تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں اور معاشروں کی اصلاح کے لئے دو طریقے استعمال کئے گئے۔ ایک تبلیغ اور دوسرا تعزیر۔ یعنی یا تو وعظ و نصیحت کے ذریعے اصلاح احوال کی کوشش کی گئی یا پھر سختی سے کام لیا گیا۔ انسانوں کے طرزعمل کے سلسلے میں قوانین اور ضابطے وضع کئے گئے اور ان کی خلاف ورزی کی سزا مقرر کی گئی۔
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسے سوچنے، سمجھنے اور نیکی و بدی اور غلط و صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اس لئے اگر اسے صحیح انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔
موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبارات و جرائد کے ذریعے لوگوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس کی مثال معلومات کے ایک سیل بے پناہ کی سی ہے۔ گویا موجودہ دور میں لوگ الفاظ کے زبردست دباؤ کی زد میں ہیں۔ وہ الفاظ پڑھتے ہیں، الفاظ سنتے ہیں اور الفاظ دیکھتے بھی ہیں۔ الفاظ کے علاوہ وہ علامات، کرداروں اور حرکات و سکنات کی صورت میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ بھی ”ابلاغ“ ہی کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے اور زیادہ تر مؤثر ہوتی ہے۔ تحریر کی ایجاد سے قبل ”ابلاغ“ بولے جانے والے الفاظ یا پھر اشارات اور حرکات و سکنات کی صورت میں ہوتا تھا۔ تحریر ایجاد ہوئی تو ابلاغ کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ اب صورت یہ ہے کہ ابلاغ کی نئی نئی صورتیں وجود میں آ چکی ہیں اور انسان خود شعوری کوشش نہ بھی کرے تو وہ ابلاغ کے بہاؤ کی زد میں رہتا ہے۔۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اس کا اساسی نظریہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ایک منفرد سانچے میں ڈھالنے کا متقاضی ہے لہٰذا اس اساسی نظریہ سے وفاداری اور وابستگی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ابلاغ عام کے ذرائع اس مقصد کی تکمیل کے لئے کام کریں جو ہمارے نظریہء حیات کی بنیاد ہے۔ ابلاغ کی تحریری، بصری اور سمعی صورتوں میں جو کچھ پیش کیا جائے اس کا محور وہی بنیادی مقصد ہو۔۔
ذرائع ابلاغ معاشرے کی اصلاح میں اہم اور نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی نہج وہی ہو جو اصلاح کے لئے ضروری ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، اس کی اصلاح کا مطلب اس کی فکر اور طرزعمل میں تبدیلی ہے۔ تبدیلی لانے کے سلسلے میں اوّلین ضرورت صحیح و غلط درست و نادرست میں تمیز کا شعور پیدا کرنا ہے۔ گویا پہلے یہ بتایا جائے کہ خرابیاں کیا ہیں، ان کے مضمرات اور اثرات کیا ہیں۔ ان سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے کیا نقصانات پیدا ہو رہے ہیں؟ سماجی، قومی، اخلاقی اور دینی لحاظ سے کیا کیا قباحتیں رونما ہو رہی ہیں؟ حتیٰ کہ معاشرہ کا شعور یہ تسلیم کر لے کہ یہ واقعی خرابیاں ہیں اور ان کو ختم ہونا چاہیے
مغربی لٹریچر بیرونی اور ملکی فلموں اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے جو کچھ پیش کیا گیا اس کا بالواسطہ اثر یہ مرتب ہوا کہ خواہشات کی بھوک تیز ہو گئی۔ آسان ذرائع سے دولت کا حصول مطمع نظر بن گیا۔ اچھی اقدار کی پامالی کو ایک برائی سمجھ کر قبول کر لیا گیا۔ ابلاغ عام کے کس ذریعہ نے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کئے اور ان اثرات نے کیا نتائج پیدا کئے ؟ یہاں ان تفصیلات کے بیان کی ضرورت ہے نہ گنجائش لیکن یہ مسلم ہے کہ بیرونی اثرات اور ابلاغ عام کے ذرائع نے جو فضاء تیار کی اس میں اچھائیوں، برائیوں اور خرابیوں کی تمیز معدوم ہوتی گئی۔ یہ بات قابل یقین ہے کہ ایسی فضاء ازخود قائم ہو گئی اور ابلاغ عام کے ذرائع اس بارے میں کچھ نہ کر سکے۔ معاشرے کی اصلاح کے ضمن میں ابلاغ عام کے کردار کو ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کو سادگی اور سچائی کی تلقین کرنے والے شخص کی باتیں اسی صورت میں اثر کریں گی جب اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ اس کا اپنا عمل ان باتوں سے مطابقت رکھتا ہو جو وہ کہتا ہے۔ اس کے قول و فعل کا تھوڑا سا تضاد بھی اس کی گفتار یا تبلیغ کا اثر زائل کر دے گا۔ اسی طرح ابلاغ عام کے ذرائع معاشرے کی اصلاح میں اسی صورت میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ وہ مختلف صورتوں اور پیرایوں میں جو کچھ پیش کریں اس کے نتیجہ میں برائیاں ترک کرنے اور اچھائیاں اختیار کرنے کی تحریک ہونی چاہئے۔ اگر ایک ذریعہ ابلاغ سے سادگی اختیار کرنے کی تلقین کی جائے لیکن ساتھ ہی دیگر مندرجات یا پروگراموں کی صورت میں اور زیادہ دلکش انداز میں ایسی چیزیں پیش کی جائیں جو جلد سے جلد معیار زندگی بلند کرنے اور طرح طرح کی مہنگی اشیاء سے گھر بھر لینے کی خواہش پیدا کر دیں تو سادگی کا درس غیر مؤثر ہو جاتا ہے بلکہ بے محل معلوم ہوتا ہے۔
”اصلاح معاشرہ“ کا ذکر ہوتا ہے تو بعض افراد اس سے بدکتے ہیں وہ اسے قدامت پسندی یا رجعت پسندی قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اصلاح سے مراد کردار کی اصلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت نہ کی جائے، خلاؤں کو مسخر نہ کیا جائے اور سمندروں کو کھنگالا نہ جائے یا جدید لوازم سے اجتناب کیا جائے۔ رشوت، ظلم، زیادتی، ملاوٹ، حق تلفی، ناانصافی، چوری، ڈکیتی، سمگلنگ، جھوٹ، اقرباء پروری، فرائض کی ادائیگی سے گریز اور غلط اقدار کا خاتمہ ”ترقی“ کے خلاف نہیں ہے اور ان ساری چیزوں کو اپنا لینا ترقی پسندی نہیں ہے۔
فیس بک کمینٹ