اسکول کے بڑے سے میدان میں سالانہ تقریب تقسیم انعامات تھی اور اچھی کارکردگی والے تمام طلبہ و طالبات کو انعامات و اسناد دئیے جا رہے تھے۔ شاہینہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، پسینے سے اس کی ہتھیلیاں گیلی ہو ئی جا رہی تھیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اسکول کی ایک نامور طالبہ ہے وہ کچھ کچھ نروس کھڑی تھی، کہ اسٹیج سے اس کا نام پکارا گیا، وہ ایک دم جیسے مطمئن ہوگئی اور ایک لمبی سانس لیکر پورے اعتماد سے اسٹیج کی جانب چل دی۔ پھر تو جیسے اس کا نام پکارے جانے کی تکرار شروع ہو گئی اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر تعلیمی سرگرمیوں میں بھی کئی میڈلز حاصل کئے تھے، اور اسے اسکول کی بہترین طالبہ بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ شاہینہ حسین ہونے کے ساتھ بے حد ذہین بھی تھی۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اڑ کر گھر پہنچ جائے اور امی کو بتائے کہ وہ پورے اسکول کی سب سے بہترین طالبہ تسلیم کی گئی ہے۔ انہی خیالوں میں گم تھی کہ گھر آگیا، گاڑی والے بابا نے آواز لگائی تو وہ خیالوں سے باہر آکر گھر کے دروازے کی جانب دوڑ گئی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے زور زور سے امی کو آواز دینا شروع کردیں، آخر ایک کمرے سے اس کی والدہ نمودار ہوئیں اور ناگواری سے کہنے لگیں کہ شاہینہ کیا بات ہے کیوں اتنا شور مچا رہی ہو، وہ خوشی سے اپنی امی سے لپٹ گئی اور کہنے لگی امی آپ کی بیٹی اسکول میں سب سے زیادہ انعامات لینے والی سال کی بہترین طالبہ تسلیم کی گئی ہے، یہ دیکھیں یہ کہہ کر اس نے ڈھیر سارے میڈلز اپنی امی کے گلے میں ڈال دیئے، امی خوشی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگیں اور اسے سینے سے لگا کر پیار کرنے لگیں۔ انہیں اپنی بیٹی پر بڑا فخر محسوس ہو رہا تھا، چار بہن بھائیوں میں یہ واحد بچی تھی جو تعلیم ، کھیل اور سماجی کاموں بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی ، اس کے باقی تین بہن بھائی دوسرے معاملات میں الجھے ہوئے تھے اور تعلیم سے کم ہی شغف رکھتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیاں بھی بڑھتی گئیں اور وہ شہر کی بہترین یونیورسٹی کی ایک ہر دل عزیز طالبہ بن کر سامنے آگئی۔ اس نے جیسے ہی گریجویشن کیا اسے کئی اچھے اداروں سے جہاں جہاں اس نے apprenticeships کی تھیں جاب آفرز آگئیں۔ مگر اس کی ساری خوشیاں اور خواہشیں اس وقت دم توڑ گئیں جب والدہ نے اسے بتایا کہ ایک دور کے رشتہ داروں سے اس کا رشتہ آیا ہوا ہے اور وہ اسے کام نہیں کرنے دیں گے۔
یہ سن کر وہ کٹ کر رہ گئی، اس نے بہت التجائیں کیں کہ اماں جب تک شادی ہوتی ہے تب تک تو کر لینے دیں، مگر اماں نے صاف انکار کردیا کہ لڑکے والوں کی یہی شرط ہے کہ لڑکی بالکل جاب نہیں کرے گی۔ بہرکیف وہ دل پر پتھر رکھ کر چپ ہو رہی۔
آخر وہ دن بھی آہی گیا جب وہ مسز داور بن کر پیا گھر سدھاری، اس نے جیسے تیسے اپنی خواہشوں اور امنگوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا کہ والدین کے حکم کی پاسداری اس کیلئے سب سے اہم تھا۔ اس کے شوہر کی شہر میں دکان تھی اور وہ اچھا کما لیتا تھا مگر ذہنی طور پر وہ ایک تیسرے درجے کا بیوپاری ہی تھا، اسے شاہینہ کی علمی باتیں بالکل سمجھ نہیں آتی تھیں، شروع شروع میں تو وہ ہنس کر ٹال دیتا تھا، بعد میں وہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا اور شاہینہ کی تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کی روداد سن کر مذاق اڑانے لگا، ہوتے ہوتے پورا سسرال اس تماشے میں شامل ہوگیا، اب جب کبھی وہ اپنی تعلیمی کامیابیوں کا تذکرہ کرتی تو سب مل کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ اس کے سسرالی اس کے رشتے دار ضرور تھے مگر ان کا گھریلو ماحول شاہینہ کے گھر کے ماحول سے یکسر مختلف تھا، یہ سب کم تعلیم یافتہ کاروباری لوگ تھے، ان کا عمومی گھریلو طرز عمل اور انداز گفتگو عامیانہ اور سطحی ہوتا تھا، جو شاہینہ کو شدید ذہنی کوفت میں مبتلا کردیتا تھا۔ وہ اکثر اکیلے میں اپنے شوہر سے اس بات کی شکایت کرتی تو وہ ہنسی میں اڑا دیتا اور بعد میں گھر والوں کے ساتھ مل کر اس سے تنہائی میں کی گئی گفتگو کا مذاق اڑاتا، یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ طرز عمل تھا جو اس کی روح تک کو تار تار کر دیتا تھا۔ یہ وہ اذیت ناک صورتحال تھی جو شاہینہ کو روزانہ درپیش تھی۔ وہ بہت ہی دلبرداشتہ اور ملول رہنے لگی یہ پورا ماجرا اس نے بارہا اپنے گھر والوں کو بھی بتایا، مگر والدہ اسے صبر کی تلقین کرکے رشتے نبھانے کا کہہ دیتی تھیں۔ مجبوراً وہ لوٹ کر سسرال آجاتی اور خاموشی سے اپنا وقت گزارنے لگتی۔ پھر کرونا کی وباء شروع ہوگئی اور کاروبار میں خسارے ہونے لگے، شاہینہ کے شوہر کے کاروبار پر بھی مندی نے ڈیرے ڈال لئے، وہ پریشان رہنے لگا، اکثر شدید جھنجھلایا ہوا رہتا تھا، اس کے روئیے ناقابل برداشت ہو گئے تھے، اب وہ شاہینہ کی باتوں کا مذاق اڑانے کی بجائے اس کی دھنائی کر دیتا تھا، جو شاہینہ کیلئے ایک نہایت ہی گھٹیا او ر ناقابل برداشت بات تھی روز روز کی مارپیٹ سے تنگ آکر اس نے ایک بار پھر والدین کی مدد لینا چاہی اور انہیں ساری بپتا کہہ سنائی والدین نے جب اپنے داماد داور سے بات کی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کا دماغ ان کی بیٹی سے بالکل نہیں ملتا اگر وہ چاہیں تو وہ اس کو ہمیشہ کیلئے ان کے گھر چھوڑ سکتا ہے والدین اشارے کو سمجھ گئے اور جیسے تیسے شاہینہ کو سمجھا بجھا کر سسرال جانے پر مجبور کردیا۔ اب حالات اور بگڑ گئے ، داور روزانہ اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ گھر میں بیٹھ کر شراب پیتا اور جوا کھیلتا اور شاہینہ کو مجبور کرتا کہ وہ اس کے دوستوں کے سامنے آئے اور انہیں خوش کرے، اس صورتحال کیلئے وہ بالکل بھی تیار نہ تھی، اس کے انکار نے داور کو شدید چراغ پا کر دیا، اور وہ تشدد پر اتر آیا، اس نے اپنے اوباش دوستوں کو کمرے میں بلا لیا اور اس کی عزت تار تار کرنے کیلئے شاہینہ کو ان کے سامنے پیش کردیا، اس نے سخت مزاحمت کی اور کسی طرح نیچے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئی، اس بار وہ بچ تو گئی مگر اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ کچھ حتمی کرنا ہی پڑے گا، اس نے کیڑے مارنے والا پاؤڈر اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا، آئندہ جب اس کے شوہر نے اس سے وہی مطالبہ کیا تو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد وہ بظاہر مان گئی جس پر اس کے شوہر کو حیرت تو ہوئی مگر وہ نشہ میں اندازہ نہیں لگا سکا، شاہینہ نے کہا کہ وہ سب کو بہت خوبصورت ناچ دکھائے گی جس پر وہ سب راضی ہو گئے اور اس کے ناچ سے بہت خوش بھی ہوئے، شاہینہ نے ایک بار ناچنے کے بعد ان سب کیلئے ایک ایک شراب کا پیگ بنایا اور اس میں زہریلی دوا ملا دی، شراب دے کر وہ سب کی توجہ اپنے ناچ میں لگانے لگی، نتیجہ اس کے اندازے کے مطابق ہی نکلا کچھ ہی دیر میں ان سب کی حالت خراب ہونے لگی، جب تک ان لوگوں کو ہسپتال پہنچایا گیا وہ سب مرنے کے قریب پہنچ چکے تھے، اور چار میں سے تین شرابی مر بھی گئے، شاہینہ کو پولیس نے گرفتار