جس ملک کے سرکاری افسران ہاورڈ، سٹینفورڈ ، وارٹن، آکسفورڈ اور کیمبرج سے فارغ التحصیل ہوں اور قابلیت میں اُن کاکوئی ثانی نہ ہو،جس ملک کےسیاستدانوں میں ایثار کا جذبہ ایساہو کہ بطور رکن ِاسمبلی اپنی جائز تنخواہ بھی وصول نہ کرتے ہوں ،جس ملک میں فوج سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دیتی ہو، حزبِ اختلاف آئین کی بالادستی کی جنگ لڑ رہی ہو،وکلا قانون کا علم تھامے کھڑے ہوں،مدرسوں سے ہر ماہ صالح نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار ہوکر نکلتی ہو، لکھاری اپنے خدا کو حاظر ناظر جان کر صرف سچ لکھتے ہوں،ارب پتی تاجر اپنی آمدن کا نصف حصہ غریبوں میں بانٹ دیتے ہوں،ہر سال تین چار لاکھ لوگ حج اور عمرہ کرنے کے بعد پوتّر ہو کر واپس آتےہوں اور ملک کاعام شہری اٹھتے بیٹھتے اِس ملک سے محبت کا دم بھرتا ہو، پھر اُس ملک کی یہ حالت کیسے ہوسکتی ہے جو اِس وقت ہماری ہے ؟میں کئی برس سے اِس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں ،ویسےیہ کوئی ایسا مشکل سوال بھی نہیں کہ جس کا جواب ڈھونڈنے میں برسوں لگ جائیں ،سامنے کی بات ہے کہ اِس سوال میں ادھورا سچ بیان کیا گیا ہے،اگر ہم پورے سچ کی کھوج لگائیں گے تو جواب آسانی سےمل جائے گا،مصیبت مگر یہ ہے کہ پورا سچ کون لکھے!سچ کی کھوج لگانے کے لیے بات کی گہرائی میں جانا پڑتا ہے ، بات کی گہرائی میں جانے کے لیے دماغ کھپانا پڑتا ہے اور دماغ کھپانے کے لیے دماغ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔جس طرح بعض لوگ روپے پیسے کے معاملے میں کنجوس ہوتے ہیں اوراپنی ذات پر دھیلا خرچ کرنے سے پہلے بھی ہزار مرتبہ سوچتے ہیں ، اسی طرح کچھ لوگ ذہنی طور پر کنجوس ہوتے ہیں اور ذہن کو استعمال نہیں کرتے ، اِس قسم کے ذہنی کنجوس لوگوں کو cognitive miser کہا جاتا ہے ۔ امریکی انجمن برائے نفسیات کے مطابق ذہنی بخیل وہ شخص ہوتا ہے جو پیچیدہ مسائل پر فکر و تدبر سے کام لینے کی بجائے فوری اور آسان حل کو ترجیح دے ،اس منفی تعبیر کے باوجود، یہ اصطلاح لوگوں میں ایک عمومی رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، یعنی، روز مرہ زندگی میں لوگ فیصلے کرنے اور کسی بات کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں ذہنی شارٹ کٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
سوال پر واپس آتے ہیں۔اگر ہم تحقیق کریں تو پتا چلے گا کہ اِس وقت ملک کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی ایک بھی افسر ایسا نہیں جس نے غیر ملکی یونیورسٹی سے فینسی قسم کی سند حاصل نہ کی ہو ،آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، افسران نے اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں ، وہاں جا کر اِن کا تعارف پڑھ لیں،ایسے لگے گاجیسے انہوں نے نوکری کم کی ہے اور ڈگریاں زیادہ اکٹھی کی ہیں ، کسی نے اقوام متحدہ میں کام کیا ہے تو کوئی ورلڈ بنک میں جھنڈے گاڑ کر آیا ہے، چلیے اچھی بات ہے، مگر کیا اِن ڈگریوں کی مدد سے سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر ہوئی ؟ یہ جاننے کے لیے سرکاری افسران کی سندیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ، فقط اُن کے دفتر کا چکر لگانے سے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ وارٹن سکول سے ایم بی اے کرنے والے کی منیجمنٹ کیسی ہے! سیاستدان چونکہ آسان ہدف ہیں سو اُن کی بات بھی کر لیتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ بعض ارکان ِ اسمبلی اپنی تنخواہیں وصول نہیں کرتے ، یہ بھی درست ہے کہ اُن کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ،اِس بات میں بھی وزن ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت اِس وقت مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ، کچھ ارکان کے پاس ذاتی گھر اور گاڑی تک نہیں ۔۔۔اِن تمام باتوں میں دم ہے مگر یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سیاستدان اِس ملک کو ایسا نظام دینے میں ناکام رہے ہیں جس میں عوام کوبنیادی انسانی حقوق اور سہولتیں میسر ہوں ۔اسی طرح اگر کوئی تجزیہ نگار آپ کو ٹی وی پر چنگھاڑتا ہوا نظر آتا ہے تواُس کی اداکاری سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ، فقط یہ دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ، اُس کی باتوں کی پڑتال کریں ،اُس کے گزشتہ ٹی وی پروگرام تلاش کرکے دیکھیں اور تحریریں نکال کر پڑھ لیں ، اُس کے تضادات از خود سامنے آجائیں گے ۔ لیکن یہ سب کچھ بخیل ذہن کے ساتھ کرنا ممکن نہیں ، اِس کام کے لیے دماغ کو خرچ کرنا پڑے گا۔اسی طرح اگر کوئی ارب پتی تاجر کہتا ہے کہ وہ اپنی دولت کا بڑا حصہ غریبوں کو مفت روٹی کھلانے میں صرف کرتا ہے تو اُ س سے متاثر ہونے کی بجائے یہ پتا چلانے کی کوشش کریں کہ اُس نے اپنی آمدن پر کتنا ٹیکس دیا ہے ، پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ دس ارب روپے ٹیکس کی مد میں دینے کی بجائے ایک کروڑ روپےکی روٹیاں کھلانا زیادہ ’افضل ‘ہے ۔عین ممکن ہے کہ اِس بات کا فتویٰ اُس نے کسی مدرسے کو چندہ دے کر حاصل کیا ہو!
