لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے ‘ نہیں ریساں شہر لہور دیاں’ اور پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے موقع پر یہ ثابت بھی ہو گیا. یوں تو سارا پاکستان ہی اس فائنل کا منتظر تھا لیکن اونچے برجوں والے شہر لاہور کو تو اس کی میزبانی کا شرف حاصل تھا. سارا شہر دلہن کی طرح سجایا گیا تھا پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر اور سارے پاکستان کی نظریں زندہ دلان لاہور کے جوش و خروش اور عزم و حوصلے پر تھیں. قذافی سٹیڈیم میں ہزاروں افراد کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت بہت سی شخصیات موجود تھیں جن میں نجم سیٹھی، چیئرمین پی سی بی شہریار خان، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور، آئی جی پولیس مشتاق احمد سکھیرا، گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا، مریم اورنگزیب، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، ریاض پیرزادہ، ریحام خان، شیخ رشید احمد، اور دیگر شامل ہیں. ویسے بھی اتوار کی وجہ سے چھٹی کا دن تھا. سوشل میڈیائی خبروں کے مطابق تو لاہور میں گویا کرفیو لگا تھا سارے شہر کو سیل کر دیا گیا تھا لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی. سارا دن گلی محلوں میں لڑکے کرکٹ فیور میں مبتلا رہے اور پشاور زلمی یا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بنے میچز کھیلتے رہے. جن کے پاس ٹکٹ تھے وہ شام ہونے کے بےچینی سے منتظر رہے. لاہور سارا دن اور فائنل کے دوران بھی کھلا رہا البتہ مشکوک افراد کی چیکنگ ضرور کی جاتی رہی. لیکن یہ بہت ضروری تھا. لاہور پریس کلب میں بڑی سکرین پر ممبرز اور ان کی فیملیز کے لیے میچ دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا. ہم نے پریس کلب میں میچ دیکھا. علامہ اقبال ٹاؤن سے پریس کلب جاتے ہوئے لاہور کی شاہراہیں، بازار، راستے اور عمارات رنگ برنگی روشنیوں سے منور تھیں پورا شہر گویا قوس قزح کے رنگوں سے سجا ہوا تھا. مجھے یوں لگا کہ لاہور کو اپنی خوبصورتی اور زندہ دلی دیکھ کر شاہان مغلیہ کا دور یاد آ رہا ہو گا جب اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا. پریس کلب سے واپسی پر سارا شہر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا. ہر آنکھ میں خوشی اور سرشاری کی چمک تھی. ہم نے پاکستان کو للکارنے والے بزدل دشمن کو شکست دے دی کر دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے دشمن یہ جان لے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو شکست نہیں دے سکتی. اہل پاکستان کے ساتھ ساتھ لاہوریوں نے بھی اپنی شاندار روایات کو قائم رکھا اور کسی قسم کا ڈر اور خوف اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا نہ صرف بے خوف وخطر اور جرات کے ساتھ سٹیڈیم گئے اور اپنے گھروں میں بھی اس میچ کو ایک تہوار کی طرح منایا. لاہور کے روایتی پکوان اور کھابے سارا دن پکتے رہے اور پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا فائنل اپنے گھروں میں بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھا گیا. یہ ایک طرح سے حکومت اور جمہوریت پر عوامی اعتماد کا اظہار بھی ہے. سوشل میڈیائی دانشوروں کی ساری دانش گویا گھاس چرنے چلی گئی. جلی کٹی پوسٹیں کر کے نہ جانے کیا ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے. زندہ دلان لاہور نے ایسے تمام لوگوں کے منہ پر بھی زور کا طمانچہ رسید کیا ہے اور پاکستان بھر سے کروڑوں افراد نے اسلحے سے دہشت گردی پھیلانے والے ظالمان کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیائی دہشت گردوں کو بھی چاروں شانے چت کر دیا ہے. یہ ایک پیغام ہے ان تمام افراد کے لئے جو پاکستان میں کسی بھی حوالے سے مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں لیکن شائد وہ نہیں جانتے
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
دانائے راز حضرت علامہ اقبال کا ایک شعر حسبِ حال محسوس ہو رہا ہے.
اک ولولہء تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند