کمیونسٹ پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم نے فیصلہ کیا کہ انہیں انقلاب عظیم کی سالگرہ منانی چاہیے ،چنانچہ ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں پارٹی کے چئیرمین نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے کامریڈ دوستو، ذرا دیکھو انقلاب کے بعد ہماری پارٹی نے کیسے لوگو ں کی زندگیاں بدل دی ہیں ۔اماں مشکایا کی مثال آ پ کے سامنے ہے ،یہ بیچاری اس قدر غریب تھی کہ اِس کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا تھا اور پاؤں میں پہننے کے لیے جوتے تک نہیں تھے مگر اب اِس کا اپنا کشیدہ کاری کاکام ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ خوشحال ہے ۔اور اپنا کوتوزوف تو بیچارہ تو بہت ہی مسکین تھا، کھانے کو روٹی نہیں تھی سونے کے لیے چھت نہیں تھی ، مگر اب اِس کے پاس بیلوں کی جوڑی ہے ، کھیتی باڑی کرتا ہے، خوب گذارا ہو رہا ہے۔اور یہ لفنگے بونسکی کو ہی دیکھ لیں۔ ایک نمبر کا آوارہ شخص تھا، کبھی شراب پی کر غل غپاڑا کرتا تھا اور کبھی کسی کی ماں بہن کو چھیڑتا تھا ۔مگر اب یہ ہماری پارٹی کا سیکریٹری جنرل ہے ۔
یہ لطیفہ اُس دور کا ہے جب سوویت یونین اور اِس کی پروردہ ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی کی آمریت اور فسطائیت عروج پر تھی، اظہار رائے پر پابندی تھی ، سیاسی نظریات پر بندش تھی اورجمہوری حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا ۔اُس ماحول میں اِس قسم کے لطیفے امریکہ او ر اس کے اتحادیوں نے گھڑے تاکہ کمیونزم کا تمسخر اڑا کر سوویت بلاک کے عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ وہ ایک جابرانہ نظام کے تابع ہیں جہاں اُن کی زندگی ، آزاد ی اور مسرت کے حصول کی خواہش کوئی معنی نہیں رکھتی۔یوں توہٹلر کی نازی پارٹی اور سٹالن کی آمریت اب ماضی کا قصہ لگتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت بدلا نہیں ہے، آج بھی ریاستیں اپنے عوام کے حقوق سلب کرنے کے لیے ویسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں جیسے مد ظلہ سٹالن اور آنجہانی ہٹلر استعمال کرتے تھے ، فرق صر ف یہ ہے کہ آج کل کے دور میں یہ سر عام فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی سے اڑانے یا جبری مشقت کی سزا دے کر سائبیریا بھیجنے سے نہیں ہوتابلکہ اب اِس کے لیے جمہوریت نما فضا قائم کی جاتی ہے (ہٹلر نے بھی یہی کیا تھا)جس میں ایک مقبول لیڈر عوام کو یہ باور کرواتاہے کہ وہ جو کچھ کرے گا ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لیے کرے گا لہذا اُس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جائے ۔عوام کا یہی اعتماد امریکہ میں ٹرمپ نے ، بھارت میں مودی نے اور برازیل میں بولسونارو نے حاصل کیا۔ کسی ملتے جلتے سربراہ کا نام اگر لکھنے سے رہ گیا ہو تو معذرت قبول کریں اورمندرجہ بالا لطیفے کو دوبارہ پڑھ لیں۔
تھوڑی دیر کے لیے ایک ایسے ملک کا تصور کریں جہاں کے عوام کو اِس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ غیر محسوس طریقے سے ایک آمرانہ نظام میں جکڑے ہوئے ہیں ،یعنی اُس ملک کا نظام جارج آرویل کے شہرہ آفاق ناول’1984‘جیسا ہے جہاں ہر چیز پر نظر رکھی جاتی ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ’بڑا بھائی ‘ سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ایسے نظام میں اختلافی بیانیہ رکھنے والوں کو غدار اور ملک دشمن کہا جاتا ہے ،پروپیگنڈا کرکے حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے ، جھوٹ کی تکرار کی جاتی ہے اور سچ کا پرچار کرنے والوں پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عموماً ایسے ملک میں عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ تمام تضادات سرے سے نظر ہی نہیں آتے کیونکہ یہ طبقہ مسلسل پروپیگنڈا کے زیر اثر خلوص نیت سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ریاست جن لوگو ں کو غیر محب وطن قرار دے کر جیل میں ڈا ل رہی ہے وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں اور یوں یہ طبقہ خود کبھی ریاستی جبر کانشانہ نہیں بنتا۔