سوات کے لوگوں نے بھلا کیوں سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ آئے گا جب ان کے علاقے کا نام اکیسویں صدی میں ساری دنیا کے لیے اہم اور قابل ذکر ہوگا۔
یہ اب سے 9برس پہلے2009 کا قصہ ہے جب منگور کے پُر امن علاقے پر جنگجوؤں کی حکومت قائم ہوگئی ۔ انھوں نے کچھ لوگوں کو ہلاک کیا اور بچے کچھے لوگ ان کی طرزِ حکمرانی سے خوفزدہ ہوکر بھاگے۔ اس وقت معاملہ جان بچانے اور سر چھپانے کا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جس کو جہاں جگہ ملی ‘ اس نے وہیں ڈیرا ڈالا ۔ سوات کا ایک خاندان جس کا سربراہ ضیاء الدین یوسف زئی تھا ، اس نے بھی اپنی بیوی بچوں سمیت سوات سے نسبتاً پُر امن علاقے کی طرف رخ کیا ۔
یوسف زئی کے سینے میں بس ایک ہی آرزو تھی کہ اس کے گھر میں تعلیم کا اجالا ہو ‘ اسی لیے اس نے اپنے علاقے میں اسکول کھولے تھے ۔ اس کی بیٹی بڑی تھی ۔اس نے ابتدا سے اپنی ساری توجہ بیٹی پر لگا دی جس کا نام ملالہ تھا ۔ ملالہ سے گھر چھوٹا لیکن تعلیم کا دامن وہ مضبوطی سے تھامے رہی ۔ اس زمانے میں اس نے سواتیوں پرگزرنے والی داستان کو ڈائری کی صورت لکھنا شروع کیا۔
دہشت گردوں سے وہ خوفزدہ تھی لیکن چاہتی تھی کہ کسی طور دنیا والوں کومعلوم ہوکہ پاکستان کے جنت نظیر خطے سوات میں دہشت گردوں نے کس طرح جہنم کے درکھول دیے ہیں ۔ اسے اپنا گھر ‘ اپنا اسکول اور اپنی سہیلیاں یاد آتی تھیں ۔ اس نے نوعمری سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور دوسری بچیوں اور بچوں کو پڑھانے کے خواب دیکھے تھے لیکن یہ خواب ان لوگوں نے چرا لیے تھے جو نائیجیریا کے انتہا پسندوں کی طرح جدید تعلیم کو حرام کہتے تھے ۔ وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی لیکن اس کے دل پر جو گزرتی تھی ، اسے تو رقم کرسکتی تھی۔
اس نے اپنی ٹیڑھی میڑھی تحریر میں ڈائری لکھنی شروع کی ۔ وہ خونِ دل میں ڈبوکر لکھ رہی تھی۔ اس کے باپ نے اپنے دوستوں سے اس بات کا ذکرکیا، ان میں سے کچھ صحافی بھی تھے ۔ انھوں نے ضیاء الدین یوسف زئی کو مشورہ دیا کہ وہ ملالہ کی اس ڈائری کو انٹرنیٹ پر ڈال دے لیکن احتیاط کا تقاضہ تھا کہ ڈائری پر ملالہ کا اصلی نام نہ لکھا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ اس کی داستان گُل مکئی کے نام سے شائع ہوئی ۔ یہ وہ دن تھے جب ملکی اورغیر ملکی صحافیوں کی سوات پر نگاہ تھی ۔ وہاں سے کھدیڑ کر نکال دی جانے والی بچی کی ڈائری راتوں رات ساری دنیا میں مشہور ہوگئی ۔
صحافی یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ انتہا پسند جن کے نام سے اچھے اچھوں کے چہرے زرد پڑجاتے ہیں ، ان کے خلاف آواز اٹھانے والی یہ لڑکی کون ہے اور کس طرح وہ یہ باتیں لکھ رہی ہے۔کچھ لوگوں کو یہ گمان بھی گزرا کہ شاید امن ، تعلیم اور سب کے لیے خوشحالی کی آرزو میں کسی کم عمر لڑکی کے نام سے یہ کام کوئی اور کررہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب ہی جان گئے کہ ’گل مکئی‘ دراصل سوات کی ’ملالہ‘ ہے۔
مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے ۔ بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشت گرد دند ناتے پھرتے تھے ۔ جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی ‘ اس کی سہیلیاں بھی لوٹ آئی تھیں ۔ اسکول پھر سے آباد ہوئے ۔ بچوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔
یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر پورے پاکستان میں اپنی من پسند شریعت جبراً نافذ کرنا چاہتے تھے ۔گل مکئی کا اصل نام بھی اب سامنے آچکا تھا اور اس ڈائری کی وجہ سے ان کی بہت بد نامی بھی ہوئی تھی ۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب اس نے ان کی ایک نہ سنی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو اسکول سے واپس آتے ہوئے خون میں نہلا دیا گیا ۔
موت کے منہ سے واپس آنے کا محاورہ ہم سب نے سنا اور پڑھا ہے لیکن ملالہ کی زندگی اس محاورے کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ برطانیہ کے بہترین سرجن اور فزیشن اس کی زندگی کے لیے وقت سے لڑتے رہے اور آخر کار وہ اسے موت کے بے رحم جبڑوں سے کھینچ لائے ۔ اس کی زندگی جدید سرجری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بہت دنوں تک ہمارے یہاں اس کا نام سرگوشیوں میں لیا جاتا تھا لیکن انتہاپسندی ہمارے یہاں سے پسپا ہوئی، عسکریت پسندوں کی خواہشوں کے بر خلاف قدم بہ قدم انھیں پیچھے ہٹنا پڑا ۔اس دوران اسے امن کا نوبیل انعام ملا ، خطے اور دنیا میں امن کے لیے کام کرنے والے ہندوستانی کیلاش ستیارتھی کے ساتھ اس انعام میں اس کا ساجھا ہوا۔ سخارف امن انعام سے لے کر نوبیل امن انعام اور اس کے بعد اعزازات اور انعامات کی ایک فہرست ہے جو اس کے ہم قدم ہے۔
دنیابدل گئی ہے، پاکستان بھی قدرے تبدیل ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ چند دنوں پہلے ملالہ نے اپنے افراد ِخانہ سمیت پاکستانی سرزمین پر قدم رکھا ۔ وزیر اعظم اور دوسرے سر برآوردہ لوگوں نے اس کی پذیرائی کی ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں باتیں کرتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک گئیں اور جب وہ سوات میں اپنے گھر گئی تو اس کی آنکھوں سے آنسو گرتے رہے ۔ وہ عافیت کے ساتھ واپس چلی گئی ہے اور وعدہ کرکے گئی ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرتے ہی واپس اپنے گھر آجائے گی اور پاکستانی لڑکیوں کے لیے تعلیمی مہم کا آغاز کرے گی ۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ آخر انتہا پسندوں کو اس سے ایسی کیا خاص دشمنی ہے ۔ ان لوگوں کو یاد دلانے کے لیے جی چاہتا ہے کہ تاریخ سے انھیں کئی ایسی عورتوں کے نام یاد دلائے جائیں جو اس لیے انتہا پسندوں کا نشانہ بنیں کہ وہ عقل دوست تھیں اوران کے قدامت پرستانہ خیالات کی نفی کرتی تھیں۔ ان سے بہت سے لوگوں کو اس لیے خوف محسوس ہوتا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی باتیں اور ان کے کام لوگوں کی راہ روشن کریں گے ۔
چوتھی صدی عیسوی کی ہپاشیا کو لیجیے جو اپنے وقت کی اعلیٰ ریاضی داں ‘ فلسفی اور ادبیات کی استاد تھی اس زمانے کے فلسفی اور ریاضی داں اس سے سبق لینے آتے تھے ۔ اس کا جرم اس کی ذہانت تھی ۔ وہ حضرت عیسؑی کے مبعوث ہونے کے کئی سو برس بعد بھی بت پرست تھی، چنانچہ انتہاپسند مسیحیوں نے اس کی لائبریری جلا دی‘ اس کی ایجاد کی ہوئی اشیا توڑ پھوڑ دیں، تباہ کردیں اور اسی پر بس نہیں کیا ، اسے گھسیٹ کر اسکندریہ کی گلیوں میں لائے ‘ سنگسارکیا اور پھر اس کی لاش بھی جلا دی ۔ وہ فلسفے اور منطق میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے ، اس لیے انھوں نے اسے ملیا میٹ کردیا ۔
