سچی بات ہے نہ تو مجھے سالگرہ کی خوشی ہوتی ہے اور نہ نئے سال کی۔ زندگی کا ایک برس کم ہونے پر بھلا آتش بازی کرنے کی کیا تُک ہے؟ اگر تو گھڑی کی سوئیاں یوں اُلٹی گھومتیں کہ انسان قبر سے بوڑھا برآمد ہوتا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ وہ جوانی کی طرف لوٹتا تو اُس صورت میں نئے سال کا جشن منانے کی منطق ہو سکتی تھی لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ اُس جوانی کا وقت بھی تو اُتنا ہی ہوتا جتنا اب ہے، بالآخر تو اُس ’ریورس‘ زندگی کا انجام بھی موت ہی ہوتا، فرق صرف اتنا ہوتا کہ اُس موت کے وقت کا تعین کیا جا سکتا! میں اِس قنوطی پن کے لیے معافی چاہتا ہوں، نئے سال کے موقع پر شُبھ شُبھ باتیں کرنی چاہئیں، اب باتیں ہی تو رہ گئی ہیں جِن پر اپنا اِختیار ہے۔
نئے سال کی شروعات پر ہر بندہ ہی راکٹ بنا ہوتا ہے، چونکہ سارا سال وقت ضائع کیا ہوتا ہے اِس لیے خود سے عہد کرتا ہے کہ اگلا سال اِس نظم و ضبط سے گزاروں گا کہ قائدِ اعظم کی روح خوش ہو جائے گی۔ چوبیس گھنٹوں میں سے چھ گھنٹوں کی نیند ہوگی، دو گھنٹے ورزش کے لیے مختص ہوں گے جبکہ سولہ گھنٹے انتھک محنت ہو گی، کھانے میں اُبلی ہوئی سبزیاں، سلاد کے پتے کھائے اور گھاس کھائی جائے گی اور پینے کے لیے نیم گرم پانی جس میں ذائقے کے لیے فقط لیموں نچوڑنے کی اجازت ہوگی۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں نئے سال کا یہ عہد نامہ ترتیب دیا جاتا ہے جس پر زیادہ سے زیادہ جنوری کے پہلے ہفتے تک عمل ہوتا ہے، اُس کے بعد دھیرے دھیرے ہم اِس عہد نامے کی خلاف ورزی شروع کرتے ہیں، سب سے پہلے تو ورزش (جو کبھی شروع ہی نہیں ہوئی ہوتی) ختم ہو جاتی ہے، بندہ سوچتا ہے کہ میں نے کون سا تن سازی کے مقابلوں میں حصہ لینا ہے کہ روزانہ دو گھنٹے جِم کروں لہذا وہ دو گھنٹے صبح گرم گرم لحاف میں گزارے جاتے ہیں۔ اُبلی ہوئی سبزیاں اور سلاد کے پتے بمشکل ایک ہفتے تک چلتے ہیں اُس کے بعد کسی نہ کسی شادی میں بد پرہیزی ہو جاتی ہے اور پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ رہا سولہ گھنٹے کام کرنا تو خدا غارت کرے نیٹ فلکس، انسٹاگرام اور اِس نوع کی دیگر خرافات کا، اِدھر آپ نے کام کے لیے کمر باندھی اُدھر فون پر کوئی شیطانی نوٹیفیکیشن آ گیا، ایسے میں بندے کی ساری موٹیوویشن ہوا ہو جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر روایت بھی کوئی چیز ہے، اور روایت کا تقاضا ہے کہ نئے سال کے موقع پر موٹیویشنل مضمون لکھا جائے۔ چلیے کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں موٹیویشن پر میں نے چند کتابیں پڑھی ہیں، کچھ کتابیں تو ایسی تھیں کہ جنہیں پڑھ کر بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی موٹیویٹ ہو جاتا ہے۔ مثلاٴ ایک خاتون لکھاری کی کتاب پڑھی جس کا نام تو حافظے میں نہیں البتہ اُس کا سبق یاد ہے کہ صبح کے پہلے دو گھنٹے بے حد اہم ہوتے ہیں، اِن گھنٹوں میں اگر آپ اہم کام نمٹا لیں (جنہیں ہم عموماٴ دن کے مختلف اوقات میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں) تو آپ کے پاس سُودمند کام کرنے کے لیے پورا دن بچ جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ کتاب اُس خاتون نے مغربی ممالک میں رہنے والوں کی روٹین کو ذہن میں رکھ کر لکھی تھی جو کپڑے دھونے سے لے کر گھر کی صفائی اور برتن دھونے تک سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔ یہ کتاب دراصل روز مرہ ڈسپلن کے بارے میں تھی جسے اپنا کر کوئی بھی شخص اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔ دوسری طرف بہت سی ایسی کتابیں بھی نظر سے گزریں جن میں کامیاب زندگی کی تعریف بتائی گئی تھی اور وہ اصول سمجھائے گئے تھے کہ جن پر عمل کرکے