سچی بات ہے کہ جب میں کسی اداکارہ کو رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کرتے دیکھتا ہوں تو میرے دماغ میں اس کی فلم چلنے لگتی ہے جس میں اس نے ٹھمکے لگائے تھے، جب کوئی عفیفہ سر پر دوپٹہ اوڑھ کر رمضان کی برکتیں گنواتی ہے تو میرے ذہن میں اس کے ڈرامے کا وہ جذباتی سین آجاتا ہے جس میں وہ ٹائٹ شرٹ پہنے اپنے ہیرو سے اظہارِ محبت کرتی نظر آتی ہے اور جب کوئی اداکار چہرے پر نورطاری کرکے اعلان کرتا ہے کہ ناظرین حمد باری تعالیٰ سنتے ہیں تو لامحالہ میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جو فلموں میں لڑکیوں کو بانہوں میں لے کر گانے گاتے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں اپنے ذہن سے یہ خیالات جھٹک نہیں پاتا، آخر ماہ ِرمضان کا اپنا ایک تقدس ہے، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ سال کے گیارہ مہینے فلموں میں ناچنے گانے والے یکایک اٹھ کر ہمیں رمضان کے فیوض وبرکات پر لیکچر دینے لگیں، بیہودہ لباس پہننے والی اداکارئیں ہمیں گناہ وثواب کا میعار سمجھانے لگیں اور بھارتی گانوں پر ڈانس سکھانے والے ہمیں رمضان کے آداب سکھانے لگیں! اگر ہم نے اپنا دین انہی بھانڈ، مسخروں اور ….کے حوالے کرنا ہے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ دوسری طرف جب میں مذہبی وضع قطع والے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میری مایوسی دُگنا ہوجاتی ہے، کیا ہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ان کے اعلیٰ کردار کی گواہی دے سکتے ہیں، کیا ہمارا واسطہ آئے دن ایسے باریش تاجروں، نمازی افسروں اور ٹخنوں سے اونچی شلوار پہننے والے واعظ حضرات سے نہیں پڑتا جو گوڈے گوڈے منافقت میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا روزمرہ کے معاملات میں ان لوگوں کا لین دین کھرا ہوتا ہے، کیا یہ قول کے پکے ہوتے ہیں، کیا ان کا کاروبار خالص ہوتا ہے، کیا یہ لوگ اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں؟ یک لفظی جواب ہے، نہیں، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے درمیان کچھ صالح علماء موجود ہیں جنہیں دینی معاملات پر عبور حاصل ہے، وہ قادرالکلام بھی ہیں اور ان کے دامن پر ایسا کوئی داغ بھی نہیں، سو کہا جا سکتا ہے کہ رمضان ٹرانسمیشن ایسے لوگوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ اس بابرکت مہینے کا حق ادا ہو جائے۔
ٹی وی چینلز رمضان ٹرانسمیشن اس لیے کرتے ہیں کیونکہ سحر اور افطار کے وقت ہر شخص ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتا ہے، جس چینل کی ٹرانسمیشن بہتر ہو گی اس کی ریٹنگ زیادہ ہوگی، جس کی ریٹنگ زیادہ ہوگی اسے اشتہار زیادہ ملیں گے، مطلب زیادہ پیسے… اور پیسہ دنیا کی واحد چیز ہے جو سب کو پسند ہے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، ملحد، سائنسدان، سیاستدان، مولوی، پادری، کاہن، پروفیسر، تاجر، ڈاکٹر، کوئی ایسا نہیں جسے پیسہ نہیں چاہیے، پیسے کا کمال یہ ہے کہ مذہب، ذات پات، فرقہ طبقہ، پیشہ کچھ نہیں دیکھتا، یہ اس کے پاس چلا جاتا ہے جو اسے کھینچتا ہے، بقول بل کلنٹن
’’It’s the economy, stupid‘‘
