ہزاروں برس سے دنیا میں ہنگامہ بپا ہے جس کا سبب کتابیں، اخبار اور جرائد و رسائل ہیں۔ مصری پروہتوں اور تاجروں نے علامتوں پر مشتمل ایک طرز تحریر ایجاد کیا تھا لیکن وہ بہت مشکل تھا۔
ایسے میں ساری خطا فنیقیوں کی تھی جنھوں نے چھبیس حروف تہجی ایجاد کیے اور پھر فنیقی، مصری، آشوری اور آرامی تاجروں اور سیاحوں نے فن تحریر کو سات سمندرورں کے ساحلی شہروں تک پھیلا دیا۔ وہاں سے فن تحریر کا سلسلہ چل نکلا اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے بادشاہوں، امیروں، وزیروں اور پروہتوں کا چین و آرام حرام ہوگیا۔ ہزاروں برس تک کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔
نہایت قیمتی ہوتی تھیں اور نادر و نایاب بھی۔ رہی سہی کسر گٹن برگ صاحب نے پوری کی اور وہ متحرک چھاپہ خانہ ایجاد کر بیٹھے۔ اس کے بعد تو وہ معاملہ ہوا کہ سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں کتابیں چھپنے اور بکنے لگیں۔
دنیا کی حکمران اشرافیہ پر مخطوطوں اور چھاپہ خانے کا عذاب نازل ہونے سے پہلے دنیا کے تمام حکمران کسی سے ناراض ہوتے تو زن و بچہ کو کولہو میں پلوا دیتے، زبان گدی سے نکلوا لیتے، زندہ مخالفین کی کھال کھنچوا لینا بھی ایک من پسند مشغلہ تھا، کسی کو زندہ دیوار میں چنوا دیتے اور گردن اڑوا دینا تو مخالفین سے نمٹنے کا سب سے آسان نسخہ تھا۔
کچھ ایسے بھی تھے جو دشمن کا سر، سرکہ اور نمک کے آمیزے میں ڈبو کر محفوظ کرلیتے تھے اور بہ وقت فرصت اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ دھڑ کسی پل یا کسی پیڑ پر لٹکا دیا جاتا۔ مردار خور پرندے پہلے تو اس کے بدن پر دعوت اڑاتے اور پھر اس کی پسلیوں کے پنجر میں گھونسلہ بناتے۔
یہ زمانے صدیوں پہلے رخصت ہوئے اور اب فنیقیوں، آرامیوں یا گٹن برگ کو کیا کہا جائے کہ اب تو انٹرنیٹ اور واٹس اپ کا زمانہ ہے۔ سکینڈوں میں ہزاروں میل دور کی خبر کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔ کسی ایک صحافی کی انگلی میں پھانس چبھ جائے تو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ اور وہائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے ہونے لگتے ہیں اور ایشیا اور افریقا کے چھوٹے بڑے شہروں میں سیکڑوں لوگ ’مردہ باد، مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔
لیکن ہمارا معاملہ الگ ہے۔ لکھنے والے، صحافت کا پیشہ اختیار کرنے والے پہلے ہی کم تھے، پھر جب سے نخلِ دار پر سر منصور ہی کا بار آیا، تو کچھ باہر چلے گئے اور کچھ منقار زیر پر ہو کر بیٹھ رہے اور ملک واقعی ایسی مملکت ہو گیا جو خدا کی طرف سے تفویض ہوئی تھی اور جہاں اب کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود مفسدین جھوٹی خبریں چھاپتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں صحافی کو اٹھا کر لے گئے کیونکہ وہ جمہوریت اور ایسی ہی دوسری ناپسندیدہ باتوں کے بارے میں شور مچاتی رہتی تھی اور ایسے تمام مسائل اٹھاتی تھی جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے، اس کے غائب ہونے کی خبر پر دنیا بھر میں وہ شور مچا کہ اسے 4 گھنٹوں بعد ہی چھوڑ دیا گیا۔ کوئی پوچھے کہ تھوڑا سا ’ہوم ورک‘ کرنے میں بھلا ہرج ہی کیا تھا۔
یہ کس نے مشورہ دیا تھا کہ کسی صحافی کو اٹھاؤ تو اسے مار مار کر لہولہان کر دو۔ آج کے اخباروں میں کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں کام کرنے والے بڈھے پھونس صحافیوں سے ٹیوشن لیں۔ وہ انھیں بتائیں گے کہ اس دور میں سنسر کسی طرح ہوتا تھا اور کون سے لفظ شجر ِممنوع کی حیثیت رکھتے تھے۔ مثلاً یہ جملہ کہ وہ ’’پا برہنہ غسل خانے سے باہر آئی‘‘۔
اول تو اس جملے میں غسل خانے کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی اور پھر یہ کہ ’برہنہ‘ کا لفظ نازیبا ہی نہیں، فحش بھی ہے۔ یہ کیوں نہیں لکھا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے پیروں پر چل کر باہر آئی۔ جملے کی اس تصحیح کو بھی ایک سنسر افسر نے رد کر دیا تھا۔ ان کے ذہن مبارک نے اسے بھی ایک ترغیبی جملہ قرار دیا تھا۔ ان مسائل سے نمٹنے کا ایک سادہ طریقہ یہ ایجاد ہوا تھا کہ جس جملے پر اعتراض ہے اسے یکسر اڑا دیا جائے اور وہ جگہ سادہ چھوڑ دی جائے۔
