ملتان کے نامور صحافی میاں فیروز ندیم طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ طوطلاں والی مسجد بی بی پاک دامن میں نماز جنازہ ادا ہوئی صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ میاں فیرو زندیم 3 مارچ 1955ء کو موضع جھانوری تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش روزگار کے سلسلہ میں ملتان آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اخباری صنعت سے انہوں نے اپنے کیئریر کا آغاز کیا اور یوں کہئے کہ وہ اس سمندر میں ایسے اترے کہ پھر باہر نہ نکل سکے۔ وہ صحافی سے زیادہ صحافی گر تھے اور اخباری صنعت کیلئے ان کی بہت خدمات ہیں۔ میاں فیروز ندیم کو ملتان کے لوگ بابائے صحافت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے ہزاروں صحافی اور سینکڑوں ایڈیٹر و پبلشرز پیدا کئے۔ مقامی اخبارات کے وہ باوا آدم اس لئے تھے کہ ملتان کا شاید ہی کوئی ایسا اخبار ہو جو اُن کی مشاورت یا اُن کی زیر نگرانی شائع نہ ہوا ہو۔ اخبار سے ڈکلریشن سے لیکر اے بی سی اور اخبار کو میڈیا لسٹ لے جانے تک وہ فرائض سر انجام دیتے ۔ اُن کی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی سے معاوضہ طے نہیں کرتے تھے، جتنی کوئی خدمت کرتا وہ لے لیتے۔ افسوس کہ وہ بیمار ہوئے تو اُن کا علاج نہ ہو سکا اور کینسر کا مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ میاں فیروز ندیم نے اپنے لواحقین میں 3 بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے، دس پندرہ سال پہلے زوجہ کا انتقال ہوا تو اُن کی بقیہ زندگی پریشانی میں گزری۔ میں نے ذکر کیا کہ میاں فیروز ندیم صحافی ساز تھے میں جب بھی اُن کے دفتر میں ملا تو کوئی نہ کوئی دفتر آیا ہوتا تھا اور میاں فیروز ندیم اُسے اخبار نویس یا اخبار مالک بننے کے گُر بتا رہے ہوتے ، وہ کہتے کہ بہت سے لوگ باتیں نہیں بتاتے لیکن باتیں بتانا چاہئیں وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ نے اخبار کا ڈیکلریشن لینا ہے تو سب سے پہلے ایک درخواست ڈائریکٹر پی آئی ڈی کے نام لکھئے اور اُس کے ساتھ اخبار کا جو نام رکھنا چاہتے ہیں وہ لکھیں اور اُس کے ساتھ آٹھ ، دس نام مزید بھی لکھ دیں کہ ان میں سے کوئی بھی نام مل جائے ڈائریکٹر صاحب آپ کی درخواست پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد بھیج دیں گے وہاں سے آپ کو اخبار کے نام کا این او سی ملے گا۔ این او سی لیکر مقامی ڈپٹی کمشنر کے دفتر جائیں وہاں ایک برانچ اخبارات اور پرنٹنگ پریس کے ڈکلریشن کو ڈیل کرتی ہے وہ آپ کو دو فارم دیں گے ایک فارم A اور دوسرا B ۔ اے فارم کو پبلشر فل کرے گا اور بی کو پرنٹر ، اس کے ساتھ تجربے کا سرٹیفکیٹ بینک سٹیٹمنٹ ، حلفیہ بیان لگے گا جب فائل مکمل ہو گی تو ڈپٹی کمشنر آفس کی متعلقہ برانچ پولیس کی سپیشل برانچ اور متعلقہ تھانے سے رپورٹیں منگوائے گی اور اگر کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہوئی تو پھر ڈپٹی کمشنر صاحب آپ کو ڈیکلریشن جاری کر دیں گے۔ سائل نے پوچھا کہ ڈیکلریشن حاصل کرنے کیلئے تعلیمی سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہے؟ میاں فیروز ندیم ہنس کر بولے کہ آپ اسلحہ کا لائسنس لے رہے ہیں یا اخبار کا؟ وہ وقت گئے جب ڈیکلریشن اَن پڑھوں کو بھی مل جاتے تھے، اب تعلیم ضروری ہے۔ سائل نے ایک اور سوال کیا کہ ڈیکلریشن مل جانے کے بعد کیا کرنا ہو گا؟ میاں فیروز ندیم ہنس کر بولے کہ یہ سوال تو ایسے ہے جیسے کوئی پوچھے کہ شادی کرنے کے بعد کیا کرنا ہو گا؟ میاں فیروز ندیم نے کہا کہ میرے بھائی آپ کو اخبار چھاپنا ہو گا، تین ماہ کے بعد آپ اے بی سی کیلئے درخواست دیں گے، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا شعبہ (ABC) اَڈٹ بیورو سرکولیشن آپ کے اخبار کا اَڈٹ کرے گا پھر آپ کو سرکولیشن سرٹیفکیٹ جاری کرے گا، پھر آپ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو گورنمنٹ میڈیا لسٹ کیلئے درخواست دیں گے، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ متعلقہ صوبے سے این او سی لے گا پھر آپ کا اخبار میڈیا لسٹ میں شامل ہو جائے گا اور اگر آپ کے اخلاق اچھے ہوں گے اور آپ کا اخبار باقاعدگی سے شائع ہو گا تو آپ کو اشتہار ملیں گے اور آپ کا اخبار زندہ رہے گا ورنہ وہی ہو گا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں اخبارات کے ساتھ ہوا یعنی اخبار بھوک سے مر جائے گا، آخر میں فاتحہ۔ میاں فیروز ندیم کا ایک حوالہ دوستی کا حوالہ ہے، اخباری فیلڈ کے بہت سے دوست تھے شوبز کی دنیا کے لوگ بھی اُن سے بہت قربت رکھتے تھے، ملتان کی اخباری صنعت کا ایک بہت بڑا نام مرزا گلزار بیگ مرحوم اُن کے قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے تھے، مظہر جاوید، چودھری محمود احمد، اشفاق احمد، ملک امجد سعید، بی اے جمال، حاجی خلیل راں، میاں عبدالرزاق، طاہر صدیقی، قیصر عباس صدیقی، ملک اقبال، چودھری مقصود، امتیاز گھمن، شوکت اشفاق، محمد طارق، چودھری شریف گل، سجاد جہانیہ، خواجہ الیاس صدیقی، چودھری ذوالفقار کرن ، سعید اللہ درانی کیساتھ ساتھ اور بھی بہت سے نام ہیں جو اُن سے ذاتی تعلق اور قربت رکھتے تھے اسی طرح گلوکاروں میں استاد منیر، عارف خان بابر، ایم یامین گلفام، ثناء ملک، فرح مغل، حمیدہ خانم، ثوبیہ ملک، ثمینہ آرزو، امین باقر اور بہت سے دوسرے آرٹسٹوں کا اُن کے آفس میں ہمیشہ جمگٹھا نظر آیا، رقم الحروف بندہ ناچیز کو بھی اُن سے نیاز مندی کا دعویٰ ہے۔ اُن سے تعلق اور محبت اس بناء پر بھی تھی کہ وہ لبرل سوچ کے مالک تھے ہر طرح کی انتہاء پسندی کے مخالف تھے اُن کی خوبی یہ تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ تقریبات کرواتے بلکہ شہری تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔اُن کے گھر کی زبان پنجابی تھی اس کے باوجود مقامی سرائیکی زبان کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو پروموٹ کرنے کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میاں فیروز ندیم کے ہونٹ ہر وقت گلابی رہتے ، کھانے سے زیادہ اُن کی اصل غذا پان تھا، وہ اتنی کثرت سے پان کھاتے کہ انہوں نے لکھنؤوالوں کو بھی مات دیدی۔ چند ماہ قبل میاں فیروز ندیم سے ملا تو وہ بہت غمزدہ تھے ، اُن کا کہنا تھا کہ ایک تو بیمار ہوں دوسرا روڈ ایکسیڈنٹ سے زخمی ہو گیا ہوں، اُن کا کہنا تھا کہ ایک بیٹا ہے اُسے ملتان میں ملازمت نہیں مل سکی، اسلام آباد میں پرائیویٹ نوکری کر رہا ہے، دو بیٹیوں کی رخصتی کر دی ہے، بیٹے اور بیٹی کی شادی کی ذمہ داری ابھی باقی ہے، میں کسی سے اپنا دکھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر میرے سامنے بھگوان بنے بیٹھے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہماری فیلڈ بھی کیا فیلڈ ہے کہ اس میں کچھ حاصل وصول نہیں، ایک پرنٹ میڈیا ہے جو کہ درحقیقت ایک کاغذی دنیا ہے اور ایک الیکٹرونک میڈیا ہے جو ہوائی دنیا کے نام سے مشہور ہے، جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، سب سے پہلا وار میڈیا پر ہوا ہے، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں، دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، شعر کا ایک مصرعہ ’’زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے‘‘ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ ’’صحافت کھا گئی جواں کیسے کیسے‘‘۔ میاں فیروز ندیم نے اس موقع پر مجھ سے سوال کیا کہ کیا ہماری صحافت کیلئے آدم خور کا نام کیسا رہے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