احفاظ الرحمن سے میری دوستی کو لگ بھگ چالیس برس ہوگئے۔ اس مدت میں کیسے کیسے نشیب و فراز آئے۔ صحافت ان کی محبوبہ تھی اور اس کی زلفیں سنوارنے کے لیے وہ جان پر کھیل جانے کو زندگی کی معراج سمجھتے تھے، شعلہ نفس اور شعلہ بہ جاں تھے۔ ایسے باضمیر لکھاریوں کے لیے پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی ایک زندان رہا اور آج بھی اس کی غیر مرئی سلاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔
احفاظ ابتداء میں افسانے کے میدان کی سیر کو نکلے تھے ۔ راستے میں روزی روٹی کے مرحلے بھی آتے تھے ۔ ایک ذمے دار بیٹا اور شوہر صحافت کے خار زار کی طرف نکل گیا ۔ منہاج برنا ، نثارعثمانی ، حسین نقی اور شوکت صدیقی کی رہنمائی میں احفاظ کی مزاحمت جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی ۔ پاکستان ابتداء سے غاصبوں اور آمروں کا ڈسا تھا ، عوام خس وخاشاک کی طرح روندے جارہے تھے،ایسے میں احفاظ نے جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل مشرف ہرآمر مطلق کے خلاف لکھا اور جم کر لکھا ۔
اس وقت ان کی کتاب ’’جنگ جاری رہے گی ‘‘ یاد آرہی ہے ۔ یہ ایسی تحریریں ہیں جوکسی ایک رنگ میں رنگی ہوئی نظر نہیں آتیں اور یہی ان کا حسن ہے ۔اس میںچی گویرا، ہوگوشاویز جیسے انقلابی جلوہ گر ہیں ، اس کے ساتھ ہی وہ سی آئی اے، ایف بی آئی ، جارج بش سینئر، جونیئر اور دوسرے استعماریوںکو اپنے قلم کی سان پر رکھتے ہیں ۔ وہ عالمی شہرت رکھنے والے امریکی دانشور نوم چومسکی کو اس بات کی داد دیتے ہیں کہ وہ خود کو آزادی پسند سوشلسٹ کہتا ہے اور کارپوریٹ اسٹیٹ کیپٹل ازم کی مخالفت کرتا ہے۔
وہ چومسکی کے اس نکتہ نظر کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ امریکی دہشتگردی کا مقصدکسی بڑی دہشتگردی کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ مخصوص مفادات کا کھیل ہے اوردراصل امریکا اپنے اقتصادی اور فوجی ذرایع استعمال کرکے پوری دنیا کو اپنا اطاعت گزار بنانا چاہتا ہے۔ وہ یہ نکتہ بھی اجاگرکرتے ہیں کہ امریکی شہریوں کو حاصل آزادی کسی امریکی حکومت کا عطیہ نہیں، یہ امریکا کی عوامی تحریکوں کا ثمر ہے ۔
وہ باب ڈیلن ایسے باغی گلوکار اور شاعر کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں جس نے امریکی سماج میں طاقت اور دولت کی بازی گری اور منافقانہ سیاست کی سفاکیوں کو بے نقاب کیا ۔ جسے ٹائم میگزین نے بیسویں صدی کی سب سے اثر انگیز اور پرکشش شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور جو ایک دردمند دانشورکی حیثیت سے امریکی سماج کی منتشر اور متضاد تصویروں کے اندر جھانکتا ہے، انھیں ٹٹولتا ہے اور ان کے اندر اپنی موسیقی کے تیکھے اور باغی رنگ بھر دیتا ہے۔
وہ جون لینن کی زندگی کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ جس کا شمار برطانیہ کی ہزار برس کی تاریخ کے چند عظیم ترین موسیقاروں اورگلوکاروں میں ہوتا ہے اور انگریزوں نے اسے اپنی تاریخ کی 100عظیم شخصیات کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔ وہ امن وانصاف کی جدوجہد میں پیش پیش رہا ، اس نے ویت نام کی جنگ کے خلاف اپنی شاعری اورگلوکاری سے نوجوانوں کو بغاوت پرآمادہ کیا۔
اسے ملکہ برطانیہ نے ممبر آف دی آرڈر آف دی برٹش امپائر اپنے ہاتھوں سے دیا تھا لیکن بیافرا ، نائیجیریا کے تنازعہ میں برطانوی مداخلت اور ویت نام میں برطانیہ کی امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس نے برطانیہ کا یہ اعلیٰ ترین اعزاز واپس کردیا تھا، پھر اس نے امریکا میں رہائش اختیارکی تو ایف بی آئی نے اس کی کڑی نگرانی شروع کردی، امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اسے کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن جانے والے ایک گلوکارکے بجائے ایک خطرناک انتہا پسند قرار دیتی تھیں جس کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سیاسی نظریات کا زہر اپنے گانوں کے ذریعے ان گنت امریکی نوجوانوں میں منتقل کرسکتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ اسے دن دہاڑے قتل کردیا گیا۔
اپنی اس کتاب میں وہ جسٹس رستم کیانی کا ذکرکرتے ہیں جو یوں تو دھان پان سے تھے لیکن جنہوں نے جنرل ایوب خان کی رعونت پر خاک ڈالنے کا فرض بڑی شان اور اہتمام سے ادا کیا اور ایک ایسی تقریب میں جس میں جنرل ایوب مہمان خصوصی تھے۔ انھیں مخاطب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’ فیلڈ مارشل ۔ آپ نے مارشل لا لگایا تو پہلے خاموشی چھائی رہی۔ پھر ہمیں سرگوشیاں سنائی دینے لگیں جب بہت سارے لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں تو یہ ایک Whispering campaign میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ مارشل لا نافذ کرکے فوج نے اپنا ملک خود فتح کرلیا۔‘‘
