ہمیں پی آئی اے کی فلائٹ سے گوادر جانا تھا لیکن ہماری فلائٹ کینسل ہوگئی تھی اور اب فاطمہ حسن اور میں کار سے گوادر جا رہے تھے۔ سیکڑوں میل کی مسافت، ناصر سہرابی اور آر سی ڈی سی کے دوسرے میزبانوں کی عنایت سے ہمارے سفرکا اہتمام ہوا تھا۔کار نئی تھی ’ائیرکنڈیشنڈ تھی‘ کار چلانے والے مہذب اور تمیزدار تھے، اس کے باوجود اتنی لمبی مسافت کاخیال ہی تھکا رہاتھا۔
ہم کراچی کی ہنگامہ خیز ٹریفک سے نکل کر جب سیدھی سڑک پرآئے تو حب اور بعض دوسرے شہروں قصبوں کے گزر جانے کے بعد ہم پی آئی اے کے ممنون ہوئے جس نے فلائٹ کینسل کر دی تھی۔ یہ اس کی عنایت تھی کہ ہم ہجری دورکے ان ناقابل یقین شاہکاروں کے درمیان سے گزر رہے تھے جو لاکھوں برس پہلے زمین سے اُگے تھے۔ چٹانوں کا یہ جنگل جسے ہزاروں برس ہواؤں نے یوں تراش خراش دیا ہے کہ ان کا حُسن آنکھوں میں کھبا جاتا ہے۔
چٹانوں کا یہ جنگل سیکڑوں میل تک ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ حیرت کا ایک جہانِ معنی۔ ہم کوٹلہ ملیر پر رک کر چائے پیتے ہیں۔ راستے میں ابولہول سے مشابہ اس چٹان کو دیکھتے ہیں جو سیکڑوں فٹ کی بلندی پر فطرت نے تراشی ہے اور پھر بلندیوں پر وجود میںں آنے والا وہ مجسمہ ہے جسے اُمید کی شہزادی کہا جاتا ہے۔ اسے دیکھیے اور عش عش کیجیے کہ وقت اور ہوائیں کیسے کمالات دکھاتی ہیں ۔سیکڑوں فٹ کی بلندی پرایک عورت کا مجسمہ کھڑا ہے اور خدا جانے کس کی راہ تکتا ہے۔
ہم چھوٹے چھوٹے شہروں‘قصبوںاور فوجی چھاؤنیوں اور ناکہ بندیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گوادر جا پہنچتے ہیں۔ یہ وہی گوادر ہے جو قیام پاکستان کے وقت ہمارا نہ تھا اور بہت بعد کی سفارتکاری اور لین دین کے بعد عمان مسقط سے ہمارے حصے میں آیا اور یہ کام ایک وزیراعظم نے سرانجام دیا۔آج گوادر پاکستانی سیاست اور معیشت کا ایک نہایت اہم مقام ہے۔ سی پیک نے گوادرکو دوستوں اور دشمنوں سب ہی کی نظر میں اہمیت دیدی ہے۔
یہ گوادر کے بزرگوں کے بیدار مغز ہونے کا کمال ہے کہ انھوں نے یہ اندازہ لگایاکہ حکومت کو یہاں سے ٹیکس وصول کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن یہاں کے لوگوں بطور خاص نوجوانوں کی زندگی سنوارنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی احساس کے سبب کریم بخش سعیدی، سید ظہور شاہ ہاشمی، عبدالمجید سہرابی اور دوسرے علم دوست شہریوں نے 1961ء میں ’انجمن اصلاح بلوچاں‘ کی داغ بیل ڈالی جو اب رورل کمیونٹی ڈویلپمنٹ کونسل گوادر کے نام سے علم وہنرکے فروغ اور سماجی، سیاسی ،ادبی، ثقافتی اورتفریحی سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہے۔
آرسی ڈی سی ہرسال کتب میلہ منعقد کرتی ہے۔ اس کے روح رواں ناصر سہرابی نے فاطمہ حسن کو مجھے اورکراچی سے علم و ادب کے متعدد افراد کو گوادر آنے اور بات کرنے کی دعوت دی تھی۔
ہم گوادر کے ایک دلکش اور صاف ستھرے گیسٹ ہاؤس ’صدف‘ میں گیارہ بجے رات پہنچے تو تھکن سے چوُر تھے لیکن چٹانوں کے جنگل کی سیر نے ایک عجب لطف وسرورسے آشنا کیا تھا۔
پانچویں گوادر کتاب میلے کا افتتاح دوسرے دن صبح کو ہوا۔ میلے میں شرکت کے لیے کراچی‘ لاہوراور جہلم سے متعدد بک سیلر آئے ہوئے تھے۔ اس میلے میں خاص شرکت آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی تھی جس کی نمائندگی امینہ سیدکر رہی تھیں۔ ان کی بیٹی شائما سید جوایک ماہر رقاصہ ہیں‘ وہ بھی بطور مندوب موجود تھیں۔ یہ ایک خوبصورت اتفاق تھاکہ اسی روز اسلام آباد سے جن ادیبوں کو اعزازات دینے کااعلان ہوا ‘ ان میں امینہ سید کا نام بھی شامل تھا۔ آرسی ڈی سی والوں نے اس کو اپنی تقریب کے لیے نیک شگون قرار دیا اور امینہ سید کو بلوچی چادر اوڑھائی۔ ان کی یہ پذیرائی ہم سب کے لیے بہت خوشی کا سبب تھی۔
