امریکہ میں ایک درگاہ ہے جہاں کچھ برگزیدہ لوگ سارا سال خدا کے آگے جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔دن ہو یا رات ، یہ وقت کی پروا کرتے ہیں اور نہ اپنے آرام کی ، اِن کا تمام وقت اپنے رب سے علم کی طلب میں گذرتا ہے۔اِن لوگو ں کی تپسیا میں ایسی شدت ہے کہ خدا انہیں مایوس نہیں کرتااور اِن کی جھولی علم کے موتیوں سے بھرتا رہتا ہے۔یہ برگزیدہ بندے بھی خدا کا دیا ہوا علم اپنے آپ تک محدود نہیں رکھتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ یہ علم بانٹا جائے ،سوجس کی جتنی توفیق ہوتی ہے اپنے دامن میں موتی بھر کر لے جاتا ہے ۔یہ درگاہ ہیوسٹن میں واقع ہے اور اِس کا نام ’ناسا‘ ہے ۔یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں رب نے کتنا علم عطا کیا ہے اِس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے چھ دن پہلے ، 18فروری 2021کو اِن برگزیدہ بندوں کی بھیجی ہوئی خلائی مشین چھ کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کرکے مریخ کی سطح پر اترگئی۔زمین سے مریخ کا کم سے کم فاصلہ پانچ کروڑ چھیالیس لاکھ کلومیٹر ہے مگر یہ’ کتابی ‘فاصلہ ہے کیونکہ حقیقت میں مریخ سے زمین کا اتنا کم فاصلہ آج تک ممکن نہیں ہو سکا ۔کم سے کم فاصلہ 2003میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب مریخ اور زمین اپنے اپنے مدار میں ایسی جگہ تھے جب ان کے درمیان پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ کلومیٹر کی دوری تھی ۔سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناساکے جہاز نے تقریباً چھ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ۔مگر شاید یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہ ہو۔کیونکہ مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ چالیس کروڑ کلومیٹر تک بھی چلا جاتاہے جبکہ اوسطاً یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے تقریباً بائیس کروڑ کلومیٹر کی دور ی پر واقع ہیں۔یہ اُس علم کی معمولی سی مثال ہے جس میں دو سیاروں کے درمیان فاصلہ ماپنا بھی ایک پیچیدہ کام بن جاتاہے ۔علم کے اسی قبیلے میں سٹیفن ہاکنگ نام کے بزرگ بھی گزرے ہیں ، دو سال پہلے اُن کا انتقال ہوا تھا ، وفات سے پہلے انہوں نے اپنی کتاب میں پیش گوئی کی تھی کہ سن 2070تک انسان مریخ پر اترنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ناسا والوں کی خلائی مشین تو مریخ پر اتر گئی ہے ، دیکھتے ہیں کہ اگلے پچاس برسوں میں ان بزرگ کی بات سچ ثابت ہوتی ہے یا نہیں !
اللہ کا ایک ایسا ہی بند ہ آسٹریلیا میں بھی رہتا ہے ،یہ ساری رات اپنے گھر میں دور بین لگائے آسمان کو تکتا رہتاہے ، اِس کا کام آسمانوں میں اپنے ربّ کے کرشمے تلاش کرنا ہے ۔اِن بزرگوار کا نام مولانا رابرٹ ایوانز ہے ۔یہ حضرت خلا میں ’سپر نووا ‘ تلاش کرتے ہیں ۔ سپر نووا اُس ستارے کو کہتے ہیں جس میں انتہائی شدید دھماکوں کے نتیجے میں بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے، اتنی زیادہ کہ ہمارے کھربوں سورج مل کر بھی شایدوہ توانائی پیدا نہ کر سکیں۔اِس عمل کے دوران سپر نووا اپنی کہکشاں کے باقی ستاروں کی مانند زیادہ چمکدار رہتا ہے اور پھر ’ختم‘ ہوجاتا ہے ۔ایسا سپرنووا اگر زمین سے پانچ سو نوری سال کے فاصلے پر برپاہو جائے تو یہاں زندگی فنا ہو جائے ۔بقول ساقی فاروقی ’کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے میرا سایہ کم کرنے کے لیے ‘۔مولانا ایوانز کا کہنا ہے کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ کائنات اِس قدر وسیع ہے کہ ہمیں سپر نووا سے تباہی کا خطرہ نہیں کیونکہ یہ شدید دھماکہ ایک خاص قسم کے ستارے میں ہوتا ہے جو ہمارے سورج سے کم از کم دس بیس گنا بڑا ہواور ایسا کوئی سورج ہمارے نظام شمسی میں نہیں ۔ اِس قسم کا جو ستارہ سب سے قریب ہے وہ پچاس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے ۔سپر نووا اربوں سال تک روشن رہتے ہیں مگر جب اُن کا ’وقت قریب ‘آتا ہے تو وہ اچانک ہی معدوم ہو کر ختم ہو جاتے ہیں ، سب میں دھماکہ بھی نہیں ہوتا، اِس کا منظر یوں ہوتا ہے جیسے ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ۔ایک کہکشاں میں یہ واقعہ اوسطاً دو تین سو برسوں میں ایک مرتبہ ہوتا ہے ۔ بزرگوار ایوانز کی دوربین پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک کی کہکشاؤں کو دیکھ سکتی ہے اِس لیے اسّی کی دہائی سے لے کر 2003تک انہوں نے رب کا یہ کرشمہ چھتیس مرتبہ دیکھا ۔کبھی کبھار تین سال میں بھی کوئی سپر نووا نظر نہیں آیا اور کبھی دو ہفتوں میں تین مرتبہ یہ جلوہ دکھائی دے گیا۔ربّ کی باتیں ربّ ہی جانے!
