحب ’’تکبیر مسلسل‘‘ دیے جا رہے ہیں غالباً ان کا خیال ہے کہ یہ سوسائٹی تبدیل ہو گی اور ہم اپنے بنیادی سیاسی اور سماجی معاملات بالآخر طے کر نے کے بعد ایک ایسے خوشحال اور آزاد دور میں داخل ہو جائیں گے جہاں دیگر عیاشیوں کے علاوہ بات کرنے کی بھی مکمل آزادی ہوگی۔ اوہ سوری، میرا خیال ہے شاید میں کچھ منفی بات لکھ گیا ہوں، معافی چاہتا ہوں، میرا مطلب یہ تھا کہ ہم ایک آزاد دور میں ہی جی رہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ’’مثبت آزادی‘‘ ہے، مادر پدر آزادی نہیں ہے!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