سرتاج عزیز کے دورہ بھارت کی جب خبریں سنیں اور پڑھیں تو چچا غالب بہت یاد آئے کیا خوب فرما گئے ہیں
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
سرتاج عزیز کے دورہ بھارت کے حوالے سے دو حوالوں سے تنقید ہو رہی ہے ایک تو یہ کہ ان کو ایسے حالات میں بھارت جانا ہی نہیں چاہیے تھا جب بھارت سرحدوں ہر مسلسل گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے اور معصوم پاکستانی شہری شہید ہو رہے ہیں اور اس نے سارک کے حوالے سے بھی بہت شرمناک کردار ادا کیا ہے اور تو اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کا پانی بند کر کے اسے بوند بوند کا محتاج کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں دوسرے وہُ لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ بھارت تو چاہتا ہی یہی تھا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرے اس لئے اس نے ایسے حالات پیدا کئے سو سرتاج عزیز کا جانا ہماری سفارتی ضرورت تھا میں چونکہ تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے اس کو تاریخی حوالوں سے سمجھنا ہو گا ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے اس نے کوئی سات سو برس پہلے قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے اپنا مشہور زمانہ نظریہ عصبیت پیش کیا جس کو آج بھی ایک ماڈل کے طور پر لیا جاتا ہے اس نے قومی غیرت اور حمیت پر بڑا زور دیا ہے اور بڑا واضح کہا ہے کہ جس قوم سے غیرت اور حمیت رخصت ہو جاتی ہے اس کو زوال سی کوئی نہیں بچا سکتا علامہ اقبال بھی اپنی نظم غلام قادر روہیلہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں
غلام قادر روہیلہ برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص گزرا ہے جس نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں نکلوا ڈالیں اور مغل شہنشاہیت کے جبروت اور سطوت کی نشانی لال قلعہ میں تیمور اور بابر کی بیٹیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا۔
اقبال نے اقوام کے عروج و زوال کے اہم اسباب میں سے ایک اہم سبب پر روشنی ڈالی ہے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
علامہ اقبال نے برصغیر کی تاریخ کے اہم دردناک واقعے کی طرف اشارہ کریا ہے‘ جب غلام قادر روہیلہ نے لال قلعہ کے دیوان خاص میں جہاں کبھی شہاب الدین محمد شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاؤس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے‘ اسی دیوان خاص میں اس نے مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا اور خود خنجر پاس رکھ کر سوتا بنا لیکن مغل شہزادیاں ناچتی رہیں۔ اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ بولا:
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہو گی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب مغل شہنشاہیت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
خیر یہ عبرت ہے اُن اقوام کے لئے جو غیرت و حمیت کھو دیتی ہیں۔ شاطر انگریز نے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی سے ایک سبق اور بھی سیکھا کہ آخر دو مختلف قومیں (ہندو اور مسلمان) انگریزوں کے خلاف اکٹھی کیسے ہو گئیں اور انہوں نے مغل شہنشاہیت کے جھنڈے تلے آزادی کی جنگ کیسے لڑی۔ سو نئی پالیسی آ گئی یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ ابھی بھی بددیانت انگریز کی اس پالیسی کے اثرات برصغیر کے عوام بھگت رہے ہیں۔ مغل شہنشاہوں نے اپنی رواداری کی پالیسی سے جو زبردست اثرات اس خطے پر مرتب کئے وہ شاطر انگریز نے زبان، ثقافت، نصاب اور تاریخ کی تبدیلی سے ختم کر دیئے۔ سامراج کے زہریلے نصاب نے ہمارے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا کر دیں۔
سرسید احمد خاں کی زبردست حکمت عملی نے مسلمانوں کو سنبھالا اور ایسے دانشوروں کا گروہ وجود میں آیا جنہوں نے پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ آخرکار 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
سرتاج عزیز کو ڈپلومیسی کی زبان میں ایک معزز اور خودمختار قوم کے نمائندے کا بھی سٹیٹس نہیں دیا گیا پریس کانفرنس سے روک کر ویانا کنونشن کی دھجیاں اُڑا دی گئیں افغانستان کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی نےبڑے دھڑلے سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور ہم صرف مسکرا کر رہ گئے،مودی نے بھی نام لئے بغیر پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیا اور ہم حسب روایت ڈپلومیسی کا طبلہ بجاتے رہے اگر انسان میں غیرت اور حمیت ہو تو تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دینا ضروری ہوتا ہے یا ہم نے اب گاندھی کے فلسفے پر عمل کو ڈپلومیسی کا نام دے دیا ہے کہ اپنا دوسرا گال بھی آگے کر دیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی قوم تو ہم ہیں اور ہمیں ہی دہشت گرد کہا جا رہا ہے بھارت خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور ہم ہاتھ جوڑے مزاکرات کی درخواست کر رہے ہیں بھارت کا رویہ قصور وار ہو کر بھی جارحانہ ہے اور ہمارا بے قصور ہو کر بھی معذرت خواہانہ ہے ۔ بھارت اس وقت خطے میں ہونے والی بین الاقوامی گریٹ گیم کا حصہ بنا ہوا ہے وہ کشمیر اور پانی کے معاملے میں کبھی مزاکرات نہیں کرے گا بلکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہی گریٹ گیم کاُحصہ ہے
ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گرد ہیں کیا یہ لطیفہ نہیں ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد مودی ہمیں دہشت گرد کہہ رہا ہے جبکہ ہمارے سیکڑوں شہری اور جوان شہید ہو چکے ہیں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکاہے ہمیں اپنی اداؤں پر اب خود سے غور کرنا ہو گا کیونکہ اللہ آسمانوں سے فرشتے نہیں بھیجا کرتا قوموں میں اگر غیرت اور حمیت ہو تو وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتی ہیں