پہلی دنیا: اِس دنیا میں ایک ماں ہے اور اُس کے دو بچے ہیں۔ یہ ماں اپنے بچوں کو لے کر ڈاکٹر کے پاس آئی تھی، ماں نے برقع پہنا ہواتھااور اُس کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں ۔ بچوں کے پرانے اور بوسیدہ کپڑوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اُن کا تعلق غریب گھر سے ہے۔ چھوٹا بچہ، جس کی عمر تین یا چار برس ہوگی، بہت شور کر رہا تھا، بار بار ماں کو بلاتا تھا ، کبھی میز کوگھسیٹتا ، کبھی کرسی کو کھینچتا اورکبھی اُس کے اوپر چڑھ کر ماں کو داد طلب نظروں سے دیکھتا ،جبکہ بڑا بچہ سنجیدہ تھا، وہ چپ چاپ کونے میں لگ کر بیٹھا تھا ۔ میں کافی دیر سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں نے نوٹ کیا کہ چھوٹے بچے کے پیر کچھ ٹیڑھے ہیں ، وہ چل تو رہا تھا مگر پیر سیدھے نہیں کر پا رہا تھا تاہم اُس کے چہرے پر کسی قسم کی تکلیف کے آثار نہیں تھے ، وہ ایک الگ ہی دنیا میں مگن تھا ۔ مجھ سے رہا نہ گیا ، میں نے اُس عورت سے پوچھا کہ کیا یہ بچہ سہارے کے بغیر چل سکتا ہے ، اُس نے جواب دیا کہ نہیں ، یہ پیدایشی ایسا ہے ، اِس کے پاؤں ٹیڑھے ہیں۔ پھر میں نے بڑے بچے کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ کیا اسے بھی یہی مسئلہ ہے۔اُس نے جواب دیا کہ نہیں یہ بالکل ٹھیک تھا ، ایک دن اسے کچھ بخار ہوا تو میں اسپتال لے گئی ، وہاں نرس نے اِس کے پٹھوں میں غلط رَگ میں ٹیکہ لگا دیا جس سے اِس کے ایک پاؤں ٹیڑھا ہوگیا، تب سے میں یہاں علاج کروانے لا رہی ہوں ، اِس بات کو دو سال ہو گئے ہیں ، میں مسلسل دو سال سے بلا ناغہ یہاں آتی ہوں ،گھر سے رکشہ لگوایا ہوا ہے، بچے کی تھراپی کرواتی ہوں اور واپس چلی جاتی ہوں، اب یہ تقریباً ٹھیک ہوگیا ہے ۔ میں نےبچے سے کہا کہ چل کر دکھاؤ، بچہ خاموشی سے اٹھا اور چند قدم چل کر واپس آکے بیٹھ گیا۔ اُس عورت نے بتایا کہ اب وہ چھوٹے بچے کا بھی یہی علاج کروانے باقاعدگی سے آرہی ہے۔مجھے نہیں پتا کہ وہ کس دنیا کی عورت تھی ، کہاں سے آئی تھی، کہاں چلی گئی ، اپنے مفلوک الحال بچوں کا علاج کیسے کروا رہی ہے ، اُس کا شوہر زندہ ہے یا مر گیا ، کیا کماتا ہے ، یہ عورت گھر کیسے چلاتی ہے ، اپنی دنیا کےباقی کام کیسے کرتی ہے ؟
دوسری دنیا: اِس دنیا میں ایک سرمایہ دار ہے ، کئی کارخانوں کا مالک ہے، اُس کا ایک پاؤں ملک میں اور دوسرا ملک سے باہر ہوتا ہے ، اپنے ذاتی جہاز پر سفر کرتا ہے ،سربراہان مملکت تک اُس کی براہ راست رسائی ہے ، معیشت ٹھیک کرنے کا گُر جانتا ہے اِس لیے اکثر حکمران اُس سے مشورے لیتے رہتے ہیں ، وہ چونکہ کامیاب بزنس مین ہے اِس لیے اُس کے بیانات کو اخبارات میں خاصی نمایاں جگہ پر شائع کیا جاتا ہے ۔یوں تو یہ سرمایہ دار ہے مگر اِس کے دل میں غریبوں کا بھی بہت درد ہے ، اکثر جب یہ مجھ سے غریبوں کی محرومیوں اور اُن کی حالت زار کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اِس قدر جذباتی ہوجاتا ہے کہ ہچکیاں لے کر رونے لگتا ہے ، ایسا عموما ًتب ہوتا ہے جب وہ بیرون ملک سے مجھے فون کرتا ہے ، آخری مرتبہ اُس نے مجھے میامی کے ساحل پر واقع اپنے ہوٹل سے فون کیا تھا اور کہا تھا کہ ملکی معیشت کی تباہی پر اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد غریب آدمی کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا ، لوگ اپنے بھوکے بچوں کو کھانا کیسے کھلائیں گے ، غریب بچیوں کی شادیاں کیسے ہوں گی ،ملک میں کہیں خونی انقلاب نہ آجائے ۔۔۔