ایسے ہی ایک دن بیٹھے بٹھائے میں نے سوچا کیوں نہ اپنی پسند کے تمام گانے ایک یو ایس بی میں بھروا لیے جائیں، کھٹ سے گاڑی نکالی اور ایک میوزک اسٹور کے باہر پہنچ کر بریک لگائی، دکان میں انیس بیس برس کا ایک لڑکا موجود تھا، میں نے اپنی پسندیدہ فلموں کی فہرست اسے تھمائی اور کہا کہ ان فلموں کے گانے بھر دو، اُس نے فہرست پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر بولا کہ یہ چاندنی کون سی فلم ہے، کیا بہت پرانی ہے؟ اس سوال پر میں سٹپٹا گیا، عجیب نا معقول لونڈا ہے، جسے چاندنی فلم کا نہیں پتا، بہ دقت تمام اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ایسی پرانی بھی نہیں، یہی کوئی 89/90میں آئی ہوگی۔ اس پر وہ غریب معصوم سی شکل بنا کر بولا ’’تو سر پرانی ہی ہوئی نا!‘‘ اب میرا ماتھا ٹھنکا، غور کیا بیچارہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا، جو فلم اُس کی اپنی پیدائش سے دس گیارہ برس پہلے آئی تھی، اسے وہ پرانی نہ کہے تو اور کیا کہے! ہم سے پچھلی جنریشن کے لوگوں کی نظر میں بالی ووڈ کی موسیقی کا عروج سن 50سے 70کی دہائی تک تھا جب بھارتی فلم نگری پر اوپی نیر، نوشاد اور شنکر جے کشن جیسے میوزک ڈائریکٹرز کا راج تھا، آر ڈی برمن کو عروج سن 70کے بعد ملا۔ مگر ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے۔ بالی ووڈ کے گانوں کا عروج ستّر کے عشرے تک رہا یا نوّے کی دہائی تک، ایک بات طے ہے کہ اکیسویں صدی کی فلم سے موسیقی ختم ہو رہی ہے، آج جب آپ سنیما میں فلم دیکھ کر باہر نکلتے ہیں تو اُس کا کوئی گانا گنگناتے ہوئے نہیں آتے، کیونکہ فلم میں ایسا کوئی گانا ہوتا ہی نہیں جو آپ کا دل موہ لے۔ (استثنا ہمیشہ رہیں گے جیسے کہ فلم ’’سنجو‘‘ کا گانا ’’کر ہر میدان فتح‘‘)
جس دور میں بالی ووڈ کے گانے سپر ہٹ ہوا کرتے تھے وہ دور میوزک ڈائریکٹرز کی بادشاہت کا دور تھا۔ یہ میوزک ڈائریکٹرز لتا، رفیع، کشور، آشا اور مکیش جیسے دیو قامت گلوکاروں کے ساتھ بیٹھتے تھے، کئی کئی دن گانوں کی مشق ہوا کرتی تھی، فلم کے ہیرو ہیروئن کی طرح ان کی پذیرائی کی جاتی تھی، فلم کا آدھا بجٹ تو میوزک پر ہی خرچ ہو جاتا تھا۔ میوزک ڈائریکٹر کا کام زیادہ تر تھیوری سے متعلق ہوا کرتا تھا، مثلاً وہ یہ طے کرتا تھا کہ گانا راگ بھیروی میں بنے گا یا راگ درباری میں، اس میں دو انترے ہوں گے یا تین، گانے میں ’’پیس‘‘ کیسے لگائے جائیں گے۔ 40کی دہائی میں گانوں کا انداز یوں ہوا کرتا تھا کہ جب گلوکار گاتا تھا تو اس کے بعد ساز اسی دھن کو نقل کرکے دوبارہ بجائے جاتے تھے، اسے repeatکہا جاتا تھا، پھر مغرب سے آرکسٹرا کا تصور آیا اور گانے کا انداز بدلا جس میں گلوکار کے گانے کے بعد ساز اسی دھن کی نقل میں نہیں بلکہ ایک مختلف پیس بجاتے تھے جسے آرکسٹرا پیس کہا جاتا ہے، اسی طرح گائیکی کے دوران پس منظر میں ہلکے ہلکے ساز مسلسل متضاد سروں میں بجتے ہیں جنہیں counter pointکہتے ہیں، یہ بھی مغرب سے درآمد شدہ ہے، بالی ووڈ میں صرف میلوڈی تھی یعنی سروں کی ترتیب، جتنے راگ راگنیاں ہیں وہ دراصل سروں کی ترتیب ہے، اس سے میلوڈی کا مزاج بنتا ہے جسے ہم نے صبح، دوپہر اور شام کے اوقات سے مخصوص کر دیا ہے کہ فلاں راگ شام کا ہے، فلاں صبح کے لیے موزوں ہے۔ جنوبی ایشیا کی موسیقی ایک لحاظ سے محدود بھی تھی اور غیر محدود بھی۔ محدود اس لیے کہ اس میں آرکسٹرا یا کاؤنٹر پوائنٹ نہیں تھے اور لا محدود ایسے کہ مغربی موسیقی کے برعکس جہاں ایک ایک notationکاغذ پر لکھی ہوتی ہے، یہ موسیقی اس سے ماورا تھی، خاں صاحب آزاد ہوتے، improviseکرتے، راگ کے اندر رہتے مگر ایسے کھیلتے کہ انہیں کاغذ میں notationکی شکل میں ڈھالنا ممکن نہ رہتا، بڑے غلام علی خان اس کی مثال ہیں۔ خیر یہ بات کہیں اور نکل گئی۔ بالی ووڈ کے میوزک ڈائریکٹرز پر واپس آتے ہیں، میوزک ڈائریکٹر ان سب چیزوں کی ترتیب لگاتا تھا، میلوڈی بناتا تھا، یہ طے کرتا تھا کہ بنیادی سُر کون سا ہوگا، آرکسٹرا کیسے بجے گا، کاؤنٹر پیس کیسا ہوگا، راگ کون سا استعمال کیا جائے گا، کتنے وائلن بجیں گے وغیرہ۔ اس تمام تھیوری کو عملی جامہ ایک اور شخص پہناتا تھا جسے arrangerکہتے تھے، یہ بے حد اہم شخص ہوتا تھا، گلوکاروں کو لے کر بیٹھنا، ان کی ریہرسل کروانا، سب ارینجر کا کام ہوتا، اس کی مدد کے لیے ایک کمپوزر ہوتا، اگر کوئی موسیقار درست ساز نہ بجا رہا ہوتا تو کمپوزر اسے بجا کے دکھاتا کیونکہ وہ انہی میں سے پروموٹ ہو کر آیا ہوتا تھا مگر یہ ارینجر اور کمپوزر بیچارے گمنام ہی رہتے، ہِٹ گانے کی داد میوزک ڈائریکٹر اور گلوکار سمیٹتے۔
سو یہ وہ انتظام تھا جس کے بل پر بالی ووڈ کے گانے اور فلمیں سپر ہٹ ہوتے تھے، یہ سب اب ناپید ہو رہا ہے کیونکہ فلم کے موضوعات بدل رہے، فلم یا تو انٹرٹینمنٹ کے لیے ہوتی ہے یا حقیقت کے اظہار کے لیے، کوئی فلم جتنی تفریحی ہو گی اتنی حقیقت سے دور بھی ہوگی مثلاً ایک تفریحی فلم کا ہیرو جو ویسے ایک شریف آدمی دکھایا گیا ہوگا، لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہو جائے گا اور یکایک گانا گانے لگ جائے گا، اسی طرح ایک شریف خاتون بھی جواب میں ٹھمکے لگا کر باغ میں ناچنا شروع کر دے گی، اور لوگ خوش ہوں گے۔ حالانکہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اب چونکہ فلمیں حقیقت کے قریب بننے لگی ہیں تو ایسے گانوں کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے، اب گانا اسی صورت میں ہوگا جب وہ حقیقت میں کسی کلب میں گایا جا رہا ہوگا یا پس منظر میں گایا جائے گا جیسے عامر خان نے ’’دنگل‘‘ میں یہ تجربہ کیا۔ اب چونکہ فلم بنانے کی تکنیک بہت جدید ہو چکی ہے، ایکشن اور ایڈیٹنگ کے ذریعے فلم بینوں کو مسحور کیا جا سکتا ہے سو ہدایتکار اب روایتی گانوں کے بجائے دیگر ذرائع سے فلم بین کو تفریح مہیا کر رہے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ ہم آرزو لکھنوی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، شلندر، گلزار اور جاوید اختر سے تقریباً محروم ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے فلمی گیتوں سے اردو کی ایسی خدمت کی جو شاید کوئی اور نہ کر سکتا، ہمارے بعد آنے والی نسل کو اردو سے جو تھوڑی بہت آشنائی ہے وہ انہی اردو گیتوں کی مرہونِ منت ہے جسے ہندتوا کے ڈر سے سیاسی طور پر ہندی کہا جاتا ہے۔ چند برس کی بات ہے یہ اردو گیت پھر ختم ہو جائیں گے، فقط یادیں رہ جائیں گی کہ ساحر لدھیانوی لاہور میں رہتے تھے، بلراج ساہنی اور دیو آنند گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے، کامنی کوشل کنیرڈ کالج کی اسٹوڈنٹ تھی، یش چوپڑہ کے بڑے بھائی بی آر چوپڑہ میکلوڈ روڈ لاہور سے فلمی رسالہ نکالتے تھے، ’’اے دل مجھے بتا دے‘‘ کی اداکارہ شیاما گڑھی شاہو لاہور میں رہتی تھی اور برصغیر کا سب سے بڑا گلوکار محمد رفیع لاہور سے بمبئی گیا تھا۔ کیا زمانہ تھا، سب ختم ہو گیا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