سنسان راستہ ہو ، ویرانہ ہو، دور دور تک کوئی آبادی نہ ہو، تا حد نگاہ تاریکی ہو، کسی ذی روح کا نشان نہ ہو،سکوت ہواور جدید زندگی کے جہاں آثار نہ ہوں ۔۔۔ایسا سفر ایک خواب تھا جو بالآخر پورا ہو گیا ۔
ہم بہاولپور سے نکلے تو شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے ۔مضافات میں پنجاب کا حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے، سرمئی دھندلکے میں لہلہاتی فصلیں ایک عجیب سی رومان انگیز فضا پیدا کردیتی ہیں۔ قدرت سے اگربیوپار ممکن ہوتا تو ہم اِن حسین نظاروں کے عوض اپناسب کچھ تیاگ دیتے۔اس وقت ہماری گاڑی پنجاب کے قصبات اور دیہات کے درمیان دوڑتی ہوئی جا رہی تھی، تھکا ماندا سورج دھیرے دھیرے ڈھل رہا تھااور شام انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی ۔ہم قومی شاہراہ این ایچ 5پر تھے جو کراچی تک جاتی ہے ، موٹر وے بننے سے پہلے کراچی کا یہی راستہ ہوا کرتا تھا۔فی الحال ہماری منزل دراوڑ کا قلعہ تھی جو دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ قریباً سوا گھنٹے کے بعد ہم اِس مرکزی شاہراہ کو چھوڑ کر احمد پور کی جانب مڑ گئے اور وہاں سے ہمارا رُخ دراوڑ فورٹ روڈ پر ہو گیا ۔اِس راستے پر آباد ی نسبتاً کم ہو گئی مگر مسلسل رہی ، کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں کھانے پینے کی دکانیں ، پٹرول پمپ یا کوئی ڈھابہ نہ ہو۔سڑک کے دونوں جانب کھیتوں کا سلسلہ البتہ کچھ طویل ہو گیا ۔یہ پنجاب کا خاصا ہے ، آپ کسی بھی دور دراز یا پسماندہ علاقے میں چلے جائیں ، چند لمحوں کے لیے یوں لگے گا جیسے تمدن سے آگے نکل آئے ہوں ،مگر ذرا سی دیر میں کوئی قصبہ آ جائے گاجہاںجدید زندگی کی چہل پہل ہو گی۔قصبے سے نکلنے کے بعد وہ رونق ماندضرور پڑ جاتی ہے مگرآبادی ختم نہیں ہوتی اور خستہ حال اسکول ، بوسیدہ سرکاری عمارتیں ، کچے پکے مکانات اور کھانے پینے کے کھوکھے گزرتے چلے جاتے ہیں ۔یہ راستہ بھی ایسا ہی تھا، ایک لمحے کے لیے یوںلگتا تھا جیسے ہم کسی دور افتادہ مقام پر آ گئے ہیں مگر پھر اچانک کوئی جگ مگ کرتا پٹرول پمپ مل جاتا اور ہماری امیدوں پر اوس پڑ جاتی ۔یہ نا امیدی والی بات میں نے اِس لیے کی کہ جب ہم لاہور سے نکلے تھے( یہاں ہم سے مراد محبی حبیب اکرم ، یار دلدار گل نو خیز اختر اور yours trulyہیں )تو یہ طے کیا تھا کہ کچھ بھی ہو اِس مرتبہ صحرا کے اندر تک جانا ہے چاہے وہ راستہ کتنا ہی سنسان کیوں نہ ہو۔اپنی اِس خواہش کا اظہار میں نے کمشنر ملتان جاوید اختر سے کیا، جو بیوروکریٹ ہونے کے باوجود ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں ،توموصوف نے کہاکہ آپ کی یہ خواہش یقیناپوری کی جا سکتی ہے بلکہ اگر آپ چاہیں تو صحر ا کا وہ علاقہ بھی دکھایا جا سکتا ہے جہاں راستے میں انسانی ہڈیاں او ر ڈھانچے ملتے ہیں ۔ ”کیا مطلب ؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ”مطلب یہ کہ صحرا میں جب کوئی شخص راستہ بھول جاتا ہے تو پھر اُس کی ہڈیاں ہی ملتی ہیں لیکن آپ بے فکر رہیں ہم آپ کو راستہ بھولنے نہیں دیں گے َ۔“ مکرمی جاوید اختر نے فلک شفاگ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔ان کا مذاق ہوگیا اور میری روح لرز گئی۔موصوف کے ساتھ ہونے والا یہ مکالمہ میں نے اپنے ہم سفر دوستوں کو اُس وقت سنایا جب ہم عین رات کی تاریکی میں صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جواب میں ا نہوں کیا کہا۔اتنا لکھناکافی ہے کہ تبرے کی نئی جہت اُس وقت دریافت ہوئی۔
دراوڑ قلعے تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے سات بج گئے ۔ یہ قلعہ ویسے تو صحرا میں ہے مگر آباد علاقے میں ہے ، یہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر دکانیں اور ضرورت کی اشیا مل جاتی ہیں ۔ رات کی وجہ سے قلعے کی سیر تو نہ ہو سکی مگر ہم نے سرسری سا جائزہ ضرور لیا۔ وہاں ایک سرکاری اہلکار ہمارے ساتھ ہو لیا جس نے ہمیں قلعے کی تاریخ بتائی ، کالم کا پیٹ بھرنا مقصود ہوتا تو وہی تاریخ میں یہاں دہرا دیتے۔ہمارا یڈونچر توابھی شروع ہونا تھا۔سرکاری کرمچاری نے بتایا کہ اصل صحرا دس بار ہ کلومیٹر آگے ہے ، اُس طرف گاڑی موڑ لیں۔