آئین کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والوں کا ذکر بھی ہوجائے۔آج کل ہر شخص یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اِس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے، یہ بہت دلچسپ بات ہے ، کیونکہ یہ دعویٰ کرنے والے ہر طبقے میں موجود ہیں ، میڈیا، سیاستدان، وکلا، فوج، حکومت،ہر کسی کا یہ کہنا ہے کہ وہ قانون کے ساتھ کھڑا ہے، آئین کا پرچم اُس کے ہاتھ میں ہےاور وہ فسطائی قوتوں سے برسرپیکار ہے ۔سچ کیا ہے ؟سچ یہ ہے کہ ہر شخص، ہر طبقہ، ہر گروہ اور ہر جماعت اپنی سہولت اور مفادکے مطابق آئین اور قانون کے ساتھ کھڑی ہے۔مثلاًایک شخص کو پولیس گھر سے اٹھا کر لے جاتی ہے ، اُس پر جھوٹا سچا مقدمہ بنایا جاتا ہے ، دودن تھانے میں رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ، وہاں اُس کی ضمانت ہوجاتی ہے ، رہا ہونے کے بعد وہ شخص کہتا ہے کہ ملک میں فسطائیت ہے اور وہ اِس فسطائی نظام کے خلاف لڑے گا۔ بظاہر یہ قابل ستایش عمل ہے جس کی ہر ذی شعور اور جمہوریت پسند شہری کو حمایت کرنی چاہیےمگر یہ مکمل سچ نہیں ،یہ کچا سچ ہے جسے کچھ لوگ ذہنی شارٹ کٹ کی وجہ سےقبول کرلیں گے ۔اگر ہم معاملے کی گہرائی میں جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک سال پہلے تک مخالفین پر جھوٹے الزامات لگاتا تھا، انہیں کافر اور غدار کہہ کر اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلاتا تھا، خواتین صحافیوں کو غلیظ گالیاں دیتا تھا اور اُن تمام اقدامات اور قوانین کی حمایت کرتا تھا جن کے تحت آج کی تاریخ میں اُس پر مقدمہ ہوااور وہ آج بھی اپنے کیے کو غلط نہیں سمجھتا، آئندہ موقع ملے گا تو یہی کچھ کرے گا۔اب کس سچ کی حمایت کی جائے؟
اِس سوال کا جواب جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ ماضی میں غیر آئینی قوتوں کے آلہ کار آج کہاں کھڑے ہیں؟ اِس بات کا کھوج لگانے کے لیے بھی ذہنی مشقت درکار ہے ، آپ کو نہ صرف تاریخ کھنگالنی ہوگی بلکہ اپنے ذہن سے تعصبات کو صاف کرکے دیکھنا ہوگا کہ وہ تمام گروہ اور کردار جو ماضی میں غیر جمہوری اور غیر آئینی کاموں کا نہایت اطمینان کے ساتھ دفاع کرتے رہے اور اُن کے ضمیر نے انہیں ذرا برابر بھی ملامت نہیں کی ، آج وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔اگرا ٓج وہ لوگوں کو آئین اور قانون کا سبق پڑھا رہے ہیں تو کیا یہ سبق انہوں نے ماضی سے سیکھا ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ماضی میں انہوں نے جن غیر آئینی کاموں کا دفاع کیاتھا ، اُن سے مستقبل میں مکمل اجتناب کرنے کا عہد کریں ۔اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو پھر اُس کی آئین اور قانون کی دہائی فریب ِنظر کے سوا کچھ نہیں !
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم)
فیس بک کمینٹ