اب یہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی خیال آرائی سے اس جگہ کو پُر کر لے۔ کچھ لوگوں کو افسوس اس بات کا ہوتا تھا کہ یہ شمع معمہ نہیں جس میں خالی جگہ پُر کرنے پر انعام بھی ملتا تھا۔ اشتہار میں کثیر انعامی رقم کی خوش خبری سنائی جاتی تھی لیکن اگر غلطی سے کبھی معمہ درست حل کر لیا جائے تو وہ خطیر رقم، سیکڑوں لوگوں میں تقسیم ہو کر ’حقیر رقم‘ رہ جاتی تھی۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ سنا یہ ہے کہ اس بات پر بھی ہائے واویلا ہے کہ لکھنے والوں سے قصیدے لکھنے کی فرمایش ہے۔ لیکن بہت سے کم عقلوں کو اس بات پر اصرار ہے کہ وہ وہی کچھ لکھیں گے جو انھوں نے دیکھا ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ لازم تو نہیں کہ ہر بات تمیں درست دکھائی دے۔ ہو سکتا ہے تمہاری آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے چشمے کا نمبر بدل گیا ہو اور تم نے جو کچھ دیکھا اور لکھا ہو، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ شاید نظم حکومت میں خلل پڑنے کے یہی اندیشہ ہائے دور دراز تھے جن کی وجہ سے شہنشاہ اکبر نے پرتگیزیوں کے تحفتاً لائے ہوئے چھاپہ خانے کو کاٹھ کباڑ کہا تھا اور کسی گودام میں ڈلوا دیا تھا۔
انگریز کی حکمرانی سے اپنوں کی حکمرانی تک کوشش یہی کی جاتی رہی کہ اخبارات کو تواتر اور تسلسل سے نکلنے نہ دیا جائے اور اگر وہ نکلیں بھی تو مقامی زبانوں کے بجائے انگریزی میں ان کی اشاعت کو ترجیح دی جائے۔
انیسویں صدی میں شورش انگیز خبریں صرف انگریزی میں شائع ہوتی تھیں اور ان کے مقامی زبان میں شائع نہ ہونے کا سبب یہ بتایا جاتا تھا کہ ہندوستانیوں کی مخالفت میں چھپنے والی خبریں اگر مقامی زبان میں شائع ہو جائیں تو عوام میں زیادہ وحشت اور غصہ پیدا ہو جائے گا، بلکہ یقینی بات ہے کہ لوگ فساد کھڑا کر دیں گے اور اپنے انجام کا خیال کیے بغیر ایک قیامت برپا کر دیں گے۔
چنانچہ اخبار والوں کو چاہیے کہ جو کچھ لکھیں، سوچ سمجھ کر لکھیں اور بے ہودہ بکواس سے بچتے رہیں۔ انیسویں صدی میں ایک انگریز پادری نے لکھا تھا کہ ہندوستانی اخباروں کی شکل بالکل گھٹیا سی ہوتی ہے، لیکن یہ ہر اس موقع پر کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں قانون ہار جاتا ہے۔ دیسی اخباروں کی تعداد اشاعت تو کم ہوتی ہے لیکن، اس کا اثر بہت دور دور تک ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی دن تک بعض اخبار چھوٹے شہروں اور دور دراز علاقوں میں تقسیم نہیں ہو پاتے کیونکہ وہ معصوم شہریوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایسے کئی ٹیلی وژن چینل جو مفسدانہ خبریں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، پہلے تو ان کی جھوٹی خبروں یا تبصروں کو سات یا دس سیکنڈ کے لیے روک کر انھیں سنسر کیا جاتا ہے اور اس سے بھی اگر کام نہ چلے تو وہ چینل بند کر دیے جاتے ہیں۔ یا پھر انھیں ابتدائی نمبروں سے اٹھا کر 99 نمبر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ آخر ہم اپنے معصوم بچوں کے ذہنوں کو مسموم ہونے سے بچانے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی احتیاطی تدابیر کرتے ہیں، پھر اپنے بھولے بھالے معصوم شہریوں کے ذہنوں کی حفاظت کیوں نہ کی جائے۔
ان دنوں عجیب عجیب خبریں آتی ہیں۔ سنا ہے کسی ہوائی دیدہ لڑکی کو کسی نے تنبیہہ کی خاطر چھرا دکھایا تو اس نے چھرا دکھانے والے کے خلاف پرچا کٹوا دیا، شاید اس بے حجاب لڑکی کو ایک آدھ خراش بھی آگئی تھی۔ سب نے مل کر اتنا غدر مچایا کہ توبہ بھلی۔ سنا ہے کہ اس کا مقدمہ خارج کر دیا گیا اور وجہ بہت معقول تھی۔ کہا گیا کہ عینی گواہ عدالت میں پیش نہیں کیے گئے۔ اب اگر انصاف کا تقاضا پورا نہ ہو رہا ہو اور عدالت مقدمہ خارج کر دے تو اس میں بھلا ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟
سچ پوچھئے تو ہمیں پریس کی ایجاد سے پہلے کے دور میں واپس چلا جانا چاہیے تاکہ اس نوعیت کی خبروں کے آنے کا سلسلہ بند ہو سکے۔ نہ صحافی مشکل پیدا کریں اور نہ ان کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو۔ آئیں اُس زمانے میں واپس لوٹ چلیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