کتاب میلے کے ساتھ ہی آرسی ڈی سی کے روشن اورکشادہ ہال میں اُستاد عبدالمجید گوادری کی یاد میں سیمینار، نئی کتابوں کا اجرا، راگ رنگ کی محفلیں، بلوچستان کی تہذیب و تاریخ پرلیکچر اور بلوچ نوجوان فنکاروں’حمل پرواز‘ زباد بلوچ اور شاہینہ رشید کی بنائی ہوئی پینٹنگزکی نمائش بھی شامل تھی۔ افتتاحی سیمینار سے جناب خدابخش ہاشم، ڈاکٹر کہورخان، ڈاکٹر فاطمہ حسن اورناصر سہرابی نے خطاب کیا۔ اس سیمینارکا موضوع تھا ’’معاشرے میں کتاب اور ادب کی ضرورت۔‘‘
اس اہم موضوع پر میں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ ہمارے سماج میں کتاب اور ادب کی ضرورت ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم نے عالم وفاضل لوگوں کی باتیں سنیں۔ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم یہ گفتگوکر رہے ہیں جو اس لیے خوش کرتی ہے کہ ہم اپنا رشتہ ماضی سے جوڑتے ہیں۔ اس ماضی سے جس کی کھدائیوں میں ہزار ہا برس پرانے لفظ نکلے ہیں‘ وہ اس بات کا اعلان ہیں کہ ہمارے اجداد جب صرف دو پایہ نہیں رہے بلکہ سوچنے والا ایک وجود بن گئے‘ اس وقت سے اب تک انھوں نے لکھے ہوئے حرف کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہے۔
مصر میں ہزاروں برس سے محفوظ دنیا کی پہلی کہانی ہو یا سو میریوں اشوریوں کے مٹی کی تختیوں پرکھودے جانے والے لفظ‘ مونیجو ڈرو سے برآمد ہونے والی وہ تحریر جوآج تک پڑھی نہیں جاسکی‘ یہ تمام چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ دنیا کے ہر سماج میں کتاب اورادب کی ضرورت رہی ہے۔
ہمارے یہاں پڑھنے پر اصرار رہا ہے اور ہم اس پرآج تک نازکرتے ہیں لیکن عہد قدیم سے تاریخی دورتک آتے آتے انسان لکھتارہا اورگل گامش کی داستان سے رابعہ خضداری کی شاعری اورطوس کے فردوسی کے شاہنامے جیسے شاہکار تخلیق کرتا رہا ۔
فردوسی جوہزار برس پہلے ہمارے بلوچستان سے کچھ ہی فاصلے پر رہتا تھا اور جس کے لکھے ہوئے اشعار نے جنگ قادسیہ میں اونٹنی کا دودھ پینے اور سوسمارکا گوشت کھانے والے عربوں کی فتح کا انتقام اپنے الفاظ اوراشعار سے لیا تھا۔ وہ ایک قوم پرست تھا اور اس نے بجاطور پرکہا تھاکہ ’عجم زندہ کردم بدیں پارسی‘۔ عرب حملے نے شاندار عجمی تہذیب کوخاک وخون میں نہلا دیا تھا جب کہ فردوسی نے اپنے حجرے میں بیٹھ کر وہ کتاب لکھی اور ادب تخلیق کیا جس کے بعدسے آج تک ہم اس عجمی تہذیب پر نازکرتے ہیں جوتلواروں اور تیروں سے غارت کردی گئی تھی۔ یہ فردوسی کے الفاظ تھے جنہوں نے پھر سے اس تہذیب کو زندہ کردیا۔
بلوچستان اپنے آثار کی بناء پر ایک قدیم اور شاندار تاریخی اور ادبی روایات رکھتا ہے۔ رابعہ خضداری سے مست توکلی‘ یوسف عزیز مگسی‘ میرگل خان نصیر، پروفیسر عبداللہ جان جمال دینی، عطاشاد، ڈاکٹر شاہ محمد مری تک بے شمار نام ہیں۔ ادیبوںکا اور ان کی کتابوں کاایک سلسلہ ہے جو محبت اور بغاوت بانٹتا ہے۔ رابعہ خضداری نے بلوچ عورت کو زبان بخشی اورآج اس کی بیٹیاں جدید عصری حسیت سے جڑ کر اپنے وطن اور اپنی قوم کے سینے میں لگی ہوئی آگ کو زمانے میں پھیلا رہی ہیں۔
ایٹم بم اور اسی قبیل کے دوسرے اسلحے کو’ہتھیار‘ کہا جاتا ہے لیکن ادب ان ہتھیاروں سے کہیں زیادہ موثر ہتھیار ہے،غلیل سے لے کر غوری میزائل سب ہی انسانوں کو زخمی یا بڑے پیمانے پر ہلاک کرتے ہیں لیکن ادب کسی کاخون نہیں کرتا اور اس کی فصلیں ہزاروں برس تک لہلہاتی ہیں۔
ادب آج سے نہیں ہزاروں برس سے سماج میں تبدیلی لانے کا سب سے اہم اورمؤثرذریعہ رہا ہے، اسی لیے تاریخ میں باضمیر ادیب‘شاعر اور مورخ مقتدر لوگوں کے لیے ایک ناپسندیدہ عنصر رہے ہیں۔ قدیم مصری ادب کی تاریخ پڑھ لیجیے تواس میںہ میں ایسے کئی ادیب نظرآئیں گے جنہوں نے باغیانہ ادب لکھا اور ساری عمر زندان میں گزاری اور کچھ ایسے بھی تھے جوقتل کیے گئے۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