کوئی بھی شخص اپنی کایا کلپ کر سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ کتابوں میں مقدر اور محنت کے باہمی تعلق پر بحث کرکے یہ لطیف نکتہ ذہن نشین کروایا گیا تھا کہ انسان اپنا مقدر خود بناتا ہے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بد نصیب ہے اور اُس کی محنت رنگ نہیں لا رہی تو دراصل وہ بد قسمت نہیں بلکہ اُس کی منصوبہ بندی میں کوئی نہ کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ لیکن پھر کچھ ایسی کتابیں بھی دیکھیں جن میں خوش قسمتی، بد قسمتی، تقدیر اور مقدر کا فرق مثالوں سے واضح کرکے یوں بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی شخص مسلسل محنت کرے تو اُسے ثمر ضرور ملے گا اور گویا ایک طرح سے وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر بنائے گا لیکن اگر اُس شخص کی موٹر سائیکل کو کوئی اُس دن ٹکر مار جائے جس دن اُس نے نوکری کے لیے انٹرویو کی غرض سے جانا تھا تو یہ بد قسمتی کہلائے گی۔ اسی طرح کسی کتاب میں پرفیکشنسٹ ہونے کے فوائد گنوائے گئے تھے تو کسی کتاب کا مرکزی خیال یہ تھا کہ پرفیکشنسٹ ہونا دانشمندی نہیں۔
یہ کتابیں پڑھنے میں بہت لُطف دیتی ہیں مگر بعض اوقات یہ آپ کو پَژمُردہ بھی کر دیتی ہیں، بندہ سوچتا ہے کہ جس قدر کٹھن اصول اِن کتابوں میں بیان کیے گیے ہیں اگر وہ اُن پر عمل نہ کر سکا تو کیا وہ ناکام ہی رہے گا؟ اِس فقیر کی رائے میں اگر آپ بالکل کتابی زندگی گزارنا شروع کر دیں تو شاید آپ کامیاب تو ہو جائیں مگر اُس زندگی میں رَس نہیں ہو گا۔ پھر سوال پیدا ہو گا کیا ایسی زندگی گزارے جانے کے قابل بھی تھی یا نہیں؟ زندگی کا مقصد سردیوں میں صبح پانچ بجے اٹھ کر نہانا نہیں ہے، بلکہ اِس زندگی سے خوشی کشید کرنا ہے، البتہ یہ خوشی صحت مند رہ کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے لہذا صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اگر کچھ کرنا ضروری ہے تو وہ لازماٴ کیا جائے۔ اپنے ارد گرد جن لوگوں کو ہم اُن معنوں میں کامیاب دیکھتے ہیں جن کا ذکر سیلف ہیلپ کتابوں میں ملتا ہے، اُن لوگوں میں کوئی خداداد صلاحیت نہیں ہوتی، وہ بھی اوسط درجے کے لوگ ہوتے ہیں، تاہم اُن میں اور دوسرے لوگوں میں فقط تین باتوں کا فرق ہوتا ہے جن پر عمل کرکے کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ پہلی، زندگی میں آپ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے سوچ سمجھ کر ایک قابل عمل منصوبہ بنائیں، دوسری، اُس منصوبے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایکشن لیں چاہے یہ روزانہ ایک چھوٹا سا قدم اٹھانا ہی کیوں نہ ہو، اور تیسری، مستقل مزاجی کے ساتھ اُس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے مسلسل کام کریں اور ضرورت پڑنے پر منصوبے میں تبدیلیاں بھی کریں۔ اِن تین باتوں کے علاوہ ایسی کوئی راکٹ سائنس نہیں جو اُن لوگوں کے پاس ہے جنہیں آپ دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ کامیاب ہونے کے بعد جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اپنی عقل مندی اور دور اندیشی کے جو قصے سناتے ہیں انہیں رد کرنے کا کسی کے پاس اختیار نہیں ہوتا لہذا سُننے والا بیچارہ حسرت سے اِن کی شکل تکتا ہے اور سوچتا ہے کہ کاش اُس کے پاس بھی ایسی ذہانت و فطانت ہوتی۔ اِن قِصّوں کا فقط مزا لینا چاہیے اور اگر اِن میں کوئی کام کی بات ہو تو اُسے اُچک لینا چاہیے۔ بس اِس سے زیادہ میں آج کے دن آپ کو موٹیویٹ نہیں کر سکتا، یہ مضمون پڑھنے کے باوجود اگر آج بھی آپ اپنے بستر سے چھلانگ لگا کر نہ اٹھے اور خود سے یہ عہد نہ کیا کہ ہاں، شاباش تم کر سکتے ہو، تو الحمد اللہ ،میری طرح آپ کا اگلا سال بھی ضائع ہی ہو گا۔
فیس بک کمینٹ