جسٹس کیانی کا زمانہ گزر گیا ۔ چہرے کچھ اور ہوں تب بھی پس پردہ کچھ اور لوگوں نے اپنی چھاؤنی بنائی ہوئی ہے ۔ آج ہمارے درمیان کوئی جسٹس رستم کیانی موجود نہیں جو یہ کہے کہ حضور آج بھی ہم آپ کے مقبوضہ اور مفتوحہ علاقے میں رہتے ہیں ۔
آزادی صحافت کے لیے پاکستان میں 77-78ء کے دوران صحافی جس کرب و بلا سے گزرے اس کی داستان احفاظ نے سب سے بڑی جنگ کے عنوان سے قلم بند کی ہے۔ آزادی صحافت کی یہ وہ عظیم جدوجہد تھی جس کے بارے میں ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’اگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس جیسی تنظیم ہندوستان میں ہوتی تو اندراگاندھی کبھی ایمرجنسی لگانے کی ہمت نہ کرتیں۔‘‘
احفاظ خوش نصیب ہیں کہ مہ ناز ایسی باہمت اور جفاکش عورت ان کی شریک حیات ہے ۔ ان کی کتاب ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ کی تحریر اور ترتیب و تدوین میں مہ نازکا بنیادی کردار ہے جنہوں نے سالہا سال تمام اخبار، رسائل اور تراشے سنبھال کر ایک دو چھتی میں رکھے اور جب احفاظ کو ان کی ضرورت ہوئی تو ان کے سامنے رکھ دیے ۔ یہ بھی ان کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں روزنامہ ایکسپریس میں اقبال خورشید ایسا معاون میسر آیا جس نے ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ کی تحریر و تدوین میں ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا ۔ اس میں تشدد کی کہانیاں ہیں اور فرہاد زیدی ، مسلم شیخ ، علی احمد خانِ، ظفر قریشی اور شبراعظمی کی جیل بیتیاں ہیں۔
جیل سے لکھے جانے والے چند خطوط ہیں ۔ اس میں ڈاکٹر ناصرہ محمود اور شاہدہ جبیں اورکئی دوسری خواتین کے نام ہمیں ملتے ہیں جنہوں نے اس سفاک جنگ میں بہادری سے حصہ لیا ۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیں ان لوگوں کے نام یاد دلاتی ہے جنہوں نے آمریت کے بدترین دنوں میں ہار نہیں مانی اور ہتھیار نہیں ڈالے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے ساتھی صحافیوں کو جب ٹکٹکی پر باندھ کرکوڑے مارے گئے تو احفاظ ان کے لیے بلک بلک کر روئے ۔ آج جب ان کے سامنے مصلحت پسند لکھاریوں کا نامۂ اعمال کھلا ہوا ہے تو وہ تڑپ جاتے ہیں اور آزادیٔ صحافت کے دعویداروں کو یاد دلاتے ہیں :
’’ ایک زمانے میں صحافیوں کی انجمن کا کردار مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا ۔ اس کے لیڈر آزادی صحافت کے جذبے سے گہرا لگاؤ بھی رکھتے تھے اور ٹریڈ یونین کے اصولوں کو سربلند رکھنے کے لیے دوسرے شعبوں کے محنت کشوں کو بیدار کرنے کے لیے بھی متحرک رہتے تھے ۔ اب پست ہمتی کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پر اور بازاروں میں جانے کے بجائے صحافیوں کی تنظیمیں اکثر اوقات پریس کلبوں کے سامنے اپنے ’’ مظاہروں ‘‘ کا اہتمام کرتی ہیں ۔ بلند بانگ دعوے ، فلک شگاف نعرے ، دھواں دھار تقریریں ، ’’ہم وہ ہیں جو جیلیں بھردیتے ہیں، کوڑے کھا کر بھی حوصلہ نہیں ہارتے ۔ ’’مشکل سے تیس چالیس شرکا۔کھیل ختم پیسا ہضم ۔ کوئی پوچھے ، آپ نے جیلیں کب بھریں ،کوڑے کب کھائے ؟ 1977-78ء کے واقعے پر کب تک گزارہ کریں گے آپ؟‘‘
افسانہ نگار، صحافی ، شاعر، دانشور احفاظ ان آدرش وادیوں میں سے ہیں جو آزادیٔ صحافت اور اس کی حرمت کے لیے انگاروں پرچلے ہیں، بہت سے امتحانوں سے گزرے ہیں ۔ وہ موجودہ صورت حال سے دل فگار ہیں ۔
احفاظ نے آمریت کے بدترین دن گزارے اور پھر کینسر جیسی اذیت ناک بیماری نے انھیں چھاپ لیا ۔ یہ لڑائی وہ مہ ناز ، فے فے ، رمیز اورکئی دوسرے دوستوں کی دل دہی اور دوست داری کے بغیر نہیں جھیل سکتے تھے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور ڈاکٹر شیر شاہ کی نوازش جنہوں نے احفاظ کے اعتراف کے لیے آج کی محفل سجائی ۔
پاکستان پر آج پھر کڑا وقت ہے۔ صحافت غیر مرئی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب احفاظ جیسے ہار نہ ماننے والوں کی آج ، پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ۔ پہلے باغیوں اور آمریت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی کمی نہ تھی ۔ آج احفاظ جیسے جی دار ڈھونڈے سے ہی ملتے ہیں ۔
(احفاظ الرحمن کی تقریبِ اعتراف میں پڑھا گیا۔)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