اسی طرح کی ایک مثال جون آف آرک کی ہے جو اپنے ہم وطن فرانسیسیوں پر برطانوی تسلط سے مضطرب تھی۔ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن دل میں جوش و جذبہ رکھتی تھی ۔ اس نے اپنی ولولہ انگیز تقریروں سے فرانسیسی سپاہیوں کے دل جوش وجذبے سے بھر دیے، اس کی کمان میں فرانس کی آزادی کا نعرہ ہر طرف گونج گیا ۔ ایک جنگ کے دوران وہ برطانوی فوجوں کے ہاتھ لگی ۔ اس پر ایک جھوٹا مقدمہ چلا اور اسے ’جادوگرنی‘ قرار دے کر ٹکٹکی پر باندھا گیا اور اس باہمت اور بے دھڑک نوجوان لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا ۔
صرف جون آف آرک پر ہی کیا منحصر ہے ۔ یورپ میں70 ہزار سے زیادہ پڑھی لکھی ذہین اورطب میں طاق عورتوں کوجادوگرنیاں کہہ کر زندہ جلا دیا گیا ۔ ان کی جائیداد پر چرچ نے قبضہ کیا اور ان کی تحقیق کو جادو ٹونا کہہ کر مسترد کردیا گیا۔ ذہین عورتوں سے خوف کھانے اور ان کے سامنے سرفگندہ ہونے کا خوف دیگر سماجوں میں بھی موجود تھا ۔ اس رویے کا اظہار پہلی صدی ہجری سے ہوگیا تھا اور بعد میں یہ بڑھتا چلا گیا۔
ہندوستان میں رضیہ سلطانہ کو اس کے بھائی اور درباری برداشت نہیں کرتے ہیں۔ وہ اپنے حبشی غلام یاقوت سے شادی کرتی ہے یہ شادی بھی اس کا جرم بن جاتی ہے اورآخرکار وہ قتل کر دی جاتی ہے ۔ اسی طرح چاند بی بی کا نام ہم کیسے بھول سکتے ہیں جس نے اکبر اعظم سے چار جنگیں لڑیں اور دکن کو بچائے رکھا۔ اس کی زندگی میں اکبر اعظم کا کوئی سپاہی قلعہ احمد نگر میں قدم نہیں رکھ سکا۔ چاند بی بی کے امراء کواس کی ذہانت اور فن سپہ گری میں اس کی مہارت گوارا نہ تھی ۔ انھوں نے اپنے سپاہیوں کے ذریعے اسے گھیرکر قتل کرا دیا۔
ان کا خیال تھا کہ اکبر انھیں چاند بی بی کی جگہ دے گا لیکن ان کی یہ حسرت دل میں رہی ۔ احمد نگر کا قلعہ فتح ہوا اور اکبر نے کسی کوقتل کرنے سے دریغ نہ کیا ۔ مغرب ہو یا مشرق دونوں میں وہ مثالیں موجود ہیں جن میں ذہین، باہمت اور بہادر عورتوں کو کبھی جادوگرنی ، کبھی طوائف اورکبھی چرچ اور بادشاہ سے باغی کہہ کر بد ترین سزائیں دی گئیں ، ان پر جھوٹے مقدمے چلائے گئے ۔ کسی کو سنگسار کیا گیا اور کوئی زندہ جلا دی گئی ۔
ملالہ کو ہزار شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ بیسویں صدی کے آخری برسوں میں پیدا ہوئی اور اکیسویں صدی کی دنیا میں اس نے انتہا پسندوں کے خلاف بغاوت کی۔ اس کی پشت پناہی کے لیے پوری دنیا کے علم دوست اور روشن خیال لوگ موجود تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی ہمت اور حوصلے کو داد دی ، اس کی جان بچائی اور اس پر داد و تحسین کی برسات کر دی ۔ کسی کا مذہب اس راہ میں حائل نہ ہوا ۔
اسے خوش ہونا چاہیے کہ وہ ایک ایسی صدی میں زندہ ہے جہاں اس کے اپنے اور مختلف عقائد رکھنے والے اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں، اب وہ صرف سوات کی نہیں ، دنیا کی بیٹی ہے ۔ ایسی بیٹی جس پر مشرق و مغرب سب ہی ناز کرتے ہیں ۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