ابھی ہم کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ یکدم راستہ سنسان ہو گیا، دائیں اور بائیں جانب کا تصور ختم ہو گیا ،سہ جہتی دنیا سے ہم یک جہتی دنیا میں آ گئے ،کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ ہمارا منہ کس جانب ہے ۔ تاہم راہبر کے چہرے پر سادھوؤں جیسا اطمینان تھا،وہ ڈرائیور کو یوں دائیں بائیں مڑنے کی ہدایات دے رہا تھا جیسے وہ کسی بھرے پرے شہر کی سڑک پرگاڑی چلا رہا ہو اور سامنے جا بجا رہنمائی کے نشانات لگے ہوں۔وہاں عالم یہ تھا کہ ویران ریگستان میں دو گاڑیاں آگے پیچھے دھول اڑاتی جا رہی تھیں ، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا او ر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،ایسے میں اگر ہم گاڑی کی روشنیاں گُل کر دیتے تو ایک دوسرے کی شکلیں بھی نہ دیکھ پاتے۔اچانک ڈرائیور نے بتایاکہ پچھلی گاڑی نظر نہیں آرہی ۔ہم سب گاڑی سے نیچے اتر آئے اور پیچھے دیکھنے کی کوشش کی مگر ہماری اِس حرکت کا کوئی فائدہ نہ ہوا ، وہاں’آگے پیچھے دائیں بائیں ‘کچھ بھی نہیں تھا،خوف کی ایک لہر ہمارے جسم میں دوڑ گئی ۔ ہمارے راہبر نے اُس لمحے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ اِس صحر ا میں دو قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں ۔ ”کیا یہ سانپ زہریلے ہوتے ہیں؟“ میں نے پوچھا ۔ ”جی ہاں۔“ اُس نے اطمینان سے جواب دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ صحرا میں زہرکے تریاق کے لیے ایک بوٹی ملتی ہے جسے ’اَک‘ کہتے ہیں ،صدیوں سے یہاں کے باسی اِس بوٹی سے سانپ کے کاٹے کا علاج کرتے ہیں، ساون میں بارشوں کے بعد یہاں جڑی بوٹیوں کی بہتات ہو جاتی ہے اور بہت سے حکیم یہاں نایاب جڑی بوٹیوں کی تلاش میں آتے ہیں ۔ممکن تھا کہ یہ گفتگو طول پکڑتی مگر ہمیں دوسری گاڑی کی روشنیاں نظر آ گئیں، وہ گاڑی ریت میں کہیں پھنس گئی تھی اِس لیے پیچھے رہ گئی تھی۔
صحرا کاسفر دوبارہ شروع ہو،اب ہم ریگستا ن کے اندر کسی نا معلوم مقام پر تھے،یہاں کوئی بندہ تھا نہ بندہ نواز، جدید زندگی اور تمدن کہیں پیچھے ر ہ گئے تھے ،ہمارا راہبر البتہ ڈرائیور کو اب بھی یوں ’راستہ ‘سمجھا رہا تھا جیسے شہر ی علاقوں میں گوگل میپ والی لڑکی بتاتی ہے ۔دس بارہ کلومیٹر صحرا میں سفر کرنے کے بعد دور ایک روشنی نظر آئی، یہی ہماری منزل تھی ، یہ ایک ڈیرہ تھا جو کسی مقامی آدمی کی ملکیت تھا، یہاںروشنی کا انتظام جنریٹر یا شمسی توانائی کی مدد سے کیا گیا تھااورضرورت کی تمام اشیا موجود تھیں، یوں سمجھیں جیسے کسی نے جنگل میں منگل کر دیا ہو۔اِس ڈیرے کے آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ اگر ہم صحرا میں اسی طر ح ڈیڑھ سو کلومیٹرآگے سفر کریں تو بھارت کی سرحد تک پہنچ جائیں گے۔ چولستان کے علاقے کی پٹی فورٹ عباس سے صادق آبادتک ساڑھے چار سو کلومیٹرطویل اورتیس سے دو سو کلومیٹرتک چوڑی ہے، یہاں آبادی تقریباًپونے تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن کا ذریعہ معاش لائیو سٹاک ہے جو روزانہ تقریباًساڑھے چار لاکھ لیٹردودھ پیدا کرتاہے۔1998میں خشک سالی سے یہاںکافی نقصان ہوا تھا، یہ خشک سالی تین چار سال تک جاری رہی اور اس دوران پانچ لاکھ جانور مر گئے،زیادہ تر جانور بھارتی سرحد کی باڑ سے ٹکرا کر مرے کیونکہ اُن سے ایک قدم کے فاصلے پر پانی اور سبزہ تھا جو سرحد کے اُس پار تھا۔خشک سالی کے بعد حکومت نے اِس علاقے میں اڑھائی سو کلومیٹر کی پانی کی لائنیں بچھائیں اور ہر دس کلومیٹر بعد بیس ہزار گیلن پانی کا پوائنٹ بنایا جس سے ہر ’ٹوبے ‘ کو پانی کی فراہمی ممکن ہوئی ۔
ڈیرے پر کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے اپنے میزبانوں سے اجازت لی اور چولستان کے صحرا کو الوداع کہہ کر لوٹ آئے۔ہم اپنی جدید زندگی میں واپس تو آ گئے ہیں مگرلگتا ہے کہ ’ نہ ہوگایک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا‘ ۔ میں ایک مرتبہ پھر چولستان جاؤں گا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنا دل وہیں چھوڑ آیا ہوں۔
(گردوپیش کے لیے ارسال کیاگیا کالم)
فیس بک کمینٹ