شروع میں ہٹلر کی نازی پارٹی ایسے ہی نظریات کے پرچار سے مقبول ہوئی تھی جب اُس نے یہودیوں کا بائیکاٹ شروع کیا تھا، لوگوں نے ہٹلر پر ایمان کی حد تک اعتبار کیاتھا ، بعد میں جب جنگ ختم ہوئی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ تعصب میں اندھے ہو کر سچ اور جھوٹ کی تمیز بھلا چکے تھے ۔ٹرمپ کے امریکہ میں اس طبقے کی مثال ’red necks‘ اور متعصب سفید فام ہیں جو مہاجرین، اقلیتوں اور سیاہ فام شہریوں کوغیر محب وطن سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح مودی کے بھارت میں انتہا پسند ہندو بھی اسی طبقے میں شامل ہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اقلیت قابل گردن زنی ہیں۔ہمارے ہاں بھی ایک طویل عرصے تک پنجاب کے بالادست طبقے کو یہ احساس ہی نہیں ہو سکا کہ اندرون سندھ ، فاٹا ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں کیاکچھ ہوتا ہے،اب کہیں جا کر وسطی پنجاب والوں کو جارج آرویل کا ناول سمجھ میں آنے لگا ہے۔
تاہم الحمد اللہ، ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور ’اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسا ن ‘ جیسے ملی نغمے سن سن کر جوان ہوئے ہیں لہذا ہمیں پشیمانی کی ضرورت نہیں ۔البتہ جن ممالک کے شہریوں کو آزادی اظہار کی عیاشی میسر نہیںاور وہ استبدادی ریاست (کافی دیر سے میں یہ لفظ استعمال کرنے سے گریز کر رہا تھا کہ اس کے بولنے سے زبان میں لکنت پیدا ہو جاتی ہے ) کے خوف میں زندگی بسر کرر رہے ہیں ،اُن کے لیے مغرب کے پڑھے لکھے محققین نے فسطائیت اور آمرانہ نظام سے چھٹکارا پانے کے کچھ نسخے لکھ رکھے ہیں ۔ مثلاً حال ہی ایک کتاب نظر سے گذری ، On Tyranny، ٹموتھی سنایڈر نامی امریکی مصنف نے لکھی ہے ، وہ مرد عاقل کہتا ہے کہ جابرانہ نظام کوکسی شارٹ کٹ کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اِس کے خاتمے کے لیے ہر شخص کو ایک طویل جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔مصنف کے مطابق اِس ضمن میں سے سب سے پہلے تواُن تمام باتوں کے خلاف کھڑے ہونا ضروری ہے جو جابرانہ نظام کو قوت بخشتی ہیں مثلاًکوئی بھی جماعت اگرتعصب اور نفرت پر مبنی بیانیے کا پرچار کرتی ہے تواسے نظر اندازنہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کی مزاحمت کرنی چاہیے ۔دوسری بات،پروپیگنڈا کے اثر سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ حقائق کی پڑتال کرکے کسی معاملے میں رائے قائم کرنی چاہیے۔تیسری بات، جبر کے خلاف جدو جہد اسی صورت میں ممکن ہے اگر عوام کے درمیان مذہب، ذات پات ، برادری ، رنگ ،نسل یا جنس کے نام پر کھڑی کی گئیں سماجی رکاوٹیں نہ ہوں ، اسی صورت میں عوام اپنی قوت کو مجتمع کرکے جابرانہ نظام سے چھٹکارا پا سکیں گے ۔چوتھی بات، عوام کی آزادی اُن کی نجی معلومات کے تحفظ سے مشروط ہے، ریاست کا عوام کی نجی معلومات پر اختیار جس قدرکم ہوگا ،اتنی ہی شہریوں کی آزادی بھی ممکن ہوگی ۔پانچویں بات، عوام کو ہمیشہ اِس بات سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ کوئی شخص سچائی کو مسخ نہ کرے، مصنف ڈانلڈ ٹرمپ کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق 2016کے انتخابات میں ٹرمپ کی طرف سے کیے گئے دعوو¿ں میں سے 78فیصد جھوٹ پر مبنی تھے ،لیکن ٹرمپ نے اِس تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا کہ لوگوں نے اُس پر یقین کرلیااور پھر اُس سے اگلے مرحلے میں اُن تضادات کوبھی ڈھٹائی سے گلے لگا لیا جن کی کوئی عقلی توجیہہ ممکن ہی نہیں تھی۔ٹموتھی سنایڈر کہتا ہے کہ اِس پورے کھیل کے آخری مرحلے میں ایسالیڈر لوگوں سے اپیل کر تا ہے کہ وہ اُس پر اعتماد کریں ، وہی نجات دہندہ ہے ، وہی الو الامر ہے اور مسیحا ہے جس کا انہیں انتظار تھا جبکہ حقیقت میں ایسے کسی مسیحا کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔رہی بات ہمارے جیسے ملکوں کی تو ہم ایسے نصیبوں جلے ہیں کہ اپنی بے زبانی پر بھی شکر گزار ہیں کیونکہ زبان ملنے پر بھی ہم نے اپنی بے دست و پائی کا ہی شکوہ کرنا تھا۔ ’تمنائے زباں، محو ِ سپاس ِ بے زبانی ہے، مٹا جس سے تقاضا شکوہ بے دست و پائی کا۔‘(غالب)۔
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا کالم)
فیس بک کمینٹ