بہت دنوں کی سوچ بچار کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ الف سے بحث میں کوئی نہیں جیت سکتا، آپ اُسے کسی ٹاک شو میں بٹھا دیں، کسی سیاسی جماعت کے رکن سے بھڑا دیں یا پھر کسی بھی معاملے میں اُس کی رائے سے اختلاف کرنے کی کوشش کریں، الف آپ کو بزور گفتگو چاروں شانے چِت کر دے گا۔ اِس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہوں مناسب ہوگا کہ الف سے آپ کا تعارف کروا دوں۔ الف ایک جوشیلا نوجوان ہے، ایم اے پاس ہے، نوکری کی تلاش میں ہے، لڑکپن اُس نے نسیم حجازی کی کتابیں پڑھ کر گزارا جس کی وجہ سے اُس کا اسلامی تاریخ کا علم حیرت انگیز ہے جبکہ اسکول سے لے کر کالج تک مطالعہ پاکستان اس کا پسندیدہ مضمون رہا، انہی خصوصیات کی بنا پر وہ مسلسل دو سال تک اپنے کالج کا بہترین مقرر بھی رہا، لوگ اس کی تقریر سن کر مبہوت ہو جاتے، اپنی تقریر میں وہ ایسے ایسے دلائل اور واقعات سناتا کہ لوگ تالیاں بجا بجا کر ہال کی چھت اڑا دیتے۔ یونیورسٹی میں بھی الف کی مقبولیت کا یہی عالم رہا، یہاں اُسے اُن اساتذہ سے فیضان حاصل کرنے کا موقع ملا جنہوں نے بیک وقت اردو، تاریخ، سیاسیات اور فلسفے میں ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ ہومیو پیتھی کا کورس بھی کر رکھا تھا، اُن کی صحبت میں رہ کر الف کی گفتگو مزید نکھر گئی اور وہ کندن بن گیا۔ الف کا ڈسا ہوا اب پانی نہیں مانگتا کیونکہ اپنی خدادا صلاحیت اور بے پناہ مطالعے کے زور پر الف اچھے خاصے محققین کے چھکے چھڑا دیتا ہے۔ ایک مرتبہ یونیورسٹی نے سیاسیات کے ایک استاد کو جو سٹینفورڈ یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی تھا، اپنے ہاں لیکچر کی دعوت دی، اُس کے خطاب کا موضوع تھا جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور جنگ کے منڈلاتے بادل، جب سوال جواب شروع ہوئے تو الف نے تقریباً پندرہ منٹ کا تقریر نما سوال کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایٹمی ہتھیار شو کیس میں سجا کر رکھنے کے لئے نہیں ہوتے، ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ضرورت پڑی تو ہم سوا ارب کے ہندوستان کو ملیامیٹ کر دیں گے اور اگر جواب میں ہندوستان نے بم چلانے کی کوشش کی(گویا ہم بم چلا دیں گے اور ہندوستان صرف کوشش کرے گا) تو ہم مسلمانوں کے لئے خدا کی زمین تنگ نہیں، پچاس مسلمان ملک ہیں ہم کہیں بھی رہ لیں گے۔ اِس شعلہ بیانی پر مسلسل پانچ منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ اُس غریب پروفیسر نے جواب میں کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کی مگر کون سنتا ہے، کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا وہ رخصت ہوگیا۔
سو جناب یہ ہے الف کا مختصر تعارف۔ میری الف سے ملاقات کچھ زیادہ پرانی نہیں، چند ماہ پہلے کسی ٹی وی چینل نے یونیورسٹی میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا تھا، میری بدقسمتی کہ وہیں بحث کے دوران میں نے الف سے سینگھ پھنسا لئے، بات یہ ہو رہی تھی کہ ایک سازش کے تحت پاکستان کی ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو برباد کیا جارہا ہے، حسب عادت میں نے غلطی سے کہہ دیا کہ پہلے اِس بات کا ثبوت تو دیا جائے کہ ہماری کوئی اخلاقی اقدار ہیں اور اُن پر واقعی کسی سازش کے تحت یلغار کی جارہی ہے! الف کے لئے یہ’’لوز بال‘‘ کافی تھی سو اُس نے بلا گھما کر ہٹ لگائی اور گیند بائونڈری لائن سے باہر پھینک دی، خوب تالیاں بجیں۔ مباحثے کے بعد ہم دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور ہماری کچھ دوستی سی ہوگئی، رفتہ رفتہ مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی الف سے بحث میں کوئی نہیں جیت سکتا کیونکہ اُس کا طریقہ استدلال بہت دلچسپ ہے، مثلاً اگر آپ الف کو کہیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا چاہئیں تو جواب میں موصوف فرمائیں گے کہ کیا آپ نے کبھی پولیو ویکسین کی ڈبی پڑھی ہے، اُس پر صاف لکھا ہوتا ہے کہ اِن قطروں کو پلانے سے کون کون سے بیماریاں اور مضر اثرات ہو سکتے ہیں، کیا آپ ان اثرات کا خطرہ مول لے کر اپنے بچے کو یہ قطرے پلائیں گے؟ اب ظاہر ہے کہ یہ دندان شکن دلیل ہے، مگر اِس بات کا کیا کیجئے کہ دنیا کی ہر دوا حتیٰ کہ سر درد جیسی سادہ دوائی کی ڈبی پر بھی اِسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس کی تفصیل لکھی ہوتی ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی طبی اصول ہے۔ الف کو اگر آپ یہ جوابی دلیل دیں گے تو وہ آپ کو یہ کہہ کر خاموش کروا دے گا کہ جناب یہ بین الاقوامی طبی اصول نہیں بین الاقوامی سازش ہے، بات ختم۔ الف کی زنبیل میں مدمقابل کو خاموش کروانے کے کئی ہتھیار ہیں جن میں سے کچھ تو بےحد مہلک ہیں، مثلاً اسلامی تاریخ کے وہ حوالے جو الف نے لڑکپن میں پڑھے تھے اور پاکستان کی وہ تاریخ جو اسے کالج میں پروفیسر ڈاکٹر چراغ دین الفت نے پڑھائی تھی، ان پروفیسر صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع تھا ’’پاکستان کی تخلیق میں جنات کا کردار‘‘۔ اِس کے علاوہ الف نے دنیا جہان کے فیس بک چینلز کی رکنیت حاصل کر رکھی ہے جہاں سے وہ روزانہ ایسی ایسی معلومات حاصل کرتا ہے جو کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔ جہاں اِن حوالوں سے بھی بات نہ بنتی ہو وہاں الف مدِمقابل کی ذات پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی کمزوریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے، اگر حریف تب بھی اپنے موقف پر ڈٹا رہے تو الف اسے ملک دشمن، امریکی ایجنٹ اور بالآخر غدارِ وطن کہہ کر خاموش کروا دیتا ہے۔ الف کی اِنہی صلاحیتوں کی بنیاد پر میں اُس کی شخصیت کا دلداہ ہوں، وہ دن دور نہیں جب اِس ملک کی تقدیر الف جیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ ستاروں پر کمند ڈال کر اسلام کا ایک قلعہ کسی ستارے پر بھی بنا لیں گے۔
کالم کی طویل دم: میرے محبوب روحانی کالم نگار نے پانچ روز پہلے جنگ میں لکھا کہ ’’جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اُس وقت مسلمانوں میں شرح خواندگی تقریباً 76فیصد تھی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے روحانی استاد اور محقق ہیں، یقین نہیں آیا کہ وہ کوئی غیر مستند بات لکھ سکتے ہیں، حقیقت جاننے کے لئے میں نےCensus of India 1911, Punjab از پنڈت ہری کشن کول‘ سپریٹنڈنٹ سینسس آپریشنز‘ Results of the Census Punjab, 1891, West Pakistan Secretariat Library Copyاور Census of Punjab 1881, by Denzil Charlesکا جائزہ لیا مگر کہیں بھی شرح خواندگی 76فیصد والی بات ثابت نہیں ہوئی‘ بلکہ ان سرکاری دستاویزات کے مطابق 1911میں (متحدہ) پنجاب کی کل آبادی 24,187,750میں سے 899,195خواندہ افراد تھے یعنی ایک ہزار میں صرف سینتیس پڑھے لکھے(شرح خواندگی تین اعشاریہ سات فیصد) اور 1871-72کا احوال جاننے کے لئے خاکسار نے Memorandum on the Census of British Indiaکا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گو کہ اُس وقت ہندوستان کے بعض علاقوں میں مردم شماری نہیں ہو سکی تھی اور یوں اُس کے نتائج اِس حد تک درست نہیں کہے جا سکتے کہ اُن کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاسکے مگر نو صوبوں کے 123ملین افراد سے جب گوشوارے پُر کروائے گئے تو معلوم ہوا کہ صرف چار ملین خواندہ ہیں، یعنی تیس میں سے ایک فرد لکھ پڑھ سکتا ہے(گویا شرح خواندگی تین اعشاریہ تین فیصد)۔ اب میں اور کیا عرض کروں!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