ٹی وی چینلز بھی اسی پیسے سے چلتے ہیں اور اسی کو کھینچنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اگر انہیں رمضان میں کسی بولڈ ایکٹریس کے سر پر دوپٹہ دے کر بٹھانا پڑے تو بٹھا دیں گے، ویلنٹائن ڈے پر کسی مولوی کو اداکارہ سے بھڑانا ہو تو بھڑا دیں گے اور ٹاک شو میں کسی کی پگڑی اچھالنا ہو تو اچھال دیں گے۔ اس کا اخلاقیات سے کوئی لینا دینا نہیں اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہوئی وجہ کہ ٹی وی چینلز ایسا کیوں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انہیں ایسا کرنا چاہیے؟ سیدھا جواب ہے کہ نہیں، ٹی وی چینلز بہرحال ایک سماج کا حصہ ہیں، انہیں ایک اخلاقی ضابطے میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے، اگر ریٹنگ نے ہی سب کچھ طے کرنا ہے تو پھر کوئی ٹی وی چینل پاکستانی بے واچ بنا کر چلا دے، ریٹنگ آسمان کو چھولے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اداکاروں کو رمضان ٹرانسمیشن نہیں کرنی چاہیے تو پھر کن لوگوں کو کرنی چاہیے؟ اداکاروں سے ہم اس لیے نالاں ہیں کہ یہ گانے بجانے والے لوگ ہیں ان کا مذہب سے کیا تعلق، یہ پیسوں کے لیے رمضان ٹرانسمیشن میں دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں جو سیدھی سیدھی منافقت ہے، اب اگر ایک شخص کا کردار ہی مشکوک ہو تو وہ نیکی کی کیا خاک تلقین کرے گا، لوگ اس کی بات سنیں گے اور نہ ہی اسے سنجیدگی سے لیں گے، گویا رمضان کے پیغام کا سارا مقصد ہی فوت ہوگیا۔
چلیے! اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ متبادل ہمارے پاس دین دار حضرات کی شکل میں موجود ہے، مگر کیا کسی شخص کی ظاہری وضع قطع یا اس کا کسی خاص پیشے سے منسلک ہونا یا نہ ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ ایک اعلیٰ ٰکردار کا حامل شخص ہے، کیا کسی مدرسے کا فارغ التحصیل عالم رمضان ٹرانسمیشن کرنے کا اہل ہوگا یا کوئی باریش کرکٹر بھی یہ کام کر سکتا ہے، رمضان ٹرانسمیشن کی پابندی فلمی اداکاروں تک محدود ہوگی یا ٹی وی ڈراموں والیاں بھی اس کی زد میں آئیں گی، اگر دونوں ہی موزوں نہیں تو کیا کوئی اور خاتون یہ کام کر سکتی ہے، اگر ہاں تو اس کا لباس کیسا ہونا چاہیے، کیونکہ کچھ لوگوں کی تو یہ بھی خواہش ہوگی کہ خواتین سرے سے رمضان ٹرانسمیشن ہی نہ کریں، کوئی یہ بھی چاہے گا کہ خواتین ٹی وی پر ہی نہ آئیں اور کچھ حضرات تو عورت کو گھر تک ہی محدود کرنے کے قائل ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو عورت کے شٹل کاک برقع کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کو بےحیائی سمجھتے ہیں۔ سو کیا کوئی بتائے گا کہ ہمیں کہاں لکیر کھینچنی ہے؟
دراصل ہم نے یہ ذہن میں یہ فرض کرلیا ہے کہ دین کی بات ہمیں صرف وہی بتائے جس نے روایتی مذہبی تعلیم حاصل کر رکھی ہو، جو ہمارے نکاح اور جنازے پڑھا سکتا ہو، جو وضو اور غسل کے آداب بتا سکتا ہو، نماز اور زکوٰۃ کے مسائل کی تشریح کرسکتا ہو۔ بسم اللہ، ہمیں یہ باتیں ان سے ضرور پوچھنی چاہئیں جو اس کا علم رکھتے ہیں مگر ہم کسی شخص پر محض اس لیے پابندی نہیں لگا سکتے کہ چونکہ وہ اداکار ہے اس لیے وہ رمضان میں بھی ہمیں مت بتائے کہ نیکیوں کا کتنا ثواب ملے گا، ایسا کوئی اختیار ہم میں سے کسی کے پاس نہیں، کیونکہ اگر ہم نے ایسی کوئی پابندی لگانی ہے تو پھر اس بات کا اختیار کسی کو دینا پڑے گا اور جب آپ یہ اختیار کسی مخصوص طبقے کو دے دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے ملک میں اس مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم کر دی ہے۔ ہمارے آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔ باقی رہی بات مجھ ایسے لوگوں کی جنہیں ایکٹریسوں کو رمضان ٹرانسمیشن میں دیکھنا پسند نہیں تو ان کے لیے مولانا طارق جمیل درجنوں چینلز پر موجود ہیں اور بھرپور ریٹنگ لیتے ہیں، ٹیون کریں اور مفت میں ثواب سمیٹیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