یہ کہتے کہتے اُس کا گلا رُندھ گیا اور پھر اچانک وہ خاموش ہوگیا ، مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو، لیکن پھر مجھے اُس کی کڑکتی ہوئی آواز سنائی دی، وہ بیرے کو انگریزی میں ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ اُس کی ڈرنک غلط بنا کر لے آیا ہے ۔گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آکر حکومت کو مشورہ دے گا کہ اگر معیشت ٹھیک کرنی ہے تو انڈسڑی کو بلا سود قرضے فراہم کرنے کی سہولت دی جائے ، اسی طریقے سے معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔ اسی دوران بیرا اُس کی ڈرنک لے آیا اور اُس نے پاکستانی غریبوں کے غم میں روتے روتے بالآخر فون بندکردیا۔ مجھے نہیں علم کہ پاکستان آنے کے بعد اُس نے حکومت کو یہ مشورہ دیا یا نہیں البتہ مجھے یہ ضرور پتا چلا کہ اُس نے اپنے کارخانے کے نو سو مزدور ایک ہی دن میں کھڑے کھڑے فارغ کردیئے ہیں۔ وہ مزدور اب کسی تیسری دنیا میں جی رہے ہیں ۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ممکن ہے ہماری کائنات کے علاوہ کوئی متوازی کائنات بھی ہو جہاں وقت الٹا گزرتاہو ، شاید یہ متوازی کائنات ہماری کائنات کے ساتھ ہی وجود میں آگئی ہو اور ایک سیکنڈ کےہزارویں حصے میں روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلی ہواور اربوں سال پہلے ہونے والے اِس عمل کے نتیجے میں دوسری کائنات میں ہم جیسی ہی دنیائیں آباد ہوں جہاں ہمارے ہمزاد بستے ہوں ۔ کچھ سائنس دان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بظاہر لامتناہی نظر آنے والی یہ کائنات لا متناہی نہیں کیونکہ اگر یہ لامتناہی ہوتی تو پھر ہمیں اپنی ہی جیسی کائنات ، اپنے جیسے لوگ اور اپنی جیسی دنیائیں مل جاتیں مگر اب تک ایسا نہیں ہوا اور شاید آئندہ بھی اِس کا کوئی امکان نہیں ۔ظاہر ہے کہ اِن باتوں کا کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا ، فی الحال یہ سب تھیوریاں ہی ہیں اور ہماری زندگیوں میں شاید یہ باتیں افسانوی کہانیوں سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔ البتہ جس دنیا میں ہم رہ ہے ہیں اُس کے اندر کئی جہان آباد ہیں ، کئی دنیائیں ہیں اور شایدمتوازی کائنات بھی ہے۔ایک عام آدمی یا عورت کی دنیا کے مسائل ، دکھ ، درد ، غم اور خوشی دوسری دنیا سے بالکل مختلف ہیں ۔ اور دوسری دنیا میں جو لوگ بستے ہیں اُن کی نظر میں غربت کا مارا ہوا آدمی متوازی کائنات میں رہتا ہے جس کا انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ وہ وجود بھی رکھتی ہے یا نہیں ۔اپنے بچوں کا علاج کروانے والی لاچارعورت جس دنیا میں رہتی ہے وہ دنیا اُس سے بالکل الگ ہے جس میں ایک سرمایہ دار صبح اٹھ کر اپنے کارخانے کے نو سو مزدوروں کو نوکری سے فارغ کردیتا ہے اور پھر میامی کے ساحل پر غم غلط کرنے چلا جاتا ہے ۔اور رہی ہماری بات تو ہم ایک تیسری دنیا میں رہتے ہیں ،یہاں سے ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے اسے حتمی سچائی سمجھ بیٹھتے ہیں ، اپنے کہے کو حرف آخر اور اپنے لکھے کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں ، ایسے میں کوئی ہمیں متوازی کائنات کی تصویر دکھانے کی کوشش کرے تو ہم اُس کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو صرف کہانیاں ہیں جن کو کوئی وجود نہیں ۔ جبکہ یہ تمام کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں ، بس ہمارے پاس متوازی کائنات میں سفر کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں !
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم)
فیس بک کمینٹ