ایک صاحب کشف بزرگ یوکرائن میں بھی گذرے ہیں ، نام تھا جارج گامو۔ایک مرتبہ آپ مراقبے میں تھے کہ یہ راز منکشف ہوا کہ اگر یہ کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے تو اُس ’واقعے ‘ کی باقیات کے طو ر ریڈیائی لہریں اب بھی کائنات میں موجود ہوں گی اور چونکہ یہ کائنات بے حد وسیع ہے تو زمین تک پہنچتے پہنچتے وہ لہریں اب تک مائیکرو ویو کی شکل میں آ چکی ہوں گی۔اِن لہروں کو پکڑنے کے لیے سائیں گامو نے اینٹینے کی طرز پر ایک آلے کا تصور پیش کیا جس کا کام اِن مائیکرو ویوز کو ریکارڈ کرنا تھا۔اب ایک اتفاق دیکھیے ۔1964میں دو امریکی صوفیوں نے، جو پیشے کے اعتبار سے سائنس دان تھے، نیو جرسی کے مقام پر ایک بہت بڑا اینٹینا لگایا جو مواصلاتی مقاصد کے لیے تھا ۔اِس اینٹینے نے مسلسل ایک آواز ریکارڈ کی جس کی اُن خدا کے بندوں کوسمجھ نہیں آئی ،انہوں نے اینٹینے کی ہر طرح سے جانچ کی ، ہر پیچ کھول کر دوبارہ کسا، سب پرزے نئے سرے سے جوڑ کربھی دیکھے مگر آواز آنی بند نہ ہوئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُ ن سے محض پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر پرنسٹن یونیورسٹی میں ’سائیں بابوں‘کی ایک علیحدہ ٹیم اُس آواز کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے نیو جرسی کے صوفیا پیچھا چھڑانے میں لگے تھے ۔یہ کائنات کے’ آغاز‘ کی آواز تھی ، یہ وہ قدیم ترین روشنی تھی جو اب مائیکروویو کی شکل میں ڈھل کر اُن تک پہنچی تھی ، اِن صوفیا کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ خدانے انہیں کیا ودیعت کر دیا ہے، وہ نوّے ارب کھرب میل پرے کائنات کے کونے سے ابتدائی اور قدیم ترین فوٹون ریکارڈ کر رہے تھے !!!مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن صوفیوں اور سائیں بابوں کی ٹیموں کو پتا ہی نہیں تھا کہ روس کا ایک بزرگ 1940میں یہ پیش گوئی کرچکا ہے کہ کائنات کے آغاز کی آواز اب بھی اِس عالم میں موجود ہے ۔1978میں نیو جرسی کے صوفیوں کو اِس کارنامے پر ،جس میں اُن کا کوئی کمال تھا اور نہ ادراک تھا کہ وہ کیا ریکارڈ کر رہے ہیں ، فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔
’من چلے کا سودا ‘اشفاق احمد کا شاہکار ڈرامہ ہے ۔اُس میں ایک کردار کہتا ہے کہ اب خدا تک پہنچنے کا راستہ بدل گیا ہے ” اب طبیعات کو سمجھے بغیر ما بعد الطبیعات سمجھ نہیں آ سکتی ۔ ۔۔۔مراقبہ اب لیبارٹری میں ہوتا ہے۔۔۔ اگر تمہارا سائیں بننے کا اراد ہ ہے ۔۔۔صوفی بننے کا۔۔۔تو اب ادھر سے آنا پڑے گا سائنس کے سمندر سے۔۔سائنس کے ٹیچر نہ بن جانا، سائنس کے سادھو بننا،سائیں میکس پلانک کی طرح،سائیں نیلز بوہر کی طرح،بابا ردر فورڈ اور سائیں آئن سٹائن کی طرح، تم پر زمانے کا باطن روشن ہونے لگے گا۔۔۔!“افسوس کہ اشفاق احمد جیسی توانا آواز بھی نقار خانے میں طوطی ثابت ہوئی ۔ گو کہ آج ہم بابے اور سائیں پیدا کر رہے ہیں مگر یہ وہ بابے نہیں جن کا ذکر اشفاق صاحب کر گئے تھے ، یہ وہ بابے ہیں جو جہالت کا سپر نووا ہیں ،ایسا سپر نووا جس کے معدوم ہونے کا اگلے کئی برس تک کوئی امکان نہیں ۔
کالم کی دُم: اِس کالم میں سپر نووا،رابرٹ ایوانز اور کائنات کے آغاز میں جاری ہونے والی ریڈیائی لہروں اور اِس حوالے سے سائنس دانوں کی تحقیق اور دریافت کے تمام حقائق ’بِل برائسن‘ کی کتاب ’A short history of nearly Everything‘ سے لیے گئے ہیں ۔قارئین اکثر یہ گلہ کرتے ہیں کہ میں بعض کالموں میں لکھ دیتا ہو ں کہ فلاں بات کا ذکر پھر کبھی اور یہ ’پھر کبھی ‘ نہیں آتی ۔آج وہ قارئین نوٹ فرما لیں کہ بل برائسن کی کتاب کا ذکر میں نے چند ہفتے پہلے اِسی وعدے کے ساتھ کیا تھا جو آج وفا ہوگیا۔
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم)
فیس بک کمینٹ