کرلیا، عدالت میں کیس چلا اس کے گھر والوں نے ملنے اور مدد کرنے سے انکار کردیا، بڑی مشکل سے سرکاری وکیل ملا، اور اس کے کیس کی نوعیت کے تناظر میں اسے سات سال قید سنائی گئی، سزا پوری کرنے کے بعد جب اسے رہائی ملی تو وہ اپنے والدین کے گھر پہنچ گئی مگر انہوں نے اسے گھر میں لینے کی بجائے اسے دروازے سے ہی دھتکار دیا، پڑھی لکھی تھی شیلٹر ہوم پہنچ گئی جہاں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اسے کچھ دن آرام کرنے کے بعد پناہ گاہ میں موجود لڑکیوں کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور زندگی کچھ معمول پر آنے لگی، کہ ایک رات اس پر قیامت ٹوٹ پڑی اچانک اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی معلوم کرنے پر پناہ گاہ کی وارڈن کی آواز سنائی دی، شاہینہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے کچھ انجان لوگوں کو کھڑا پایا جو شکل و لباس سے بڑے لوگ لگ رہے تھے اسے دیکھتے ہی جیسے ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور وہ ستائشی نظروں سے وارڈن کو دیکھنے لگے، اس نے گھبرا کر وارڈن سے سوال کیا کہ کیا بات ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ شہر کے بڑے رئیس ہیں اور ہمارے شیلٹر ہوم کیلئے فنڈنگ کرنا چاہتے ہیں تم پڑھی لکھی ہو تو یہ تم سے پلان ڈسکس کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ محسوس کر رہی تھی کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے، وارڈن نے اسے تسلی دلائی اور آفس میں لے آئی اس نے کہا کہ تم ان کے آفس چلی جاﺅ، تمہارے ساتھ یہ دو لڑکیاں بھی ہوں گی تم بالکل گھبرانا نہیں ۔ تو شاہینہ نے کہا کہ یہ بات تو دن میں ہونا چاہئے تو وارڈن بولی کہ صاحب دن میں بہت مصروف ہوتے ہیں اور خاص ہمارے لئے وقت نکالا ہے بس آج کی بات ہے وہ بھی کچھ دیر کی تمہاری زرا سی مدد ادارے کو بڑا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ شاہینہ کے پاس کوئی راہ فرار نہ تھی لہذا مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق راضی ہوگئی دو لڑکیاں اور بھی اس کے ساتھ تھیں، باہر ایک بڑی سی گاڑی کھڑی تھی جس میں وہ سب بیٹھ گیئں اور گاڑی ایک بڑی سی حویلی پر آرکی، انہیں ایک نہایت ہی قیمتی سجی ہوئی بیٹھک میں لے جاکر انتظار کرنے کو کہا، ملازم انہیں آپس میں بالکل بات کرنے نہیں دے رہے تھے کہ بڑے صاحب تشریف لے آئے انہوں نے سب لڑکیوں کا ناقدانہ نظروں سے جائزہ لیا اور شاہینہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے پہلے کہ شاہینہ کچھ سمجھ پاتی ملازمین نے کہا کہ بی بی چلیں صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ دوسری لڑکیوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔ وہ ڈرتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی، کچھ ہی دیر میں وہ ایک پرتعیش خواب گاہ میں تھی۔ جہاں عیاشی کے تمام لوازمات موجود تھے، بڑے صاحب نے نہایت ہی لگاوٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا، ملازم اسے کمرے میں چھوڑ کر فوراً ہی چلے گئے اب وہ کمرے میں اکیلے تھے، پھر شروع ہوگیا وہی ہوس پرستی کا شیطانی کھیل اس نے بہت بچنے کی کوشش کی مگر بڑے صاحب پرانے کھلاڑی تھے جلد ہی اسے بے بس کرنے میں کامیاب ہوگئے، اس کے بعد رات بھر وہ زندگی کے اس کرب سے گزرتی رہی جس کی خاطر اس نے تین لوگوں کی جان تک لے لی تھی قسمت نے اسے آج پھر اسی دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا جس سے فرار ہوکر وہ شیلٹر ہوم پہنچی تھی۔ مگر شاید اس کی قسمت میں پناہ یہاں بھی نہیں تھی۔
فیس بک کمینٹ